میں ہندوستان ہوں

الطاف جمیل ندوی
ہندوستان اس نام کا ایک ملک ہوں جہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگ صدیوں سے رہ رہے ہیں جہاں گنگا جمنا تہذیب و ثقافت میری پہچان بنی ہوئی تھی میرا وجود کب ہوا کیسے ہوا یہ معاملہ اب بھی تحقیق طلب ہے کیوں کہ میرا یہ المیہ ہے کہ میری زیادہ تر تاریخ یا تو زبانی اور دیومالائی روایتوں پر مشتمل ہے یا پھر بیرونی سیاحوں کی مرہون منت ہے۔ اس میں چینی سیاح ہیون سینگ بھی ہے، االبیرونی بھی اور کئی برطانوی مورخین بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کی وجہ تاریخ کے موٹے سوالات کا جدید دور تک بھی کوئی تشفی نخش جواب کبھی دیا نہیں گیا۔ مثلًا یہ سوال کا کوئی مؤرخ جواب نہیں دے سکا ہے کہ ہندوستان کا سب سے عظیم حکم ران کون ہے۔ کسی نے یہ اعزاز ہرشا کو دیا، کسی نے چندر گپت موریا کو، کسی نے اکبر کو یہ خطاب دیا ہے تو کوئی یہ خطاب اورنگ زیب کو دیتا ہے میں جہاں رہتا ہوں وہیں میرے پڑوس میں افغانستان چین اب پاکستان بنگہ دیش جو میرے ہی وجود کا حصہ تھے موجود ہیں اور ان کے درمیان میں موجود ہوں اپنی تہذیب و تمدن کے ساتھ
کہتے ہیں جب باوا آدم جنت سے نکالے گئے تو میری دھرتی پر اترے تھے مطلب گر یہ سچ مان لوں تو میری تاریخ بہت پرانی ہے یہاں بڑے بڑے راجا بھی پیدا ہوئے اور یہ دیش دشمنوں کی بھی بہت تعداد پیدا ہوتی رہی یہاں گر علم و ادب کے سورج طلوع ہوئے تو جہالت کے ستارے بھی جگمائے میرے سینے پر یہاں گر امیر و کبیر افراد بھی پیدا ہوئے پر سڑک پر بھوک پیاس سے بلکتے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد پیدا ہوتی رہی یہاں گر ہندوؤں نے میرے سنورنے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے بھی اپنا گرم لہو دے کر مجھے سیراب کرنے میں کسر نہ رکھی یہاں گر سکھ مذہب نے عروج پر تو بودھ بھی کم نہیں ہیں یہاں مسجد سے اذان مندر سے بجن گردوارے سے گرنتھ کے پاٹھ صدیوں سے سنائی دیتے ہیں یہاں ہندو عید کی مبارک دیتا ہے تو مسلم بھی دیوالی جیسے تہواروں پر ہندو دوست کو بھولتا نہیں یہاں کا آپسی بھائی چارہ مشہور و معروف مانا جاتا ہے
یہاں مسلم آئے عرب میں اسلام کے ظہور کے بعد تو یہاں کی آب و ہوا بھائی چارے کے ہوکر رہ گئے جن کی تعلیمات سے یہاں کثیر تعداد مسلمان ہوگی یہاں تہذیبوں کا تصادم نہیں تھا بلکہ بھائی چارہ اور آپسی محبت تھی یہاں جابجا مسلم حکمرانوں کی یادیں اپنے پورے قد اور خوبصورتی کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے آکر یہاں کی ریتی رواج کو افق پر خوشنما بنا کر یادگاری بنا دیا ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت کی بھی کمی نہیں مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے مجھے ہی اپنا وطن اپنا مسکن بنا دیا یہیں رہے یہیں پر اپنی زمام حکومت بنائے رہے
