Baseerat Online News Portal

استاد کی موت شاگردوں کے لئے بہت بڑا سبق ہوتا ہے!

 

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، مانو

 پروفیسرمولانا ولی اختر ندوی صاحب رحمہ اللہ سابق صدر شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کی علالت و معالجہ کے سلسلے میں جو کچھ بھی پیش آیا وہ بہت افسوسناک ہے۔انکی اچانک موت کی خبر سن کر ہم سبھوں کو بہت افسوس وملال ہے۔ جیسا کہ آپ حضرات نے بھی اخبارات میں پڑھا ہوگا اور متعددنیوز کلپ کے ذریعے مشاہدہ کیا ہوگا کہ انکا انتقال تقریبا 7 ہاسپیٹلوں کے چکر کاٹنے کے بعد کسی ہاسپیٹل میں ایڈمٹ نہ ہوپانے اور وقت پر صحیح علاج نہ مل پانے کی وجہ سے ہوا۔ ویسے ہر ایک جاندار کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے اور’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور موت اپنے وقت پر یقیناً برحق ہے، مگر انکے علاج میں ہاسپیٹل والوں کی تنگ دلی اور انسانیت کے نام پر بھی خیرخواہی کی ذمہ داری سے فوری انکارپھر انکا انتقال پرملال ہم مسلمان قوم و ملت کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے، اور دوسری طرف وہ بڑا درس و عبرت کا حامل ہے۔

اس اندوہناک حادثہ اور دہلی کے مشہور ہاسپیٹلوں کے رویے سے ہم سبھوں کو سبق لیتے ہوئے اس بات کی ہرممکن کوشش اور جد وجہد کرنی چاہئے کہ ملک کے ہر صوبہ، ہر ضلع، ہر علاقہ میں مسلمانوں کے بھی بڑے بڑے ہاسپیٹلس ہوں ،جن میں ہمارے بڑے ماہر ڈاکٹرس بھی ہوں۔۔ بلکہ کوشش اس بات کی بھی ہونی چاہئے کہ برادران وطن کے ہاسپیٹلوں میں بھی ہم مسلمانوں کے باصلاحیت ڈاکٹرس اپنی بے مثال خوبیوں کیوجہ سے بڑے بڑے پوسٹوں پر فائز ہوں تاکہ موجودہ وبا اور اس مہاماری کے عالم میں جہاں مسلمانوں کیساتھ سوتیلا رویہ اور دوہرا معیار اپنایا جارہا ہے،اس پر کچھ کنٹرول حاصل ہو، ہمیں اب یہ کہنے میں ذرا برابر جھجھک محسوس نہیں ہورہی ہے کہ بیشتر انسانی جانوں کا اتلاف ہاسپیٹل میں زیر علاج رہ کر ہی ہورہا ہے۔ جب کہ اس وبا سے نہ تو کسی کے گھر سے کوئی جنازہ اور میت نکل رہی ہے اور نہ ہی سانس لیتے چرند و پرند اور جانوروں کا اتلاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔!؟ یہ کیسی وبا ہے جسکا اثر ہاسپیٹلوں سے صحت یاب ہونے کے بجائے میت کی شکل میں نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہانتک کہ بیشتر عوام کا اعتبار بھی حکومتوں، ہاسپیٹلوں اور ڈاکٹروں سے اٹھتا جارہا ہے۔اس معاملے کی حقیقت تو اللہ کو ہی صحیح سے معلوم ہے کہ دنیا میں کیا کیا ظلم ہورہا ہے۔ اور انسانوں نے کیا کیا فساد مچا رکھا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرض کو اب دھندا اور اسلام مخالف وبا ہی بنا لیا گیا ہے اور اسکے بہانے بہت سی غیر اسلامی پابندیاں عائد ہورہی ہیں۔بعض صوبوں میں مسجدوں میں معمول کے مطابق فرض نماز کی ادائیگی پر عقل سے ماوراء فیصلے کئے جارہے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء پربھی پابندی عائد ہے، لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر عدالت فیصلے سنارہی ہے، سی اے اے کے مخالفین مسلمانوں کی گرفتاریاں خوب عمل میں آرہی ہیں، انسانی جانوں سے کھل کر کھلواڑ اور صحیح سے علاج و معالجہ کا فقدان اسوقت کا سب سے اہم ایشو اور مدعاہے۔

ہمیں اب دنیاوی زندگی میں بھی پہلے سے زیادہ چوکس اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور سفر و حضر میں ہمیشہ اپنے رب کو راضی رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہاسپیٹلوں سے جتنا ممکن ہوسکے ہمیں اجتناب کرنا ہی بہتر شکل ہے۔ البتہ ناگزیر حالات میں اپنا علاج و معالجہ کسی ماہر مسلم/ مخلص ڈاکٹر کی نگرانی میں کرانا ہماری بڑی عقلمندی ہوگی، جو کہ پیسوں کے کم انسانی جانوں کے زیادہ مخلص ہوں ایسے ہاسپیٹل و ڈاکٹر کی نہایت سخت ضرورت بھی محسوس ہورہی ہے۔

