چلایا شر کی گردن پر قلم شیخ مجددؒ نے

محمد حنظلہ خان قادری مصباحی

ابتدائےاسلام سےلیکر اب تک کچھ ایسےادوار گزرےہیں جو اسلام کےحق میں سیاہ کہلائے، جس میں اسلام کی شبیہ بگاڑنےاور ملت وحدہ کا شیرازہ منتشرکرنےکی کوشش کی گئی۔ایسے ہی دین فطرت پر ایک زمانہ فتنئہ دین الہی کا آیا،جس دین الہی کے ستون اکبر بادشاہ نے قوانین فطرت کے خلاف ہوکر کھڑے کئے تھے۔دین الہی کی بنیادکچھ عقل پرستوں کے ورغلانے،اور اکبر کےان پڑھ ہونے کی وجہ ہے،چونکہ اکبر کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سےاس کا ذہن ملی اور مذہبی سے حیثیت سے ناپختہ تھا، جس کے باعث وہ کج فہمی و کجروی میں گرفتار ہوگیا۔
اس کی کجروی کج فہمی کی انتہا دیکھیں کہ وہ اپنے دور کے چند علماء سے کیا بگڑا بلکہ اپنے اندر علما کے خلاف ایک قسم کا انتقامی جذبہ پیدا کرلیا۔ملا عبد القادر بدایونی لکھتے ہیں: اکبراپنے عہد کے علما کو امام غزالی اور امام رازی سے بہتر جانتا تھا،جب اس نے ان کی نازیباحرکتوں کو دیکھاتوحاضرکو غائب پرقیاس کرکےاسلاف سے بھی بیزار ہوگیا۔چنانچہ ایک روز اکبر نےشیخ مبارک ناگوری سے کہا:- ہمیں ان ملاؤ کے احسان سے کیوں سبکدوش نہیں کردیتے۔
چنانچہ 987ھ میں محضر نامہ/معاہدہ تیار کرایا جس پر تمام علما کی دستخط طوعا وکرہا لئے،یہ وہ معاہدہ تھا جو حدیث واجماع اور قیاس وغیرہ کی اہمیت زمیں بوس کرتاتھا،
اورشریعت مصطفوی میں من مانی اورمن چاہی مداخلت کرتا تھا۔ بعد محضر نامہ کچھ ایام کے بعد وہ زمانہ دیکھنےکو ملا جسے تاریخ نے شاید کبھی اپنے دامن میں سمیٹا ہو۔
دور اکبری میں عبادت خانےجسمیں مسلم علما شریک ہوتےتھےاب ہر مذہب وملت کے علما کے لئے کھول دیئے گئے چونکہ دین الہی کے قیام کا مقصدہی یہی تھاکہ تمام ادیان کی پیروی کی جائے،اور تمام کے شعار شرکیہ سماعت کرکے اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔اکبر اسلام سے اس قدر برگشتہ ہوگیا تھا کہ اس نے آفتاب کی پرستش اور زرتشتیوں کے مطابق آگ کی پوجا کرنا بہتر اور اپنےلئےکار ثواب سمجھتا تھا،مسلم عورت کے حجاب پرپابندی عائد کرچکا تھا اور حکم نامہ جاری کیا کہ مسلم عورتیں بےحجاب باہر نکلیں اور اگر پردے کے ساتھ نکلیں تو چہرا کھلا رکھیں، شراب نوشی اس طور سے عام ہوچکی تھی کہ عوام تو عوام خواص بھی ساقی کے مے خانے سے نہ بچ سکے، ہر چہار جانب کافرانہ و مشرکانہ احکام و افعال کی ترویج واشاعت ہو رہی تھی، بدعات وسئیات دن بدن پنپ رہے تھے، وحدة الوجود کی غلط تشریح وتعبير ہورہی تھی بعض مورخین نے یہاں تک خامہ فرسائی کی کہ ان ملحدانہ و کافرانہ افکار وخیالات کی تان یہاں آکر ٹوٹی، حکم دیا گیا کہ کلمئہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کے بجائے اکبر خلیفة الله کہا جائے۔حاکم کی بے راہ روی کی وجہ سے رعایہ بھٹک چکی تھی،دین متین سے عوام کی اکثریت برگشتہ ہوچکی تھی مزید براں اسلام کی زبوں حالی کا قصہ اسی پر تمام نہیں ہوتا بلکہ اکبری زمانہ کے ساتھ ساتھ عہد جہانگیری بھی ان بے راہ روی طریق کار کا شکار رہا۔