المیہ تب ہوا جب گورے لوگ یہاں اپنے شاطر دماغ کے ساتھ وارد ہوئے میں نے انہیں بھی جگہ دی پر یہ قوم آکر مجھ کو ہی مسلنے لگی اس قوم نے آتے ہی مجھ پر ستم ڈھانے شروع کئے ہمیں آپس میں الجھا کر اس نے اپنے مقصد کو پالیا میرے ہی گھر کے بھیدی ان کے ہم راز بن گئے جنہیں مجھ سے زیادہ اپنی فکر تھی پر تب بھی میرے لئے جگروں نے ان کی تانا شاہی کو للکارا ان کا مقابلہ کیا جو الگ سے ایک موضوع ہے کہ کون سے بہادر کون سے یودھاؤن نے اپنی جان کی بازی لگا کر میری عزت بچانے کے جتن کئے پر گھر کے بھیدی جو لوگ انا کے شکار تھے انہوں نے ان بھوکھے بیڑیوں کو مجھ پر مسلط کر ہی دیا پھر سے ایک جنگ سا ماحول بنتا گیا جہاں پھر سالوں ان دیش کے لٹیروں سے میرے بچے لڑتے رہے سروں کی ایک فضل تھی جو نچھاور ہوتی رہی میرے لئے قربان تھک ہار کر یہ گورے مجھ سے تنگ آگئے میری بربادیوں کی داستان انہیں کم ظرفوں نے شروع کی بھاگ تو گئے میرے گھر سے مگر جاتے جاتے وہ زخم دے گئے جو ناسور بن کر رہ گئے میرے پورے وجود کو ناسور بنا دیا میرے وجود کے ٹکڑے کردئے ان ظالموں نے مجھ سے میری اولاد کی اک فصل چھین کر چلے گئے میرے وجود سے اب بھی وہ زخم رس رہے ہیں جو اس ظالم و جابر قوم نے مجھے دیئے تب سے میں کرب و اذیت سے دھک رہا ہوں
جہاں کبھی تہذیب و ثقافت سجتی سنورتی تھی وہاں اب موت کا رقص ہوتا ہے جہاں پہلے بھائی چارہ ہوا کرتا تھا وہاں اب وحشت و بربریت اپنا راگ آلاپ رہی ہے جہاں پہلے محبت و اخوت کا پرچار ہوا کرتا تھا وہاں اب نفرت و عداوت پنپتی ہے اس ظالم نے وہ تہذیب یہاں پروان چڑھائی کہ میری معصوم بچیاں اب یہاں آئے روز مسلی جارہی ہیں جن کی درد ناک چینخ و پکار میرا وجود لرزا دیتی ہیں جن کی آہ بکا مجھے جنجھوڑ رہی ہے
میرے وجود پر سسک رہی ہے اب انسانیت شرم و حیا ترس رہی ہے حیرت و حمیت منہ چھپا رہی ہے تشدد و تعصب پروان چڑھ رہا ہے یہاں اب رنگ و نسل کے نام پر تہذیب و ثقافت کے نام پر ہنگامے ہورہے ہیں یہاں اب عزت و توقیر کا جنازہ اٹھ رہا ہے پر شومئے قسمت میرے وجود کا حصہ بنے کچھ حاکم اپنی رعایا کے لئے چینگیزیت کو بھی مات دینے پر تلے ہوئے ہیں معصوم و مجبور لوگوں کے خون کی پیاس ہے ان کو ان کے سینے میں دل نہیں سر میں دماغ نہیں بجائے مجھ سے میرے زخم صاف کرتے الٹا مجھے لہو لہو کرنے میں شرمسار نہیں ہوتے بلکہ خود ہی خود کو دھرتی کی اولاد کہتے ہیں میں خود حیران ہوں جس دھرتی کو ماں کہتے ہیں اسی دھرتی کے بچوں کو کیوں مسل رہے ہیں وہ سب میرے اپنے ہیں جن کے لہو کو تم اپنی خوراک بنائے ہو میرے بچے جہاں ایک طرف بھوک پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں وہیں دوسری طرف دوسرے بچے عیش و عشرت کی مثالیں بنا رہے ہیں جہاں میرے بچے گندگی و غلاظت کے ڈھیر پر بسیرا کرنے پر مجبور ہیں وہیں دوسری طرف عالیشان محل بن رہے ہیں جہاں ماں اپنے بچے کو ایک بریف کیس پر رکھ کر چلی جارہی ہے تھکاوٹ سے چور وہیں ہوا کے دوش پر بھی اپنا وقت برباد کرنے والوں کی کمی نہیں جہاں ایک ماں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ریلوے پر مر رہی ہے وہیں دوسری اور کچھ مائیں عیش و عشرت سے ناچ گا رہی ہیں جہاں ایک ایسی ہوا چلی ہے جس میں نفرت عناد ابلیسی قہقہے بلند ہو رہے ہیں انسانیت دم توڑ رہی ہے ایک ایسی انسان نما مخلوق دندناتی پھر رہی ہے جو اپنے وحشی جانوروں سے بھی دو قدم آگئے بھاگ رہی ہے جو وحشی درندوں کو بھی حیران و ششدر کئے ہوئے ہے کہ کیسے کر رہے ہو یہ سب کہ اپنے جیسے کسی جاندار کی چینخ و پکار کیسے سنتے ہو کیسے ان کا انگ انگ ان کے جسم سے جدا کرنے کی قوت لاتے ہو کیا تم بھی انسان ہو
ہزاروں باتیں ہیں ہزاروں قصے ہیں جو میرے وجود کو پامال کئے ہوئے ہیں جو مجھ کو شرمسار کر رہے ہیں پوری دنیا میں کیا مزہ اس وجود کا جو اپنوں کے دئے زخم سہلا رہا ہوں ان وحشیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے بس اس کرؤنا کی وبا کے ہوتے ہوئے میں تڑپ رہا ہوں کہ کیسے بچے ہیں جو اپنی جیسی ہی مجبور انسانیت سے کھیل رہے ہیں سنا ہے جانور کے حمل کے ضیاع پر تو چلا رہے ہیں پر وہ میری صفورا بیٹی اس کے لئے کیوں نہیں اسے سے تو سلاخوں کے درمیان رکھا ہوا ہے گائے بچھڑے کی تو بلائیں لے رہے ہو بتاؤ تو اپنے جیسے ان مزدوروں کو کیوں نہیں پوچھتے ہو جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مرغوں کی بیماری کو جان کر اس کا علاج و معالجہ کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہو تو ارے پیٹ کے پجاریو یہ تو بتاؤ انسانوں کے علاج کے علاج کے لئے کیا کر رہے ہو ان کی بھوک کی بیماری پیاس کی بیماری نفرت کی بیماری دشمنی جسے پروان چڑھا رہے ہو اس کا علاج کیوں نہیں کرتے کتا اسپتال میں علاج کروا سکتا ہے تو وہ گلی گلی میں جانے والے سیدھے سادھے فقیر منش لوگ علاج کے مستحق کیوں نہیں کیوں کہ انسانوں کی جان اب قابل توجہ نہیں یہ کیسا وقت آگیا کہ انسانیت کے ساتھ ساتھ حیوانیت بھی حیران و ششدر ہے
جاگو میرے بچو جاگو! گر انسان نہ رہیں گئے تو پھر وطن کا کیا جب انسانیت ہی مر جائے تو پھر وجود کا کیا اس وبا کے ہوتے ہوئے خود کو سنبھال لو آپسی محبت و اخوت سے اس وبا کا مقابلہ کرتے رہو انسانیت کو بچا لو تو پھر سے بات بنے گی ہوائیں نوید سحر لے کر پھر سے مچلیں گی بس تم آئے دیش کے بچوں ہوش میں چلے آؤ۔
Comments are closed.