Baseerat Online News Portal

راہوں کی تلخیاں یاد رہے

نوراللہ نور

ابھی ہم کورونا سے محاذ آراء ہی ہیں اور اس مصیبت سے دامن چھوٹا نہیں ہے لیکن ان سب کو پس پشت ڈال کر بہار میں "گدی ” کی ریس شروع ہوگئی ہے اور انتخابی بگل بج چکا ہے اور وہ لوگ جو امداد رسی کے منظر سے غائب تھے وہ بھی بل سے نکل آئے ہیں ۔

اس جاں کنی کے عالم میں سیاسی نقل و حرکت کا عمل میں آنا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے کیونکہ سیاست دانوں سے یہی متوقع ہے انہوں نے ہمیشہ انسانیت کو عصبیت کی آگ میں جھلس کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکی ہے ؛ بغض و عناد ہمیشہ ان کے دست راست رہے ہیں ان کو اپنا سیاسی ہدف مطلوب و مقصود ہوتا ہے نہ کہ عوام کی فلاح و بہبود ۔۔۔۔
ان کے ارادے کو تقویت ہمیں نے پہونچای ہے اور ان کو جری ہماری بد ضمیری نے بنایا ہے یہ ہم سے ہزار پندرہ سو کے عوض محل کا سودا کرتے ہیں ۔

مگر ….….. اس بار بہار کی عوام کو دانشمندی اور ہوشیاری سے اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوگا ضمیر کی آواز کو سن کر صحیح اور درست امیدوار کو میدان میں لانا ہمارا ہدف اور منشور ہونا چاہیے ہم نے ہمیشہ انسانیت کا سودا کیا ہے ؛ بارہا ہم نے خطا کی ہے کہ بلا تامل و تفکر اپنے حق کو ضایع کیا ہے ۔
ذرا ہم نرم مزاج اور جزباتیت سے پہلو تہی کرتے ہوئے سوچیں کہ ہماری کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ نہیں کہ ؟؟ انہوں نے ستر سال تک ہمارا استحصال کیا ؛ انہوں نے ترقی کے نام پر ہمارا مستقبل جہنم کر دیا ؛ سیاسی ریلیوں میں کیے گئے وعدے کبھی پورے نہیں ہوتے یہ اگر یہ وعدے پورے ہوتے تو ہندوستان کا منظر اور نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ؛ ہمیں ان سیاسی لوگوں سے صرف ضرر ہی پہنچا ہے منفعت یک فیصد بھی نہیں ۔
بہار کی عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان کی پسند کیا ہے اور وہ کیسا نیتا انتخاب کرتے ہیں ۔
پولنگ بوتھ پر جاکر اس بار ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ یہ کس برادری کا اور کس ذاتی کا فرد ہے بلکہ یہ بات پیش نظر ہو کہ ہمارے لیے ؛ ہمارے گاؤں کے لئے ؛ ہمارے بچوں کے لئے ؛ اور ہمارے مستقبل کے لیے مفید کون ہے کیونکہ یہ سیاسی لوگ اپنا مفاد پورا ہوتے ہی اپنی اوقات ؛ حیثیت ؛ اپنی ذات برادری ؛ قبیلہ سب فراموش کر بیٹھتے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو ہمہ شما کی یکساں حالت نہیں ہوتی دلت نیتا مسیحائی کا دعویٰ کر کے مکرو فریب سے اپنی دکان چمکا لیتا ہے مگر اس کو ووٹ دینے دلتوں کی حالت وہی رہتی ہے ۔
مسلم نمایندگی کے نام پر ووٹ اکٹھے کرنے والے اپنا مطلوب پورا ہوتے ہی اپنے اصلی رنگ و روپ میں آ جاتے ہیں چند ہی ہیں جو خلوص کے ساتھ کام کرتے ہیں جب یہ سارے سیاسی لوگ صرف اپنا مقصود چاہتے ہیں تو پھر ہم ذات اور برادری کو کیوں دیکھیں ؟۔

اور سب سے اہم بات بہار واسیوں !!! ان کے لالی پاپ پر رال مت ٹپکانا ؛ ان کی رقم ان کے منھ پر دے مارنا اور بکنے اور سودا بازی سے سے پہلے اپنی تمام تر صعوبتوں کو یاد رکھنا یہ مت بھول جانا کہ بیچ منجھدار میں کن لوگوں نے دامن بچایا ہے اور کس نے مدد کے بازو بڑھایے ہیں ؟
لوگ بہت سے سنہرے وعدوں اور حسین خوابوں میں الجھائیں گے مگر اپنے بے یارو مددگار سفر کی تلخیوں یاد رکھنا ؛ روشن مستقبل کے سبز باغ دکھائے جایں گے مگر اس جال میں پھنسنے سے قبل گزری ہوئی صعوبتوں کو یاد رکھنا اور اس بار یہ بات ذہن نشین رہے کہ اپنے زخموں کا بدلہ لینا ہے اور اور اپنے رنج وغم حقیقی غمخوار نیتا منتخب کرنا ہے ۔۔

Comments are closed.