ایسے حالات میں احیائے شریعت و ماحی بدعات اور باطل کا قلع قمع کرنے کے لئے کسی مرد قلندر کی ضرورت تھی۔جولوگوں کو گمرہی کے غار عمیق اور اعمال شنیعہ سےدور کرکے انہیں روشن و تابناکی فراہم کرے۔ کیونکہ جب بھی باطل قوتوں نے دین حنیف کی جڑیں کاٹنے کی سازش کی ہیں تو خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب دین کی پاسبانی کےلئے حقیقی نائب بھیجے ہیں۔ٹھیک اسی طرح اللہ کریم نے حق و باطل کے درمیان لکیر امتیاز کھیچنے کے لئے دور پرفتن میں امام ربانی مجدد لاثانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ والرضوان کی ذات والاکو بھیجا۔
حضرت امام ربانی نے زمانہ اکبری میں آنکھ کھولی اور جب اکبر کا انتقال ہوا تو آپ کی عمر شریف تقریبا 43 سال تھی۔آپ نے عہد اکبری کے نشیب و فراز خود ملاحظہ فرمائے۔اور اسی دورپرفتن سے قلم کو ہتھیار بنالیا تھااور بوئے اسلامی لوگوں میں ڈالنے کے لئے کوشاں ہوچکے تھے۔آپ نے اپنے مکتوبات و تصنیفات میں کنایة اور إشارة اس دور کی خرابیوں کے بارے میں نشاندہی فرمائی ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شاہ و گدا،علما وصوفیا، اور عوام کی اکثریت بگڑی ہوئی تھی اور زمانہ رہبر کامل کا متلاشی تھا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے دربار اکبری کے اہم رکن خان اعظم کے نام ایک مکتوب عہد اکبری میں اسلام کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں :- مخبر صادق علیہ السلام نے فرمایا”الاسلام بداء غریبا وسيعود کما بداء فطوبى للغرباء ” اسلام کی بے بسی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کنھار کھلم کھلا اسلام پر لعن وطعن کرتے ہیں اور مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں،کافرانہ احکام بے تحاشہ جاری کئے جارے ہیں اور ان بنانے والوں کی کوچہ وبازار میں خوب خوب تعریف کی جارہی ہے مسلمانوں کو احکام اسلامیہ سے منع کردیا گیا ہے اور شریعت کی اشاعت کرنے والا مذموم و مطعون ہے۔
حضرت امام ربانی نے اعیان مملکت کو انقلاب نو کے لئے تیار کرنا شروع کردیا تھا،اس سلسلے میں فرید نجاری 1025ھ/ 1616ء کے نام یہ مکتوب لکھا :
ذرا خیال توکریں معاملہ کہاں
تک پہونچ چکا ہے، مسلمانی بوبھی باقی نہ رہی،ایک دوست نے کہا کہ تم لوگوں میں جب تک کوئی دیوانہ نہ ہوگا مسلمانی تک پہونچنا مشکل ہے۔اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اپنے نفع اور نقصان کا بھی خیال نہ کرنا یہ دیوانگی ہے اسلام رہے تو کچھ بھی ہو (کچھ پرواہ نہیں ) اور نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے۔اگر مسلمانی ہے تو پہرخدا کی رضااور اس کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی بھی ہے۔اور آقا کی رضا سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔
اس طرح بیشتر خطوط شیخ مجدد رحمہ اللہ نے اعیان مملکت کے نام بھیجے جو اثرو رسوخ کا سبب بنے۔
لیکن اکبر کی ظلم و زیادتی اور جلاوطنی و پابند سلاسل کے سبب مصلحت کے تقاضوں نے دعوت اعلان عام کی اجازت نہ دی۔