یاد رکھئے!! ہمیں حالات حاضرہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب مل جل کر سوچنا ہوگا کہ ہمارا مستقبل کیسا ہو، اسلام نے دین و دنیا کو لے کر چلنے کا جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور دنیا کو درست طریقوں پر چلانے کا جو خطہ بتلایا ہے، اس میں ہم دوسروں سے کتنے پیچھے ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہم اپنے علاج و معالجے کے لیے بھی خود مختار نہیں ہیں اور اسکے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی ہماری جانیں ضائع ہورہی ہیں، یہانتک کہ ہماری قیمتی شخصیت ولی اختر ندوی کو بھی بادل نخواستہ گنوانا پڑا ہے، اور نہ ہی ہماری جانوں کی اہمیت دنیا والوں کی نظروں میں قابل رحم و کرم رہ گئی ہے۔ اللہ مسلمانوں کے حال پر رحم و کرم فرمائے اور انکے مرحومین و مرحومات کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

لہذا جسطرح ہم تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ اور عبادت و ریاضت کو حقیقی دین سمجھتے ہوئے دین پر عمل پیرا ہیں، اسی طرح ہم تمام معاملات کو بھی اپنا دین سمجھتے ہوئے اسے درست فرمائیں۔ انسانیت کی خیرخواہی اور مصیبت زدہ لوگوںکی امداد کو بھی عین دین تصور کریں، اسی طرح اچھی سیاست وتدبیر بھی ہمارے دین کا جزء ہے اور عادل حکومت کے نظام کے قیام کی کوشش بھی ہمارے دین متین کا جزء لاینفک ہے، اللہ کے نظام کے تحت اگر عمل کیا جائے تو پوری معاشرت، تعلیمات، اسعاد انسانیت، معاشیات، سیاسیات سب ہمارے دین کا حصہ اور اہم باب ہے،جس سے ہم مسلمان غافل اور کنارہ کش ہیں۔ اور اس باب اور جزء کے خلاف عمل یقینا ہماری بے دینی اور بڑی لاپرواہی ہے۔جسکا تدارک اور اس بات کی کوشش ہر مسلمان پرضروری اور لازم ہے۔ ہمیں سب سے پہلے تو اپنی جان و مال کی حفاظت اور اپنے اموال کا صحیح استعمال ہمارے بگڑتے نظام العمل کے لئے بہت اہم ہے، جسے درست کرنے کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔

آج کہاں کہاں، کن کن میدانوں میں ہماری بہترین کارکردگی اوراچھی نمائندگی کی پھر سے شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے تاکہ ہم بلکتی اور سسکتی انسانیت کو ظالموں کے پنجوں اور انکے ناپاک عزائم وسازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انکی بقا و تحفظ کا فوراسامان مہیا کر سکیں۔۔اور ہم اپنی اجتماعی و انفرادی کوششوں، خوبیوں اور پوشیدہ قیادت انسانیت کی صلاحیتوں سے اپنی نسل کیساتھ ساتھ دنیا والوں کو بھی ظالم حکمرانوں اور فرقہ پرستوں کے ظلم وستم، قتل و غارتگری اور نفرت و عداوت سے نجات دلاسکیں اور انکی صحیح طور پر خدمت کر کے انسانیت کی رہنمائی کرسکیں اور انہیں اپنا اور اپنے دین و شریعت کا پھر سے گرویدہ بنا سکیں۔ تقبل اللہ جھودنا ووفقنا لما یحب و یرضی۔

ہمیںسب سے پہلے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس حاصل کرنا ہوگا اور اسکا حقیقی ترجمان اور پیامبر بننا ہوگا۔ صرف زبانی باتوں سے اب ہمارا اور ہمارے دین و شریعت کا کام چلنے والا نہیں ہے۔ ورنہ ایک ایک کرکے ہماری شناخت مٹا دی جائے گی اور ہماری زندگی اجیرن بنا دی جائیگی اور ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق بھی نہیں رہ سکیںگے۔ دوسروں کے سہارے اب کب تک جیتے رہیں گے۔ دوسرے اب ہمارے مخلص نہیں رہ گئے!! مولانا ولی اختر ندوی کی موت سے ہمیںیہی سبق ملتا ہے اور ہماری یہی تدابیر انکے لئے بڑاخراج عقیدت ثابت ہوسکتی ہیں، مسلمانوں کو اب ہر طرح سے مل جل کر سوچنا چاہئے اور اچھی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بہترین لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ اور دنیا والوں سے اپنی افادیت و قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے مسلم طلبا و طالبات کو ہر میدان کے لئے کھڑا ہوجانا چاہئے اور درس و تدریس میں رات و دن ایک کردینا چاہئے۔ پبجی جیسے مشرکانہ گیموں اور فالتو چیزوں میں ضیاع اوقات سے بہر حال باز آجانا چاہئے۔۔ اور خوب محنت وکوشش سے اپنی برتری ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہئے۔ یہی ہمارے مسلم طلبا و طالبات سے گزارش ہے اوریہی مولانا ولی اختر کی اندوہناک موت کا حقیقی پیغام اور سبق ہے،کیونکہ آپ ہی ہماری قوم و ملت کے روشن اور تابناک مستقبل ہیں۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔اللہ ہماری فکر و نظر کو خوب بلند و بالا فرمائے۔

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اللھم احفظنا من کل بلاء الدنیا و الآخرۃ

Comments are closed.