Baseerat Online News Portal

معاملات کی صفائی، حلال روزی کی برکت اور حرام کی نحوست

محمد امداداللہ قاسمی
١٦/ شوال۔ ١۴۴١ھ۔ ٩/ جون۔ ٢٠٢٠ع۔ منگل
??????

معاملات کی صفائی اسلام کی اہم تعلیم ہے، اس میں رحمت بھی ہے برکت بھی اور رشتے میں محبت کی بقا بھی۔اسلام نے جہاں ہمیں رزقِ حلال کی تعلیم دی ہے وہیں ہمیں معاملات اور تجارت کے اصول و ضوابط بھی بتائے۔ تجارت میں سچائی پر زور دیا اور دھوکا دھڑی اور جھوٹ سے سختی سے روکا؛ کیونکہ تجارت و معاملات میں دروغ گوئی اور دھوکہ دھڑی جہاں آخرت میں اللہ کی پکڑ کا سبب ہے وہیں اس سے دنیا میں بظاہر چند پیسے زیادہ کما لیے جائیں؛ مگر اس سے روزی میں بے برکتی ہوتی ہے اور آدمی طرح طرح کی مشکلات اور الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

کسب حلال اور رزق طیب کی بے شمار برکات ہیں۔ جب حلال غذا انسان کے پیٹ میں جاتی ہے تو اس سے انسان کو نیک کام کی توفیق ملتی ہے، اس انسان سے بھلائیاں پھیلتی ہیں؛ اس کے برعکس حرام غذا انسانی جسم سے نیکیوں کی توفیق چھین لیتی ہے، ایمان کا نور بجھ جاتاہے، دل کی دنیا ویران ہوجاتی ہے۔ پھر ایسا شخص انسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ بن جاتاہے۔ جس منہ کو حرام کی عادت لگ جائے؛ اس سے خیر کے کام انجام نہیں پاتے۔ حلال وحرام کایہ کھلا فرق اس حد تک اثر انداز ہوتاہے کہ پاکیزہ کمائی کھانے والا مقبول بن جاتاہے؛ جب کہ حرام کمائی والا اللہ تعالیٰ کے یہاں مردود ہو جاتاہے۔
ایک طویل حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *” اے سعد!اپنا کھانا پاکیزہ اورحلال رکھو۔ تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں محمد کی جان ہے! حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتاہے تو چالیس دن تک ( اس کی عبادات) قبول نہیں کی جاتیں۔ جس بندے کی نشو ونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو ،جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔“*
اسی طرح ایک روایت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال اورغبار آلود (ہوتا)ہے۔اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعامانگتے ہوئے کہہ رہاہو”اے میرے رب! اے میرے رب!“جب کہ (حقیقت حال یہ ہو کہ ) اس کا کھانا، پینااوراوڑھنا (سب) حرام ہے۔اورحرام کی غذا اسے مل رہی ہوسو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟“۔

جب انسان پاکیزہ حلال روزی کی فکر نہیں کرتا اور جائز ناجائز کے فرق کو اٹھاکر دنیا کمانے کے لئے اندھا ہوجاتا ہے، صبروقناعت ،زہدوایثار کی جگہ حرص وہوس اور عیش و عشرت کو اپنا مقصد بنالیتاہے تو اللہ رب کریم کی طرف سے نازل ہونے والی برکت روک لی جاتی ہے۔ جس کے بعد زیادہ مال و دولت بھی کم محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایسے شخص کو قارون کاخزانہ بھی مل جائے تو وہ اسے کم تر سمجھتا ہے۔
آج کے پُر فتن اور عیش و عشرت پرست دنیا میں منکرینِ اسلام کی طرح مسلمانوں نے بھی حلال و حرام کے اس فرق کو اور معاملات کے اسلامی تعلیمات کو بھلادیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آج کی دنیا پر سچ ثابت ہو رہا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا ،جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہاہے؛ حلال ہے یا حرام ۔“(مشکوٰة:۲۴۱)

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے،صبروقناعت ،زہدوایثار اورجفاکشی کی اہمیت سمجھنے کی توفیق بخشے،
رزقِ حلال اور صدقِ مقال کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین

Comments are closed.