Baseerat Online News Portal

تعلیم ودعوت کے لئے ویڈیوز،تصاویراورمجسموں کے شرعی احکام

?دارالافتاء شہر مہدپور?

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

سوالات:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
خیریت سے ہیں؟حضرت دامت برکاتہم؟
ایک کام کو لےکر کچھ ذہنی خلجان ہے، اس پر آپ کی رہنمائی مطلوب ہے۔
1. ٹک ٹاک، واٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب ودیگر سوشل میڈیا کے لیے دینی واصلاحی ویڈیوزتیار کرنے اور آگے سینڈ کرنے کا کیا حکم ہے؟جائز ہے یا ناجائز؟
2. کیا نصاب تعلیم میں ابتدائی درجات کے بچوں کے لئے ایسی کتابیں ۔جن میں جانوروں کی تصاویر اور اعضاء انسانی کی تصاویر ہوتی ہیں۔ نصاب میں شامل کرنا درست ہے؟
3.کیا تعلیمی مقاصد کے لئے کسی چیز پر نقش کیے بغیر ڈیجیٹل تصویر کے ذریعے کام لیا جا سکتا ہے؟
4.اسی طرح آج کل ابتدائی درجات کے لئے پلاسٹک یا لکڑی کے مجسمے،جو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں۔ کلاسوں میں رکھے جاتے ہیں؛تاکہ بچے جانوروں کے نام پڑھتے ہوئے ان کے مجسمے بھی دیکھ لیں، اس کوجدید طریقۂ تعلیم میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ کیا یہ مجسمے کلاسوں میں مہیا کراناجائز ہوگا؟
چند دنوں سے احقر نے اساتذہ کی زبانی بیان کیے گئے چند مسائل کو روز یوٹیوب پر غیر تصویری ہندی و اردو قالب میں ڈھالنا شروع کیا ہے۔
احقر کا مدرسہ کی تعلیمی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر کام کرنے کا ارادہ عرصہ سے تھا۔اب مزید اس طرف بڑھنے کا ارادہ ہو رہا ہے۔ یوٹیوب پر اسلام وغیر اسلام کے نام پر پوری فوج ہے۔اور اس کے مقابلہ میں اہل حق کی تعداد کا فیصد طے کرنا اب بھی مشکل ہے؛ اس لئے یہ طالب علم بھی اپنی ممکنہ حدتک بڑوں کی رہنمائی میں آگے بڑھنے کا عزم رکھتا ہے۔ اسی اثنا متعدد رفقا،احباب و متعلقین نے بھی اس پر گذارشات کی ہیں کہ تم بذاتِ خود وسیلے کے طور پر یوٹیوب پر آؤ۔ تاہم اب بھی مکمل اطمینان نہیں ہوا ہے۔
جس کی چند وجوہات یہ بھی ہیں:
(الف)ڈیجیٹل تصویر کشی ویڈیو گرافی کا مسئلہ۔
(ب) موضوعات کا انتخاب
(ج)اکابر کو پیش نہ کرکے خود آنا۔ اسی طرح کچھ اور باتوں کو لے کر بے اطمینانی ہے۔ آپ اس سلسلے میں حساس بھی ہیں اور واقف بھی ۔ تفصیلی طور پر تحریری یا صوتی پیغام کے ذریعے کچھ رہنمائی فرمائیں.

(مفتی) سیف اللہ عرشی قاسمی
(اندور، ایم پی)

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب حامد ومصلیاومسلما امابعد:
ٹک ٹاک وغیرہ کے بارے میں تفصیلی معلومات نہیں ہے۔ البتہ معبودان باطلہ کے علاوہ ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل ذی روح کی تصاویر ومجسموں کے سلسلے میں ذیل میں نمبروارپہلےمختصر اصولی احکام بیان کیے جاتے ہیں۔ پھردلائل وتفصیلات پیش کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ

1. ذی روح کی اتنی چھوٹی تصویریں کہ جنہیں زمین پر رکھ کر کھڑے ہوکر دیکھیں تو وہ سمجھ میں نہ آئیں، وہ جائز ہیں۔
2. اسی طرح کم میگاپکسل سے ڈیجیٹل تصویر کشی جائز ہے۔
3. موضع اہانت میں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل تصاویرجائز ہیں۔
4. محل ضرورت میں معبودانِ باطلہ کے علاوہ کی تصاویر اور مجسموں کی صنعت اورخرید و فروخت جائز ہے۔
5. تعلیمی و تبلیغی پروگراموں میں ذہنی ارتکاز کے لیے ڈیجیٹل تصاویر بہت اہم و مؤثر ہیں؛ اس لیے ضرورت ہے کہ اس وقت چھوٹی چھوٹی کلپ کی صورت میں دینی و اصلاحی اور دعوتی کلپس بکثرت بنا کرسوشل میڈیا کی تمام اقسام و انواع میں نشر کی جائیں۔
سوشل میڈیا پر اکابر کے بجائے نئے فضلاء مدارس بہتر ڈھنگ سے کام کرسکتے ہیں؛ اس لیے اکابر علماءکی رہنمائی میں نئے فضلاء سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھا کر اپنی دینی و دعوتی ذمہ ادا کریں۔

*تصویر کشی اور مجسمہ سازی سے متعلق فقہی جزئیات*
حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نوراللہ مرقدہ نے بہت پہلے ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا،جس میں تصاویرغیرمعبودہ کو 14/ احادیث اور متعدد فقہی جزئیات سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی تھی ۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے ایک وقیع رسالہ تحریر فرمایا۔ راقم الحروف کے سامنے حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی وہ تحریر
کشف التزویر فی احکام التصویر شریک اشاعت جواہر الفقہ ج 4 صفحات 8تا63 اور”التصویر لاحکام التصویر” شریک اشاعت جواھرالفقہ جلدسوم (ص: 167 تا 255) موجود ہے۔ اس میں31/ احادیث نبویہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے استدلال اور تفصیلی کلام کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ:
”ذی روح کی تصویر کشی اورمجسمہ سازی عام حالات میں متفقہ طور پر ناجائز اور حرام ہیں”
جن احادیث اور فقہی عبارات سے مخصوص موقعوں پر تصویروں اور مجسموں کا جواز معلوم ہوتا ہے؛ ان میں سے بعض ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔
ممکن حد تک راقم الحروف (محمد اشرف قاسمی) نے ان عبارات کے ماخذ و مصادر کی طرف بھی مراجعت کی کوشش کی ہے۔
”(22) ابوھریرۃ رفعہ فی التماثیل رخص فیما کان یؤطأ وکرہ ماکان منصوبا بالاوسط بضعف (جمع الفوائد، جلد1/ ص127/)