کیونکہ اکبر کے بے دینی و الحادی کا قصہ دن بدن ذوق عروج پر تھا جسے ملا عبد القادر بدایونی بیان کرتے ہیں جو دربار شاہی میں اکثر باریاب رہتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں:
قسم قسم کے ارباب عقل و فہم اور مختلف ادیان و مذاہب کے علما دربار اکبری کی زینت بنتے ، اور بادشاہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے، دن و رات تحقیق و تفتیش کے علاوہ بادشاہ کو کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی۔
اس تحقیق و تفتیش کا نتیجہ یہ نکلا کہ متاع عزیز کو نظر رہزن کردیا اور اکبر بادشاہ کلی طور پر اسلام سے بیگانہ ہوگیا بلکہ اسے اسلام سے کچھ ضد سی ہوگئی ۔
بقول ملا عبد القادر بدایونی :-
دوسرے مذاہب والے جو احکام بیان کرتے تھے اسلام کی ضد میں بادشاہ ان کو نص قطعی کا درجہ دیتا تھا، اس کے برعکس ملت اسلامیہ اور دین اسلام کو نامعقول حادث،بدوؤں کا گھڑا ہوا خیال گردانتا تھا۔وہ اس قدر راہ مستقیم سےمنحرف ہوگیا تھا جس کا گمان عقل وخرد کو کبھی نہ تھا۔ ملا عبد القادر بدایونی بیان کرتے ہیں: آگ و پانی ، درخت و پتھر ، تمام مظاہر کائنات یہاں تک کہ گائے کے گوبر کی پرستش کرتا تھا، قشقہ لگاتا تھا ، زنار پہنتا تھا ، تسخیر آفتاب کی دعا جس کو ہندورشیوں نے سکھایا تھا ، وظیفہ کے طور پر آدھی رات اور طلوع آفتاب کے وقت جپتا تھا۔
المختصر اکبر نے دنیا کے غرور و سرمستی اور حکومت کے گھمنڈ میں وہ کچھ کیا جو سچے محمدی کے شایان شان نہیں۔
انسان زعم خویش میں ہر کچھ کرتا ہے مگر اس پر خاطر خواہ خیال نہیں گزرتا کہ اس کے موت کا فرشتہ ضرور دستک دےگا،
کیوں کہ موت کا ایک دن معین ہے۔
17 جمادی الآخر 1014 ھ میں اکبر کا انتقال ہوا۔ تحقیق کے مطابق اکبر کی توبہ ثابت نہیں ہے۔
جیسا کہ محقق علی الاطلاق عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تعزیت ناموں کے اقتباسات سے یہی عیاں ہے کہ اس کی توبہ ثابت نہیں ہے۔
دور اکبری کے اختتام پر عہد جہانگیری اپنے بانکپن پہ آیا لیکن عصر جہانگیری بھی ان بدعات وسئیات و شنیعات سے محفوظ نہ رہا جس طرح مملکت وراثت کا نتیجہ بنی ضمنا برائیاں بھی ۔
لیکن مرد قلندر شیخ مجدد نے دور اکبری ہی سے احیائے شریعت کے لئے کمر کس لی تھی۔ حضرت شیخ مجدد نے تبلیغ وإصلاح کے مختلف ذرائع منتخب فرمائے۔ سنت نبوی کا آئینہ دار بنتے ہوئے اپنے مریدوں کے ذریعہ، خلفا کے ذریعہ اور مکتوبات کے ذریعہ تبلیغی مشن کو آگے بڑھایا۔آپ نے نعرے بازی یا تقریروں کاسہارا نہ لیا بلکہ ٹھوس اور فکری عملی اقدامات کئے۔اور سارے خرافات کا جائزہ لیکر دور اکبری و جہانگیری میں شریعت اسلامی پر اٹھنے والے سوالات کے لئے دفاع کی تیاری کی کیوں کہ وہ سوالات شریعت اسلامیہ کی بنیادوں کو خود مسلمانوں کے ہاتھوں منہدم کررہے تھے،اور طبقہ صوفیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو نہ نماز کے قائل تھے نہ دوزخ و جنت کا اور نہ حشر و نشرکے
ان افکار و خیالات نے دونوں ادوار میں موثر کردار ادا کیا۔
حضرت شیخ مجدد نے ان نام نہاد صوفیاء کو حقائق ومعارف کا صحیح سبق دیا اور شریعت و طریقت کا صحیح معنی پیش کیا اور آپ کے بےشمار خطوط کے رنگ اعیان مملکت کے اکثریت کو کو رنگتے گئے۔
