Baseerat Online News Portal

کیاعلمائے نیپال اپنےاس عظیم مقصد میں کامیاب ہوسکتےہیں؟

ازقلم:انوار الحق قاسمی نیپالی

رابطہ نمبر :9811107682
………………………………………………………,

دیگر ممالک کی طرح نیپال بھی ایک مستقل ملک ہے ،جہاں ایک طویل عرصہ قبل ہی ،مذہب اسلام کی آمد ہوچکی ہے، اس ملک میں مسلمان بغیر کسی ذہنی و فکری مصائب و آلام سے دو چار ہوئے، تمام ہی احکامات خداوندی، حضوری قلب و دماغ اور طمانیت کے ساتھ خوشی خوشی انجام دیتے ہیں، ہر ہرمسلک والوں کی، ہرچھوٹی بڑی بستی میں ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں؛ بل کہ چار چار، پانچ پانچ مسجدیں ہیں، ہر مسجد کی چہار جانب سے، بلاناغہ صبح و شام پنج دفعہ خداوند عالم کے ایک عظیم حکم "فرضیت نماز "کی ادائیگی کے لیے قریہ قریہ، شہر شہر صدائے اذان سے گونج جاتی ہے، حکومت نیپال کی جانب سے شعائر اسلام پر ،کسی طرح کی کوئی بھی پابندی عائد نہیں ہے،اور نہ ہی مستقبل بعید تک، کسی طرح کا کوئی خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہے، ہندو مسلم کے مابین باہمی اخوت و محبت و ہم دردی اور الفت ومودت کی ایک عظیم مثال، ملک نیپال میں موجود ہے، جوبھی دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں، وہ یہاں آکر دیکھ سکتے ہیں؛بل کہ یہاں تو معاملہ برعکس ہے، مسلمان خود ہی اپنے دینی و مذہبی بھائیوں سےجنگ وجدل اور قتل و قتال یومیہ کرتے ہی رہتے ہیں، اورباہمی چپقلش کثرت سے ہوتی ہی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر عدالتیں مسلم مقدمات سےمعموررہتی ہیں، یہ تو ہے ان کاباہمی حیرت انگیز المیہ،الغرض مسلمانوں کو نیپالی حکومت اورہندوبرادران سے، کسی طرح کا ،کوئی خدشہ لاحق نہیں ہے، انہیں اگر کوئی آفت ومصیبت آن پہنچتی ہے، توفقط ان کی باہمی اور آپسی اختلافات کی وجہ سے ۔
جس طرح مسلمانوں کی عبادت گاہوں، مساجد اور خانقاہوں پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے، اسی طرح مدارس اسلامیہ پر بھی اب تک حکومت نیپال کی نظر بد نہیں پڑی ہے،اور نہ ہی ابھی اس کی کوئی توقع و امید ہے؛ اس لئے مسلمانوں کو جہاں اور جس علاقے میں، مدارس اسلامیہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہاں باہمی اتفاق اور رائے مشورے سےچند ہی لمحوں میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈال دیتے ہیں؛ مگر مدارس اسلامیہ کی کثرت اور آئے روز تعداد میں بڑھوتری اور زیادتی کے باوجود بھی، ایک قدیم زمانے سے ہر عام و خاص مسلمانوں کی زبانوں پر، بے اختیار جو گلہ اور شکوہ جاری و ساری ہوتے، اب تک چلا آرہا ہے ،وہ یہ ہے کہ آخر ملک نیپال میں، اب تک ایک بھی ایسے ادارے کا قیام عمل میں کیوں نہیں آ سکا،جس میں فضیلت تک کی تعلیم ہوتی ہو، جب کہ پڑوسی ملک ہندوستان میں ایک نہیں، دو نہیں، بل کہ بےشمار ایسےادارے ہیں، جن میں فضیلت اور تکملات تک کی تعلیم ہوتی ہے، تقریبا ہر صوبے کے اندر ایک نہ ایک ادارہ ضرور ہے، جس میں” دورہ حدیث شریف ” کی تعلیم ہوتی ہے ،اور ملک نیپال کے طلبہ بھی ہندوستان ہی کے ، کسی ادارے سے فراغت حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، آخر ایسا کیوں؟