Baseerat Online News Portal

جہاں انصاف نہیں وہاں امن نہیں ……..

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )

ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن

عدالتوں میں انصاف کی دیوی کا مجسمہ تو سبھی نے دیکھا ہوگا بھلے فلموں میں ہی سہی ……
دراصل یہ محض مجسمہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے جو ساری دنیا کو عدل و انصاف کا پیغام دیتی ہے.
رومن کی دیوی کے نام پہ اس انصاف کی دیوی کو بنایا گیا جس کا نام "جسٹسیا” تھا , اس کے علاوہ گریک یونانی عورت تھیمس اور اسی طرح مصر میں بھی انصاف کی دیوی کے متعلق لکھا گیا ہے ……….
جس کی آنکھوں پہ کالی پٹی بندھی ہوتی ہے جو ایک ہاتھ میں تلوار, دوسرے ہاتھ میں ترازو پکڑے پیروں تلے سانپ کو کچل رہی ہوتی ہے اور ہر علامت کے پیچھے ایک پیغام ہے
میزان کا مطلب سچ اور جھوٹ کا فیصلا ثبوتوں کے وزن پہ کرنا,
تلوار کا مطلب انصاف کی دیوی قانون کا صرف فیصلہ ہی نہیں کرتی بلکہ اس کو نافذ کرنے کا اختیار طاقت بھی رکھتی یے
پیروں میں سانپ کو کچلنے سے مراد ہر شیطانی برائی کو دبوچنا ہے
آنکھوں میں بندھی پٹی کا مقصد انصاف کی دیوی یہ نہیں دیکھا کرتی کہ اُس کے آگے کون کھڑا ہے اپنا , پرایا یا کس بھیس میں کتنا طاقتور ہے
یہ دیوی تو اندھی ہے جو صرف اور صرف ثبوتوں کی بنیاد پہ فیصلا کرتی ہے ……… جس کے آگے کسی کی شخصیت, رتبہ کوئی معنی نہیں رکھتا ……….

لیکن افسوس
آج اُسی انصاف کی دیوی کے آگے جیتی جاگتی زندہ دیویوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے, بےگناہ نوجوانوں کی زندگی زندانوں میں دم توڑ رہی ہے ……
ایسے میں اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ مجسمہ صرف مجسمہ ہی ہوتا ہے لاکھ معنی ہونے کے باوجود یہ بےمعنی ہے اور اس دیوی کو نمن کرنے والے قانون کے سب سے اونچے تخت پہ براجمان ہوکر انصاف کا فیصلا سنانے والون کی آنکھیں موجود ہیں جو متعصبانہ ہیں جو مجبور, مظلوم, بےقسور و بےگناہوں کو نہیں دیکھتی بلکہ یہ طاقت عہدہ و رتبہ کی بنیاد پہ فیصلا سناتی ہیں انصاف کا دارومدار اب نہ ثبوتوں پہ رہا نہ ہی گواہوں پہ
یہی وجہ ہے کہ آج میزان بےوزن, تلوار زنگ آلود اور سانپ انصاف کی دیوی کے پیروں کی زنجیر بن چکا ہے خاص کر ہندوستانی عدالتوں کی دیوی بےبس, لاچار کھڑی نظر آرہی ہے ………….

جی ہاں موجودہ حالات کے مدنظر ملک کی عدلیہ کا جو کردار سامنے آرہا ہے وہ بیشک غیرجانبدارانہ ہے, جسے دیکھتے ہیں تو قتیل شفائی کے یہ اشعار یاد آتے ہیں ………….
” کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے

جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے ” ……….