لیکن بچے کچھ کاسہ لیسی اور روٹی سیکنے والے لوگ جو ہر عصر میں اسلام کو نقصان پہنچائے، بادشاہ کے سامنے ان چاپلوسوں نے شیخ مجدد کی غلط تصویر پیش کی جس کا اندازہ آپ خود آنے والے اقتباس سے لگائیں جس کو جہانگیر نے خود بیان کیا ہے اور جہانگیر نے” تزک” میں جس انداز سے ذکر کیا ہے اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے چاپلوسوں نے اسے کس طرح بھرا تھا اور شیخ مجدد سے کس قدر وہ بدظن ہوگیا تھا، دوسری طرف یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے طول وعرض میں آپ کے مریدین پھیل چکے تھے اور مکتوبات شریف کا ایک قسم کا غلغلہ بپا تھا۔
دیکھئے وہ شیخ مجدد کو کسی بدتمیزی سے ذکر کرتا ہے:-
انہی دنوں( چودھویں جلوس شاہی ) مجھ سے عرض کیا گیا کہ شیخ احمد نامی ایک جعل ساز نے مکرو فریب کا جال بچھا کر بھولے بھالے کو پھانس رکھا ہے۔اس نے شہر اور وہر علاقے میں اپنا ایک ایک خلیفہ مقرر کر رکھا ہے جو لوگوں میں فریب دینے اور معرفت کی دکانداری کرنے میں بہت پختہ ہیں،اس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام وقتا فوقتا جو خرافات خطوط لکھےہیں انہیں مکتوبات کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے،اس دفتر بے معنی میں اس نے بہت سی لغو باتیں تحریر کی ہیں جو کفر کی حد تک پہونچتی ہیں،ایک مکتوب میں اس نے لکھا کہ مقام سلوک طے کرتے ہوئے وہ مقام ذوالنورین میں پہنچا جو نہایت عالی شان اور پاکیزہ تھا ،وہاں سے گزر کر مقام فاروق اور مقام فاروق سے گزر کر مقام صدیق میں پہنچا ، پہر وہاں سے گزر کر مقام نبوت میں پہنچا،جو نہایت منور اور دل کشاں تھا،اس مقام پر،اس پر مختلف لالوان روشنیوں کے پرتو پڑتے رہے۔ استغفراللہ بزعم خویش وہ خلفا کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا ہے اور ان سے عالی تر مقام پر فائز ہوا،اس نے اس طرح کی اور بھی گستاخانہ باتیں خلفاء کی شان میں لکھی ہیں جن کو تحریر کرنا طوالت اور خلفاء کی شان میں بے ادبی کا باعث ہوگا۔
ان وجوہ کی بنیاد پر میں نے اسے دربار شاہی میں حاضر ہونے کے لئے طلب کیا،حسب الطلب وہ حاضر ہوا جب میں نے اس سے کچھ سوال پوچھے تو وہ جواب نہ دے سکا،وہ مغرور اور خود پسند کے علاوہ کم فہم بھی ہے اس لئے وقت کی نزاکت سامنے رکھ حکم دیا کہ اس کی شوریدگی اور آشفتگی جاتی رہے اورعوام میں جو شورش پھیلی ہوئی ہے وہ تھم جائے اس لئے قلع گوالیار میں پابند سلاسل کا حکم دیا۔
جہانگیر کا اس طرح شرح وبسط کے ساتھ ” تزک جہانگیری ” میں ذکرنا خود حضرت شیخ مجدد کی اہمیت،مقبولیت اور شہرت پر دلیل قاطع ہےورنہ اس زمانے میں ہزاروں تہ تیغ کردیئے گئے،ہزاروں جیل میں ڈال دیئے گئے،اور کئی صحراؤں میں پھیک دیے گئے کسی کا کوئی پرسان حال نہ تھا ، آخر شاہ وقت کو کیا ہوا تھا کہ وہ ایک” مجرم ” کی فرد جرم کے ساتھ ساتھ اپنی صفائی بھی پیش کررہا ہے،اس تفصیل اور صفائی کی کیا ضرورت تھی؟
جہانگیر کے مذکورہ بیان سے مندرجہ فرد جرم عائد ہوتی ہے۔
*١* شیخ احمد جال ساز ہے جس نے سرہند میں مکرو فریب کا جال پھیلایا ہے.