تو اس کی کئی وجہیں ہیں،پہلی وجہ یہ ہے ،کہ علمائے نیپال کے مابین اتحاد و اتفاق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ،اور ایک دوسرے کی مخالفت اور کسر شان کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ،دوسری وجہ یہ ہے، کہ ہر عالم خواہ چھوٹے ہوں، یا بڑے ،ماتحتی کی زندگی بسر کرنے کو معیوب تصور کرتے ہیں، یعنی ہر ایک دو اینٹ کااپنا مدرسہ الگ ہی بنانا چاہتے ہیں؛ گرچہ کرایہ ہی پر کیوں نہ ہو،ہر ایک ناظم ومہتمم ہی بن کر دینی خدمات کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ،فقط مدرس بن کر دینی تعلیمات دینے کو مناسب خیال نہیں کرتے ہیں؛ البتہ بعض علمائے نیپال بیرون ممالک میں صرف تھوڑا سا مشاہرہ اور تنخواہ کی زیادتی کے ساتھ ،ملازمت کرنے کو بے حد پسند کرتے ہیں، گرچہ حقیر سے حقیرتر ہی ملازمت کیوں نہ ہو،مگر نیپال ہی میں رہ کر مدارس اسلامیہ کے اندر بحیثیت مدرس، کسی ادارے سے منسلک اور مربوط ہوکر علوم نبویہ کے شیدائیوں کی علمی تشنگی بجھانے کو پسند نہیں کرتے ہیں؛ اسی لیے مدارس اسلامیہ، تو ملک نیپال میں بے شمار ہیں؛ مگر ان اداروں میں، جید الاستعداد اور باصلاحیت اساتذہ کرام آٹے میں نمک کے برابر ہیں، تو پھر دینیات اور تحفیظ القرآن ہی تک کی تعلیم نہیں ہوگی، تو پھر اور کیا ہوگی؟ اور دورہ حدیث شریف کی تعلیم بغیر اجلہ اور کبارعلمائے کرام کے ایک خواب و خیال نہیں ،تو پھر اورکیا ہے ؟تیسری وجہ یہ ہے ،کہ ہر ادارے کے ذمہ داران کی یہی خواہش ہوتی ہے، کہ دورہ حدیث شریف کی تعلیم فقط میرے ہی ادارے میں ہو، مرجع الطلاب والعلماء صرف میرا ہی ادارہ رہے، نتیجتا آپسی اختلافات کی وجہ سے ہر ادارہ اس نعمت عظمی سے محروم ہو جاتی ہے،اور موجودہ دور میں اگر آپ اپنی نگاہیں ڈالیں گے، توشاید وباید ہی کوئی ادارہ ملے گا، جہاں دینیات، تحفیظ القرآن کے علاوہ ابتدائی درجات کی بھی تعلیم ہوتی ہوگی،چوتھی وجہ یہ ہے ،کہ علمائے نیپال کی بار بار یہی خواہش ہوتی رہی ہے، کہ کسی ادارے کاانتخاب کیاجائے،جس میں دفعتا ہی”دورہ حدیث شریف "کی تعلیم کاآغاز کیاجائے ،بھلا یہ ممکن ہے؟ہرگز نہیں، جب تک کسی ادارے میں ابتدائی تعلیم نہیں ہوگی، اس وقت تک انتہائی تعلیم ممکن ہی نہیں ہے، دنیا کا قاعدہ وضابطہ اور اصول یہی ہے، کہ ہرچیز ابتدائی دور سےگزرنے کے بعد ہی ،انتہائی دور سے گزرتی ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے، کہ کوئی بھی چیز ابتدائی دور سے گزرے بغیر، انتہائی دور سے گزر جائے، اگر کسی کی اس طرح کی فکر اور سوچ ہے ،تو وہ یہ سمجھ لیں،کہ وہ وہمی اور خیالی دنیا میں، وہمی اور خیالی ہی سیر و تفریح کررہے ہیں، بعینہ یہی صورت حال مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ کا بھی ہے، کہ ابتداء ہی کسی ادارے میں ” دورہ حدیث شریف” کی تعلیم ہوہی نہیں سکتی ہے؛ بل کہ اس کے لیے ابتدائی تعلیم کے، ابتدائی منازل اور درجات طے کرنے کے بعد ہی، انتہائی تعلیم متوقع اور ممکن ہے، ان ہی افکار و خیالات کی بنیاد پر ،اب تک کسی ادارے میں "دورہ حدیث شریف” کی تعلیم نہیں پائی ہے-
اب سوال یہ ہے، کہ اب جب کہ "کرونا وائرس "کی مہاماری کی وجہ سے، ہندو نیپال کی تمام ہی سرحدیں بند کر دی گئی ہیں ،نیپال سے ہندوستان میں،یا ہندوستان سے نیپال میں، کسی کی انٹری ممکن ہی نہیں ہے، اور لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد بھی ،سرحدوں کے بندرہنے کا امکان غالب ہے، اور موجودہ صورت حال کودیکھتے ہوئے، ایک غیر متعین زمانے تک، باڈروں کا نہ کھلنا ہی یقینی لگ رہا ہے، ایسے نامساعد اور ناگفتہ بہ حالات میں ،نیپال کے ان