ترجمہ: "حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نےفرمایا کہ: جو تصاویرمحل اہانت میں پامال ہوں، ان کی اجازت ہے، اورجو کھڑی ہوں وہ ناجائز ہیں۔” جمع الفوائد
”(12) عن ابی ھریرۃ قال استأذن جبریل علیہ السلام علی النبی ؐ فقال ادخل فقال کیف ادخل وفی بیتک ستر فیہ تصاویر فاما ان تُقطَّع رؤسھا او تجعل بساطا یوطأ ، فانا معشر الملائکۃ لاندخل بیتا فیہ تصاویر،رواہ النسائی از تاج الجامع۔”
"حضرت ابوہریرەؓ سے روایت ہے کہ ایک روز جبرئیل امین نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تشریف لائیے۔ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ میں کیسے آؤں؟ جب کہ آپ کے مکان میں ایک پردہ پڑا ہے جس میں تصاویر ہیں، تو آپ یا تو تصاویر کے سر کاٹ دیجیے یا اس پردے کو پامال فرش بنا دیجیے؛ کیوں کہ ہم جماعت ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں۔” (نسائی)
”(23) مسند احمد میں حضرت عائشہ ؓ کے مصور پردے کے قصے میں جس میں پردے کو پھاڑ کر گدّا بنا دینا مذکور ہے، یہ الفاظ بھی ہیں۔
فکان فی البیت یجلس علیہ وفیہ صورۃ۔(مسند احمد)”
"یہ (تصویروں کی وجہ سے پھاڑا ہوا) گدا گھر میں رہا جس پر آپ صلی الله عليه وسلم بیٹھتے تھے، حالاں کہ اس میں تصویر موجود تھی۔” (مسند احمد)
”(25) عن اللیث قال دخلت علی سالم بن عبد اللہ وھو ومتکئ علی وسادۃ فیھا تماثیل طیرووحش فقلتُ الیس یکرہ ھذا قال لا ! انما یکرہ ما نصب نصبا۔” (مسند احمد مع فتح ربانی جلد17/ ص277/)
"حضرت لیث فرماتے ہیں کہ: حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر گیا تو وہ ایک تکیہ سے کمر لگائے بیٹھے تھے، جس میں پرندوں اور وحشی جانوروں کی تصویریں تھیں، میں نے عرض کیا کہ ان کا استعمال مکروہ و ناجائز نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں؛ بلکہ ناجائز وہ تصویریں ہیں جو کھڑی ہوں۔” (مسند احمد)
”(26) طبقات ابن سعد جزؤ تابعین ص136/ میں ہے: کہ حضرت عروہؓ کے بٹن میں آدمیوں کے چہرہ کی تصویریں تھیں۔
(27) اسدالغابہ میں حضرت انس بن مالکؓ کے حالات میں ہے کہ ان کی انگوٹھی کے نگینہ پر ایک شیر غراں کی تصویر بنی تھی۔
(28) حضرت ابوہریرہ ؓ کی انگوٹھی میں نگینہ تھا اس میں دو مکھیوں کی تصویریں بنی تھیں۔
(29) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک انگوٹھی دستیاب ہوئی جس کے متعلق یہ معلوم ہوا تھا کہ: یہ دانیال نبی کی انگو ٹھی ہے۔ اور اس کے مُرَقَّع تھا کہ دو شیر دائیں بائیں کھڑے تھے بیچ میں لڑکا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ انگو ٹھی حضرت ابو موسی اشعریؓ کو عنایت فرمائی۔” (منقول از: معارف اعظم گڑھ)
(30) ابوداؤد، باب اللعب بالبنات میں حضرت عائشہ صدیقہؓ بروایت عروہؓ منقول ہے:
قالت کنتُ العب بالبنات فدخل علی رسول اللہ ؐ وعندی الجواری فاذا دخل خرجن واذاخرج دخلن۔(از: بذل المجھود: جلد5/ ص264/)
"حضرت عائشہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں کہ میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، بسا اوقات رسول الله صلى الله عليه وسلم تشریف لاتے اورمیرے ساتھ کھیلنے والی لڑکیاں ہوتیں، جب آپ علیہ السلام اندر آتے تو،وہ باہر چلی جاتیں، جب آپ علیہ السلام باہر جاتے تو وہ پھر آجاتی تھیں۔” (بذالمجہود)

اس باب میں بروایت ابی سلمہ بن عبد الرحمن کے الفاظ یہ ہیں:
قالت قدم رسول اللہ ؐ من غزوۃ تبوک او خیبر وفی سھوتھا ستر فھبت الریح فکشف ناحیۃ الستر عن بنات عائشۃؓ لعب فقال ماھذا یا عائشۃ قالت بناتی ورأی بینھن فرسالہ جناحان من رقاع، فقال ماھذا الذی اری فی وسطھن؟ قالت فرس! قال وماھذا الذی علیہ؟ قلت جناحان! قال فرس لہ جناحان؟ قالت اماسمعتَ؟ ان لسلیمان خیلا لھا اجنحۃ! قالت فضحک رسول اللہ ؐ حتی رأیتُ نواجذہ۔ ابوداؤد۔”