یہ حالات ملک کے مستقبل کے لئے بیحد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں
کیونکہ آج عدالتوں سے سینکڑوں معصوموں کے قاتل باعزت رہا کئے جارہے ہیں, عورتوں و بچیوں کی عصمت پامال کرنے والے چنمیانند جیسے درندوں کی ننگی کرتوتوں پہ سفید چادریں اڑھائی جارہی ہیں
فساد کرواکر معصوم لوگوں کا نرسنگھار کرنے والے آدم خوروں , گائے کے نام پہ مسلم نوجوانوں کا قتل وعام کرنے والے سنگھیوں, اشتعال انگیز بیانات دے کر ملک میں نفرت کا زہر گھولتے ہوئے فساد کروانے والے کپل , انوراگ, راگھنی جیسے ملک کے غدار دہشتگردوں کو کلین چیٹ دی جارہی ہے , عوام کا حق لوٹنے والے تاناشاہ حکمران کی تائید کی جارہی ہے
وہیں برعکس ملک کے آئین اُس کے تحفظ و انسانی حقوق کی بقا کے خاطر سی اے اے و این آر سی جیسے ظالمانہ غیر انسانی قوانین کے خلاف احتجاج و مظاہرے کرنے والے احتجاجیوں, سماجی کارکنان اور بی جے پی حکومت کی غلط پالسیوں پہ سوال کرنے والے صحافیوں پہ دہشتگردی کے جھوٹے و بےبنیادی الزامات لگا کر ایک پیشاور ملزم کی طرح گرفتار کرکے اُن پہ ذہنی اور جسمانی اذیتیں ڈھائی جاتی ہیں اُن کے حال کے ساتھ مستقبل بھی تباہ و برباد کیا جارہا ہے ………
جن میں 5 ماہ کی حاملہ سفورا زرگر اور کئی صنف نازک جہدکار بھی شامل ہیں
جن کے حق میں اقوام متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے رہائی کی مانگ کی ہے باوجود متعصبانہ سوچ کے چلتے ان بےقسور نوجوانوں پہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے ایسے میں عنقریب نئی نسل کا حکومت کے خلاف بغاوت پہ اتر آنا کیوں نہ ممکن ہو ؟
یاد رہے جب ظلم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو کمزور سے کمزور انسان اپنی دفا میں پلٹ وار کرنے لگتا ہے اور جب انصاف کے مندروں میں انصاف کی جگہ ناانصافی کی داستانیں رقم ہونے لگ جائیں تو مظلوم کو بھی ظالم بنتے دیر نہیں لگتی پھر نہ تاریخ نہ ثبوت نہ گواہ بلکہ جو بھی ہوگا طاقت کے زور پہ آن دا اسپاٹ ہوگا
بچوں کے ہاتھوں میں قلم کتابوں کھلونوں کے بجائے پتھر سے ہتھیار آتے دیر نہیں لگے گی اور اس کے ذمہ دار ملک کے وہ ہر عام و خواص انسان ہوں گے جو ظلم ہوتا دیکھ تماشبین بنے ہیں ……..

ملک کے حالات ساری دنیا دیکھ رہی ہے اقلیتی طبقہ پہ ہورہے مظالم کسی سے چھپے نہیں ہیں کہیں قانون کی آڑ میں سنگھی پولس کے ہاتھوں مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو کہیں اندھ بھکتوں کے ذریعہ لنچنگ کروایا جاتا ہے
یہ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ کس کے اشارون پہ کس سازش کے تحت اور کون اس کا ماسٹر مائنڈ ہے ……..
باوجود ہر کوئی بےبس لاچار بنا ہے کوئی کچھ نہیں کرپارہا کیونکہ آج پولس, میڈیا عدالتیں سب کچھ بک چکی ہیں چاروں اور جنگل راج کا ڈنکا بج رہا ہے
ایسے مین یہ بےبسی لاچاری بہت جلد ٹوٹے گی پھر جو ہوگا بہت بھیانک ہوگا اُس وقت ہاتھ ملنے خون کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ بچے گا
جیسے گیہوں کے ساتھ گھُن کا پسنا لازم ہے بالکل اُسی طرح ظالم گنہگار کے ساتھ بےگناہ معصوم کا بھی پسنا لازم ہے
اس لئے اُس دن کے آنے سے پہلے اپنے لئے آنے والی نسلوں کے لئے حالات کو قابو کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے …….
اُمید ہے ہم سبھی خاص کر قوم کا ہر فرد اپنی اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے سفورا زرگر اور دیگر تمام احتجاجیوں, سماجی کارکنان و بےگناہ قیدیوں کے حق میں آواز اٹھائینگے اور عدالتوں سے یہ مانگ کریں گے کہ انہیں جلد از جلد آزاد کیا جائے ……… کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

"اُس کی تقدیر ہی محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف ”

یہاں پہ عدلیہ کو بھی چاہئیے کہ وہ عوام کی نظر میں اپنا مقام اپنا وقار برقرار رکھتے ہوئے ثبوتوں, گواہوں کی بنیاد پہ فیصلے سنائیں نہ کہ طاقت کے زور پہ
ورنہ اگر عوام کا ملک کی عدلیہ پر سے بچا کچا یقین بھی اُٹھ گیا تو فیصلے عدالتوں سے نکل کر سڑکوں پہ ہونے لگیں گے …………
کیونکہ جس ملک کی عوام کا عدلیہ پر سے یقین اُٹھ جائے, جہاں انصاف کا پلڑا طاقتور کے آگے جھکتا ہو, جہاں انصاف غنڈے بدمعاشوں کی چوکھٹوں پہ مجرا کرتا ہو , جہاں انصاف کی قیمت عہدوں و کوڑیوں میں طئے ہوتی ہو وہاں وہ وقت دور نہیں جب لوگ انصاف مانگنے کے بجائے خود چھیننے لگ جائیں گے پھر اُس ملک میں جنگل راج کے عام ہونے میں کسی کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئیے …………… کیونکہ
"جہاں کٹتا ہے سر انصاف کا, ایمان کا
روز و شب نیلام ہوتا ہے جہاں انسان کا” …………

Comments are closed.