طلباء کے لئے ،جو پڑوسی ملک ہندوستان میں درمیانی یا انتہائی درجات میں سال رواں متعلم ہوتے ،اب جب کہ سرحدوں کے بند ہونے کی صورت میں، ان کا ہندوستان جا کر تعلیم حاصل کرنا ایک دشوار کن امر معلوم ہو رہا ہے ،تو کیا موجودہ حالات کے پیش نظر ملک نیپال ہی میں، کسی ایسے ادارے کا از سر نو قیام یاقائم شدہ اداروں میں سے، کسی ادارے کا انتخاب ،جس میں ازاعدادیہ تا دورہ حدیث شریف تعلیم ہو ممکن ہے؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ بالکل ممکن ہے ،اس کے لیے ضروری یہ ہے، کہ آل نیپال ایک میٹنگ کی جائے،جس میں ملک نیپال کےکبار علماء مثلاحضرت مولانا محمد عبدالعزیز صدیقی صاحب،(صدر جمیعت علماء نیپال) حضرت مولانا مفتی محمد خالد صدیقی صاحب، (جنرل سیکریٹری جمیعت علمائے نیپال ) حضرت مولانا قاری حنیف عالم صاحب قاسمی ،مدنی، ( سکریٹری جمعیت علمائے نیپال ) حضرت مولانا محمد عزرائیل صاحب مظاہری، ( مرکزی ممبر جمیعت علمائے نیپال) حضرت مولانا شفیق صاحب قاسمی، حضرت مولانا مفتی وکیل صاحب حسینی (صدر جمعیت علماء اسلام )حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب مدنی ،حضرت مولانا شمیم صاحب قاسمی، حضرت مولانا قاری حنیف عالم صاحب ندوی، مولانا مفتی ظہور صاحب، حضرت مولانا مفتی ممتاز صاحب ندوی اور دیگر ممتاز ،اجلہ علمائے کرام شریک ہوں اور پھر کسی ادارے کا انتخاب عمل میں لائیں، اور پھر باہمی مشورہ کے ذریعے آپسی ناچاقی سے اوپر اٹھ کر، اس ادارے کے لیے جیدو باصلاحیت اساتذہ کرام کا انتخاب کریں، مع ان کے معقول مشاہرہ بھی تجویز کریں( جو ہر ماہ ،بروقت انہیں دےدیا جائے ، تاکہ معاشی الجھنوں سے، بے فکر ہوکر، یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ کماحقہٗ تدریسی خدمات انجام دے سکیں) اور دارالعلوم دیوبند کی طرح اس ادارے کو بھی ایک شورائی نظام کےتحت چلائیں، پھر دیکھیں،کہ کس طرح علوم نبویہ کے شیدائیوں کا تانتا لگ جاتا ہے ،اور پھروقت قریب ہی میں، اس ادارے کی یہ صورت حال ہوجاتین ہے،کہ دارالعلوم دیوبند کی طرح داخلہ امتحان میں اعلی اور ممتاز نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے والے طلباء ہی ، اس ادارے میں، اپنی علمی تشنگی بجھا سکیں گے، اور پھر رفتہ رفتہ ایک ادارے سے دو اور دو سے تین، تین سے چار ،پانچ ادارے بھی ہو سکتے ہیں ،اور پاکستان کی طرح نیپال کے طلبہ بھی، نیپال کے ادارے سے فراغت حاصل کرنے پر فخر محسوس کریں گے۔
یہ سب اس وقت ممکن ہے، جب کہ اس کے لئے پختہ عزائم کیے جائیں، آپسی اختلافات ختم کئے جائیں، کسی کو اپنا پیشوا اور قائد تسلیم کیا جائے، ماتحتی میں رہ کر خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کیا جائے، اور وہمی وخیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں قدم رکھا جائے، اور مجموعی طور پر اس ادارے کا خوب خوب تعاون کیا جائے، ورنہ ایک عرصہ دراز سے،جس طرح علمائے نیپال کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، اسی طرح اس دفعہ بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا، عقل مند وہ ہے،جومستقبل تابناک بنانے کے لیے،ماضی سے عبرت حاصل کرتا ہے، اور پھر نتیجہ خیزفیصلہ کرتا ہے۔
اس ناگفتہ بہ حالات میں، باری تعالیٰ علمائے نیپال کواس عظیم مقصد میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار فرمائے، آمین۔

Comments are closed.