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی الله عنھا نے فرمایا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے، تو میرے طاق پر پردہ پڑا ہوا تھا، اتفاقاً ہواچلی، جس نے پردہ کا ایک حصہ کھول دیا، جہاں سے وہ گڑیاں عائشہ رضی الله عنھا کے سامنے آگئیں، آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری گڑیاں ہیں۔ اور آپ علیہ السلام نے ان کے بیچ میں ایک گھوڑا دیکھا ، جس کے دو پر کاغذ کے لگے ہوئے تھے، تو فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ گھوڑا ہے۔ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس گھوڑے کے اوپر یہ کیا لگے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ دوبازو ہیں۔ آپ علیہ السلام نے تعجب سے فرمایا کہ : گھوڑے کے بازو ہوتے ہیں؟ حضرت عائشہ رضی الله عنھا نے عرض کیا کہ:کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر لگے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا کہتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کے دندان مبارک دیکھے۔” (ابوداؤد)

ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
”(1) احادیث حرمت میں خود جبریل امین علیہ السلام کی تلقین سے معلوم ہوا کہ جن تصاویر کا سر کاٹ دیا جائے یا کسی رنگ روغن سے لتھیڑ دیاجائے، اس کا استعمال جائز ہے۔ (کما فی حدیث 12 رواہ النسائی وحدیث 17 رواہ احمد فی مسندہ)۔
اس لیے سرکٹی ہوئی تصاویر کے جواز پر پوری امت کا اجماع ہے ۔ اس کو حضرت جبریل ؑ نے خود ہی درختوں اور غیر ذی روح چیزوں کے حکم میں کردیا ہے۔
(2) دوسری رخصت یہ ہے کہ جو احادیث 12/ تا،25/ میں مذکور ہے کہ تصاویر سالم ہی رہیں مگر ان کو محل اہانت و ذلت میں مثلا پامالِ فرش یا گدّا وغیرہ جس کے اوپر بیٹھا جائے بنادیا جائے ان کے جواز پر بھی امت کا اجماع ہے۔
(3) تیسری رخصت احادیث 26/ تا 29/ سے یہ ثابت ہے کہ بہت چھوٹی تصویریں جیسے بٹن یا انگوٹھی کے نگینہ پر یا روپیہ پیسہ پر اس کے استعمال کی گنجائش ہے۔(اس پر بھی تقریبا تمام فقہا کا اتفاق ہے)۔
(4) چوتھی رخصت حدیث 30 و 31 سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ: لڑکیاں جن گڑیوں سے کھیلتی ہیں یہ کھلونے استعمال کرنا بھی جائز ہے، مگر اس میں حضرات فقہا کے اقوال مختلف ہیں۔”(ملخصا من جواھرالفقہ جلد 3/ ص167/ تا255/)

*ذی روح کی چھوٹی تصویریں جائز ہیں۔*

فی الدرالمختار: اوکانت صغیرۃ لا تتبین تفاصیل اعضائھا للنا ظرقائما وھی علی الارض ذکرہ الحلبی، قال الشامی ھذا اضبط لما فی القھستانی…(الی قولہ) لکن فی الخزانۃ: ان کانت الصورۃ مقدارطیر یکرہ وان کان اصغر فلا یکرہ۔(شامی مکروھات الصلوۃ: ج1/ ص407)
ترجمہ: "درمختار میں ہے کہ تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ اس کو زمین پر ڈال دیاجائے تو کھڑے ہوکر دیکھنے والے کو اس کے اعضا کا فرق نہ معلوم ہوسکے۔ یہ حلبی نے بیان کیا ہے۔ علامہ شامی کہتے ہیں کہ قہستانی کے بیان کے مطابق یہ جائز چھوٹی تصو یر کی زیادہ مناسب تعریف ہے؛ لیکن خزانہ میں ہے کہ اگر تصویر پرندے کے برابر ہو تو ناجائز ہے اور اگر پرندے سے چھوٹی ہو تو جائز ہے۔” (شامیہ)

آخر میں مقدار طیر بھی تحقیق طلب ہے؛ کیوں کہ اگر مقدار طیر سے مراد حمامۃ وغیرہ ہے تو یہ بڑی تصویر ہوگی اور اگر مقدار طیر سے مراد عصفور یا جراد ہے تو جو ابتداء میں قھستانی نے بیان کیا ہے وہی درست ہے اور علامہ شامی کا اضبط کہنا بجا ہے۔