*٢* ہر شہر و دیار میں اس نے خلیفہ چھوڑ رکھے ہیں جو معرفت کی دکان آرائی میں کافی پختہ کار ہیں ۔
*٣* اس نے مکتوبات کے نام سے ایک مجموعہ خرافات مرتب کرایا ہے جس میں بعض باتیں کفر کی حد تک پہونچتی ہیں۔
*٤* اس نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ وہ خلفا کے مقامات سے بھی عالی تر مقام پر فائز ہوا ہے ۔
*٥* وہ بے عقل وکم فہم ہے ۔
*٦* وہ مغرور اور خود پسند ہے۔
*٧* اس نے عوام الناس پر شورش پیدا کردی ہے۔

اب ان الزامات کا یکے بعد دیگرے تجزیہ بھی دیکھیں:-
*١* جعل ساز کی حقیقت تو صورت دیکھ کرمعلوم کی جاسکتی ہے،کیا ایک بادشاہ میں قیافہ شناسی کا اتنا بھی مادہ نہ تھا کہ وہ ایک جعل ساز اور فرشتہ صورت میں تمیز کرپاتا ؟

*٢* دوسرے الزام کا تعلق پہلے الزام کے تحقق پر منحصر ہے جب یہی متحقق نہیں تو الزام بے بنیاد ہے۔
*٣* مکتوبات کا تعلق علم معرفت و شریعت سے ہے،اس کو وہی پرکھ سکتا ہے اور اس کے متعلق وہ فیصلہ صادر کرنے حق رکھتا ہے جو علم ومعرفت میں ید طولی رکھتا ہو۔
ایک مبتدی اور نا آشنائے محض کو فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا،اس لئے اس کے فیصلے ہر حالت میں نا معقول گردانے جائیں گے۔
*٤* اس بے بنیاد دعوی سے قطع نظر دربار شاہی میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو خلفائے اربعہ پر تبرّا اور سب و شتم کو دین وإيمان سمجھتے تھے،آخر ان کے خلاف کیا کیا گیا،جب کچھ نہ کیا گیا تو معلوم ہوا یہ الزام محض ایک بہانہ ہے۔
*٥* بے عقل و فہم ہونا قابل تعزیر جرم نہیں،پہر اس ہستی پر یہ الزام جس کی فراست و دانائی کو دنیا کے دانشوروں نے تسلیم کیا ہے،اس ہستی کے لئے یہ کہنا کیوں کر درست ہوگا؟
*٦* مغرور و خود پسندی ہونا خود ایک فعل قبیح ہے،لیکن یہ الزام اس بادشاہ کی طرف سے لگایا جارہا ہے جس کی خود پسندی و غرور کا عالم یہ تھا کہ اس نے رعایا سے سجدہ کرائے، اور اسکا نام” زمین بوس” رکھا اس لئے یہ الزام بھی بے بنیاد ہے اور خود جہانگیر کے عجب و خود پسندی کی طرف غماز ہے۔
*٧* ہاں شورش والی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کی تفصیل نہ بتائی۔
یہ شورش حضرت مجدد کی اصلاحی تحریک کی تھی جس نے ملک کے طول و عرض میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا اور جس نے آگےچل کر سلطنت مغلیہ کو ہم آغوش اسلام کردیا۔
جہانگیر ایسے انقلاب کو دبانا چاہ رہا تھا جس طرح ہر دور میں باطل طاقتوں نے دبانے کی کوشش کی ہے۔
بالآخر پابند سلاسل کے بعد وہ وقت آ ہی گیا جس میں جہانگیر نے اعتراف کیا کہ واقعی ہم راہ مستقیم سے بھٹک چکے تھے قسم قسم کے شنیعات میں ملوث ہوچکے تھے اور وقت کے مرد قلندر حضرت شیخ مجدد نے جو بھی کیا عشق رسول کے بدولت کیا اور عشق رسول ہی کی شمع روشن کرکے سارے ظلمت کدے میں نور ایمان کی روح پھونک دی۔

جلال حق سے دین اکبری کو خاک کرڈالا ۔
چلایا شر کی گردن پر قلم شیخ مجدد نے۔

اللہ کریم ہمیں شیخ مجدد کے طریق کار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ماخوذ 🙁 سیرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ )
[email protected]

Comments are closed.