Baseerat Online News Portal

6 جون ؛ انڈین ریلوے کا بلیک ڈے

ساجد حسین سہرساوی

اس دن صبح صبح میں اور میرا بھائی "بنارسی سنگھ” بدلا ( ایک جگہ اور اسٹیشن کا نام ) بازار کرنے گئے تھے دن بھر بازار کرنے کے بعد شام کو ٹرین پکڑنے بدلا گھاٹ اسٹیشن پہنچے وہاں ہمارے پڑوسی ” گنگا” سے ملاقات ہوئی "لوٹے” میں رسگلے ( مٹھائی) لیے خوشی سے لبریز گنگا نے بتایا کہ داماد دیکھنے آیا تھا بات پکی ہوگئی ہے اس لیے گھر والوں کےلیے مٹھائی لے کر جارہا ہوں بات چیت چل ہی رہی تھی کہ 416 ڈاؤن پسنجر ٹرین بدلا گھاٹ پر آ رکی ٹرین میں بھیڑ زیادہ تھی کھچاکھچ یاتریوں سے بھری ٹرین میں ہم دونوں بھائی اور پڑوسی گنگا بمشکل جگہ تک پہنچے سیٹ خالی نہیں تھی اسلئے سیٹ کے اوپر لگے پھٹے پر میں بیٹھ گیا میرا بھائی اور گنگا اسی بھیڑ میں یاتریوں کے بیچ کھڑا رہا ٹرین اسٹیشن سے کھل کر رفتار پکڑی ہی تھی کہ تیز آندھی شروع ہوگئی آندھی کی رفتار عام آندھیوں کے مقابل بہت زیادہ تھی ہر سمت اندھیرا چھاگیا تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی اور ڈبے کے اندر بوندیں آنے لگیں تو لوگوں نے جلدی جلدی کھڑکیاں بند کرنے شروع کر دیے وہیں تیز آندھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی جس سے گیٹ پر کھڑے یاتریوں کو کافی پریشانی ہونے لگی تو کسی کے کہنے پر گنگا گیٹ بند کرنے ہی لگا تھا کہ گاڑی زور سے ہلنے لگی ہم سبھی یاتریوں کو اندیشہ ہوگیا کہ کچھ برا ہونے والا ہے میں نے اپنے بھائی سے کہا بنارسی! شاید ٹرین پلٹ جائے گی بنارسی یہ سن کر حواس باختہ ہوگیا اسی بیچ زور سے ہلتی ہوئی ٹرین پلٹ گئی میری آنکھیں پانی میں کھلی اور آنکھیں کھلتے ہی کسی طرح تیرنا شروع کر دیا گنگا تو نہیں ملا پر میں اپنے بھائی بنارسی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا.
یہ روداد دل خراش آج سے 39 برس قبل ( 6 جون 1981ء ) ” مانسی جنکشن سے سہرسہ جنکشن جانے والی ٹرین نمبر 416 کے ” حادثے سے کرشماتی طور پر جاں بر ہونے والے دو بھائیوں ” بہادر سنگھ اور بنارسی سنگھ ” کی ہے "دھمارا گھاٹ” اسٹیشن سے پورب "بنگلیا” گاؤں کے ایک چھوٹی سی کٹیا میں اپنی عمر کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے دونوں بھائیوں سے آج بھی لوگ دور دراز سے ملنے آتے ہیں اور موت کی چنگل سے کرشماتی طور پر باہر آنے والے دونوں بھائیوں کو دیکھ کر خود کے دیکھے پر یقین نہیں کر پاتے.
6 جون بروز سنیچر 1981ء انڈین ریلوے لائن کی تاریخ کا اب تک کا سب سے سیاہ دن کہلاتا ہے ” مانسی جنکشن سے سہرسہ جنکشن” کے درمیان نو ڈبوں پر مشتمل چلنے والی پسنجر ٹرین میں سے ” بدلا گھاٹ اور دھمارا گھاٹ ” کے درمیان واقع ” باگمتی ندی اکیاون نبمر پل میں ” چھ ڈبے تیز آندھیوں اور بارشوں کے باعث گر گئے جس کے سبب (سرکاری شمارے پانچ سو سے آٹھ سو تک ) عینی شاہدین کے مطابق تین ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بنے ہزاروں کی نعش کا پتا تک نہیں چلا کئی ڈبے بھی تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملے کئی خاندان مٹ گئے ہمارے گاؤں سے دو کلو میٹر دور کے ایک گاؤں سے دو دن کی نئی نویلی دلہن کو میکے سے واپس لارہے ایک خاندان اور چند رشتہ دار سمیت سبھی لوگ غرقاب ہوگئے اور ان کی نسلیں تک ختم ہوگئیں اس حادثے کو یاد کرکے آج بھی لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.
یوں تو یہ واقعہ بارہا سن چکا ہوں لیکن آج جب صحن خانہ میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا تو کسی وارد شخص نے اس کا تذکرہ کر دیا تو میری والدہ یکدم سے بیخود ہوگئیں کیونکہ ان کا اکلوتا بھائی بھیڑ کے سبب وہ ٹرین چھوڑ چکا تھا اور پھر اس واقعہ پر گھنٹوں مذاکرے ہوئے ؛ کہا جاتا ہےکہ __دن کے تین بج رہے تھے لگن کا مہینہ تھا جس کے سبب ٹرین اندرون ڈبہ پائدان سمیت چھت تک کھچاکھچ بھری ہوئی تھی__ اس روز بلا کی آندھی آئی تھی بارش بھی اور دن کے مقابل تیز تھی پٹڑی پر پھسلن ہوچکی تھی اپنی رفتار پکڑ چکی ٹرین جیسے ہی باگمتی اکیاون نمبر پل کے قریب سے گزری کہ اچانک ایک بھینس سامنے آگئی اس بھینس کو بچانے کے چکر میں ڈرائیور نے یکبارگی بریک مار دی انجن سمیت تین ڈبے تو پل سے نکل چکے تھے بقیہ ڈبے پل سے پھسل کر باگمتی ندی کی نذر ہوگئے.
سرچ کرنے پر پتا چلا کہ ریلوے لائن میں اس نوعیت کا حادثہ ورلڈ کا دوسرا اور ہندوستان کا پہلا حادثہ ہے اور اس حادثہ کی ایک خاص بلکہ انسانیت کو شرمسار کر دینے والی بات یہ بھی بتائی جاتی ہےکہ جائے حادثہ پر پہنچنے والے مسیحا کم مافیا زیادہ تھے ڈوبنے والوں کے نہ صرف سامان لوٹ لیے گئے بلکہ عورتوں کے ہاتھ اور گلے کاٹ کر گہنے زیورات نکال لے گئے آبرو تک لوٹی گئی بعد میں کئی گھروں میں چھاپہ مارنے کے بعد لوٹے ہوئے کچھ سامان واپس ملے سرکاری شمارے کی مانیں تو صرف آٹھ سو لوگ غرق دریا ہوئے لیکن آس پاس کے لوگوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین ہزار سے متجاوز ہے ہفتوں غوطہ خور نعش نکلاتے رہے کئی نعشیں ملی ہی نہیں کئی ڈبوں کے متعلق بھی خبر ہےکہ اب تک اس کا پتا نہیں چلا اور یوں 6 جون انڈین ریلوے لائن کی تاریخ کا سب سے سیاہ دن کہلایا جانے لگا جسے یاد کر آج بھی روح کانپ جاتی ہے.

Comments are closed.