*موضع اہانت میں تصاویر جائز ہیں*

من مکروھات الصلوۃ و ان کان علی البساط والوسائد الصغار وھی تداس بالارجل، لا تکرہ لمافیہ من اھانتھا۔ (رد المحتار مکروھات الصلوۃ: ج2/ ص419/زکریا)
"مکروہات نماز باب میں ہے کہ اگر چھوٹی تصاویر چٹائی یا گدے پر ہوجسے پیروں سے روندا جاتا ہو تو وہ ذی روح کی تصاویر مکروہ نہیں ہیں۔ کیونکہ کہ اس صورت میں ان تصاویر کی توہین ہوتی ہے۔” (شامیہ)

ذی روح کے مجسمے اور تصویریں بچوں کی تعلیم کے غرض سے ہوں تو جائز ہے۔
فی متفرقات البیوع من الدرالمختار فی آخر حظر المجتبی عن ابی یو سف یجوز بیع اللعبۃ وان یلعب بھا الصبیان۔ (ردالمحتارمع الدر: ج 4/ص297/)
"درمختار کے خرید وفروخت کی کتاب کے متفرقات کے آخر میں حظر و اباحت کے باب میں مجتبی کے حوالہ سے امام ابویوسف علیہ الرحمہ کی روایت ہے کہ: جن گڑیوں سے چھوٹے بچے کھیلتے ہیں، ان کی خرید و فروخت جائز ہے۔” (شامیہ)

*محل ضرورت میں تصویروں اور مجسموں کی صنعت اور خرید و فروخت جائز ہے۔*

جیسا کہ امام ابو یوسفؒ کا قول بیان ہوا۔ امام ابو یوسفؒ کے قول سے استناد کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیعؒ صاحب بھی اس ضرورت کے تحت مجسموں اور تصویروں کے جواز بیع کے قائل ہیں۔ فرماتے ہیں:
”البتہ بچوں کے کھلونے اگرمصور ہوں تو ان کی بیع و شراء (حسب تصریح امام ابویوسفؒ کے) جائز ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔” (جواہرالفقہ: ج 3/ ص235/)
جواہرالفقہ: جلد
4/ ص از 8/تا63/ میں تفصیلی کلام کے بعد آخر میں فرماتے ہیں کہ:
”ان سب واقعات واحادیث کاحاصل اس سے زیادہ نہیں کہ شرعا چار قسم کی تصویریں جائز الاستعمال ہیں، پائمال و ممتھن، سرکٹی ہوئی، بہت چھوٹی، حضرت عائشہ کی گڑیاں، اور یہ وہ نتیجہ ہے جو ہمیں اس درد سری سے پہلے ہی تسلیم ہے اور جس میں جمہور فقہاء و محدثین بھی متفق ہیں؛ اس لیے مختلف فیہ فقط وہ تصاویرِ غیر مشرکانہ ہیں جو ان چار قسموں کے علاوہ ہیں۔”
( کشف التزویر عن احکام التصویر شریک الاشاعۃ فی جواھرالفقہ: المجلد الرابع ص48/)

*کم میگا پکسل سے ڈیجیٹل تصویر کشی جائز ہے۔*

چھوٹی تصاویر کے جواز اور بڑی تصاویر کے عدم جواز سے معلوم ہوا کہ زمین پر پڑی ہوئی جس جاندار تصویر کو کھڑے ہو کر دیکھنے کی صورت میں اس کے اعضاء صاف طور پر نہ معلوم ہوتے ہیں، اس میں غور کیا جائے کہ یہ تصویر کتنے میگا پکسل (Mega pixel) کیمرے سے بنتی ہے۔ اسی مقدار میگا پکسل کیمرے سے ان تمام چیزوں اور پروگراموں کی ویڈیو بنانا جائز ہے جن کو عام حالات میں دیکھنا اور دِکھانا جائز ہے۔ مقررہ میگا پیکسل (Mega pexel) کیمرے سے ویڈیوز کی ریکارڈنگ کے بعد اسکرین (Screen) پر کتنی بھی بڑی نظر آئیں، مجسم ذات کو آئینے اور پانی میں دیکھنے کے حکم میں ہو کر عدم جواز سے باہر ہوں گی۔ مقررہ میگا پکسل سے بڑے کیمرے سے ویڈیو رکارڈنگ عام حالات میں ناجائز ہوگا؛ کیوں کہ یہ بڑی تصویر سازی کے حکم میں ہوگا۔ جیسا کہ بڑی تصویر سازی کی ممانعت ہے؛ لیکن دعوتی وتعلیمی مقاصد سے بڑے میگاپکسل کیمروں سے بھی تصویر کے عدم جواز پر اصرار نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ کیمروں، چپوں، میموریز، پین ڈرائیو،کارڈیٹر وغیرہ میں وہ تصاویر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اور اگر ہوتی بھی ہیں تو بہت زیادہ چھوٹی ہوتی ہیں۔ پھر وہ اسکرین پر آئینہ، پانی، شاطی نہر کی تصاویر کی طرح بڑی نظر آتی ہیں۔ آئینہ، پانی، شاطی نہر میں نظر آنے والے عکس پر تصویر کشی کا حکم نہیں جاری ہوتا ہے۔ اسی طرح بڑے میگاپکسل کیمروں کی سافٹ تصاویر کا حکم ہوگا؛ اس لیے اس کے عدم جواز پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ دعوتی مقاصد سے سافٹ ویئر ریکارڈنگ کی اجازت ہے۔

*تعلیم کے لئے ذہنی ارتکاز میں ڈیجیٹل تصاویر کی اہمیت*

ڈیجیٹل تصاویر (Digital photograpgy) وغیرہ کے سلسلے میں بھی ایک بات مزید یاد رکھنے کی ہے کہ عمر کے لحاظ سے مضامین اور مناظر کی طرف انسانوں کا ذہنی ارتکاز (Concentration) ایک منٹ میں 6 ۔7 بار سے لے کر 14۔15 بار ٹوٹتا ہے۔ کوئی اگر کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف اس کے دماغ سے ایک روشنی نکلتی ہے، یہ روشنی7 سے 15 سیکنڈ تک نکلتی رہتی ہے، جب تک یہ روشنی دماغ سے آنکھ کے راستے نکلتی رہتی ہے ناظر کی توجہ منظر و منظور (Scenes) سےجڑی رہتی ہے اور جیسے ہی 7/سے 15/ سیکنڈ کا وقفہ پورا ہوتا ہے دماغ سے روشنی نکلنی بند ہوجاتی ہے، ناظر کی توجہ منظر و منظور (scenes) سے بھٹک جاتی ہے۔ آنکھ کے سامنے سابقہ منظر کے علاوہ کوئی دوسرا منظر پیش کردیا جائے تو پھردماغ سے روشنی نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک ہی مضمون پر ذہنی ارتکاز کو مسلسل باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ منظر یا اس کی زمین کو ایک منٹ میں اتنی ہی بار ذہنی ارتکاز ٹوٹنے سے قبل ہی بدلا جائے۔ مثلا منظر (Scenes) سے بچے کا ذہنی ارتکاز (concentration) 7/ سیکنڈ میں ٹوٹتا ہے تو ضروری ہے کہ7/ویں سیکنڈ سے پہلے ہی 6/ویں سیکنڈ میں منظر (Scenes) یا اس کی زمین (Base or Background) میں کوئی تبدیلی کردی جائے۔ اس طرح صرف ایک منٹ نہیں؛ بلکہ کئی کئی گھنٹوں تک بچے اور ناظرین کی توجہ کو کسی ایک ہی مضمون پر ٹکایاجاسکتا ہے۔ یہ کام ڈیجیٹل تصاویر یا اسمارٹ کلاسز (Smart classes) سے بخوبی حاصل ہو جاتی ہے۔
فلموں کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کی پوری کہانی فرضی ہے، اس کاجھوٹ معلوم ہونے کے باوجود ناظر پوری توجہ کے ساتھ کامل تین گھنٹے تک مسلسل اس کو دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ فلموں کی صنعت میں ذہنی ارتکاز (Concentration) کے لیے نفسیات کی ان فنی نکات کا ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
تصاویر اور خصوصا ڈیجیٹل تصویروں کے ذریعے تعلیم میں بڑی سہولت ہوتی ہے۔

*تصاویر و مجسموں کی جائز صورتیں*

تصاویر ومجسموں کے سلسلے میں شریعت میں درج ذیل جائز صورتوں کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
(الف) کتابوں میں تصاویر اتنی چھوٹی بنائی جائیں کہ کھڑے ہوکر دیکھنے پر ان کے اعضاء معلوم نہ ہوں، اسی طرح خطوط (Imagin pictures) کے ذریعے ذی روح کی بڑی تصاویر جن میں چہروں کے خد وخال باقاعدہ واضح نہ ہوں، جائز ہیں۔
(ب) بڑی تصاویر دیواروں پر آویزاں کرنا جائز نہیں ہے البتہ فرش، زمین، بیت الخلا جائے غلاظت، زمین پر لیٹی ہوئی حالت میں، کھیل میدان کی زمین پر، پائیدان، سیڑھی، پھسل پٹی، جوتا، کرسی، مختلف قسم کے جھولے مثلاSeesaw. Swing. Slide. Merry-go-Round. Steps. پر پیر رکھنے کی جگہیں یا بیٹھنے یا کمر سے مس ہونے والے حصوں میں بنانا جائز ہے۔

(ج) بڑے انسانوں و حیوانوں کاعکس آئینہ یا پانی میں ممنوع نہیں ہے۔ البتہ کوئی آئینہ یا پانی میں نظر آنے والی تصویروں کو مسالہ جات سے جام (Fix) کرکے کاغذ وغیرہ پر اتارلے تو یہ حرام ہے؛ اس لیے ذی روح مثلا انسان اور جانداروں پر مشتمل معاملے، مکالمے، تقریروں و مباحثوں وغیرہ جس میں پے پردگی، ناجائز باتیں نہ ہو ں؛ اتنے چھوٹے میگا پکسل کیمرے سے ان کی ویڈیوز ریکارڈنگ جائز ہے کہ اس ویڈیو رکارڈ سے اگر کوئی کاغذ پر تصویر اتاری جائے تو پکسل پھٹ جائے۔
ڈیجیٹل تصاویر سے تعلیمی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اور تصاویر و مجسموں کی قباحت تقریبا نہیں پائی جاتی ہے؛ اس لیے تعلیمی ودعوتی مقاصد کے لیے ڈیجیٹل تصاویر کو ترجیحی طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
(د) سلۃالمھملات (Dustbin) ہاتھ دھونے کا برتن، غلا ظت اٹھانے کا ڈبہ، اوغل دان، سُوپڑی وغیرہ اسی طرح کھانے والی اشیا، نیز جلد ٹوٹ جانے والی چیزوں سے مثلا غبارہ اور مٹی وغیر سے ذی روح مجسموں کو بغرض تعلیم بنانا جائز ہے۔
ضرورت ہے کہ اس وقت چھوٹے چھوٹےکلپ کی صورت میں دینی واصلاحی اور دعوتی کلپ بکثرت بنا کر سوشل میڈیا کی تمام اقسام وانواع میں نشر کی جائیں۔
سوشل میڈیا پر اکابر کے بجائے نئے فضلاء مدارس بہتر ڈھنگ سے کام کرسکتے ہیں۔ اس لیے اکابر علماء کی رہنمائی میں نئے فضلاء سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھاکر اپنی دینی ودعوتی ذمہ ادا کریں۔
فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہر مہدپور اجین (ایم پی)

12؍ شوال المکرم 1441ھ
مطابق: 5؍ جون 2020ء
[email protected]

ناقل: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)

Comments are closed.