Baseerat Online News Portal

تجارت وقت کی اہم ضرورت

شاداب انظار ندوی

اللہ رب العزت نے انسانوں کو پیدا کیا اور زندگی کے وہ تمام راستے بتائے جس کی اس دنیا میں اس کو ضرورت ہے .پورا نظام حیات اللہ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں ارشاد فرما دیا ہے چاہے وہ انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو ۔جیسے معاملات ہو قضاء ہو۔سیاست کی بات ہو۔یا ازدواجی زندگی کی بات ہو ۔ہر معاملے کو۔اللہ نےوضاحت کے ساتھ بیان کیاہے اسی طرح عبادت کے ساتھ ساتھ تجارت کے کرنے کا۔طریقہ بھی بتا دیا ہے۔ اللہ نے تجارت کو حلال زریعہ معاش بتا یا ہے اور قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا“(البقرة: 275)، اللہ نے تجارت کو حلال کیااور سود کو حرام کیا ۔یہ آیت اس بات کی دلیل ہےکہ ہم دنیا کی زندگی میں اللہ کی عبادت کے ساتھ تجارت کو بھی فروغ دیں۔عبادت کے وقت صرف عبادت ۔جیسا کے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے یااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِن یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرُ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الجمعۃ: ۹) اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکرِ الٰہی (خطبہ و نماز) کی طرف لپکواور خرید وفروخت چھوڑ دو، تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم سمجھو۔اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عبادت کے وقت عبادت تجارت کے وقت تجارت کیونکہ تجارت ایک ایسی ضرورت ہے کے جس سے انسان کی معیشت دورست ہوتی ہے قوم ومعاشرے کا وقار بلند ہو تا ہے ۔آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے دنیا والوں کو تجارت کر کے بتلا یا ۔
آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ایک عمدہ تاجر تھے آپ کے تجارت کے عمدہ اوصول کو دیکھ کر ہی اماں خدیجہ نے آپ کے پاس شادی کا پیغام بھجوایا توآپ نے قبول کیا ۔اور جب آپ کو نبوت ملی توآپ نے تاجروں کا حوصلہ بڑھایا ۔اور ارشاد فرمایا
التاجر الصدوق الأمین مع النبین والصدیقین والشہداء “ (سنن الترمذي، حدیث نمبر :۱۲۵۲)

” جوتاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا“ایک ایسے مقام کی طرف اشارہ فرمایا جس کا طالب ہر ایمان والاہے۔اس لیے کے انسان کی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت ہے۔
اور عبادت آدمی اس وقت خشوع خضوع سے کرتا ہے جب وہ خود مختار ہوتا ہے اور خود مختاری اس وقت حاصل ہوتی ہے جب مال و دولت پراس کا قبضہ ہو۔اور اگروہ غریب ومفلس ہے تو اس وقت وہ خدا کے سامنے سوالی نہیں ہو گا بلکہ خدا کے نام پر سوال کرتا ہوانظر آئے گا اس طرح اس کی دنیا اور آخرت دونو برباد ہو جاتی ہے ۔ یا پھر کسی بادشاہ کے دربار میں اپنے ضمیر کا سودا کر کے ان کے دیے ہوےٹکڑوں کا ممنون ومشکور بنا پھریگا بجائے خدا کے شکر ادا کرنے کے انہیں لوگوں کے نام کی مالا جپتا ہی نظر آئے گا۔اسی لیے اللہ نے انسانی فطرت کو جانتے ہوئے قرآن میں اس بات کا لوگوں کو ایک راستہ بتلا یا . فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّـٰهِ وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ كَثِيْـرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (10)
پس جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔اللہ تعالی نے اس آیت سے واضح کر دیا کے تم کو تمہارا رزق جو زمین میں پھیلا ہوا ہے اس کو تلاش کرنا ہے تلاش کرنے کا مطلب ہے کے تجارت کرنی ہے کمانا ہے اب اگر آپ تجارت کر تےہیں تو کیسے کریں اسکے تمام اصول قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔حدیث وفقہ کی کتابوں میں تجارتی اوصول وضوابط پر باضابطہ ابواب کتاب البیوع کے نام سے موجود ہے ۔جہاں بیع مضاربت اور بیع سلم اور دیگر بحثیں موجود ہے جس کو مدارس میں پڑھایا جا تا ہے ۔مگر افسوس اس بات پر ہے کے جس قوم کو اس کی مذہبی کتاب نے تجارت کا سیاست کا وکالت کا اور بھی دیگر علوم وفنون کا علم دیا ہے وہی اس سے کوسوں دور ہے نہ تجارت میں مہارت ہے نہ ہی سیاست میں اسکی گنتی ہے ۔کیا قرآن وحدیث کی تعلیم صرف اس لیے دینی چاہیے کہ اس تعلیم کا حاصل کر نے والاہر شخص اسی کی نشرو اشاعت کا کام کر تا رہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مدارس اپنے بچوں کو کتاب البیوع ، تاجر بنا نے کی حیثیت سے کیوں نہیں پھڑھا تے ۔اگرتجارت کی رغبت سے پڑھا یا جا تا تو آج جو اسلامی اداروں کی صورت حال ہوئی ہے وہ نہ ہو تی ۔
اگر ان اداروں کا نظام امام ابوحنیفہ جیسے تاجر کے ہاتھوں میں ہوتا زکوةکی وصولی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ادارے میں دسیوں سال سے خدمت کرنے والے اساتذہ کو ایک خط دیکر مایوس نہ کر تے ان کے سالوں کی محنت اور خدمت کا یہ صلہ نہیں دیتے ۔ لاکھوں مولویوں کے چولہوں پر بچوں کو دلاسا دینے کے لیے کنکریاں ابال نےکی نوبت نہ آتی یہ تمام تر وجوہات ہمارے فکری انحطات کا ہی اصل سبب ہیں ۔جس قوم میں فکری انحطات آجائے تو اس کی پوری نسل زوال سے نہی بچائی جا سکتی شاید ہماری قوم بھی اسی راستہ پر ہے جہاں ہمارے ذی ہوش علماءکرام کو بچوں کو مدارس سے فارغ کر نے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتاہے۔ میں یہ بات معذرت اور معافی کے ساتھ لکھ رہا ہو ں کیونکہ اسی کتاب البیوع کو پڑھا کرترقیاتی یافتہ دنیاں نے M B A کا نام دیا لوگ لاکھوں خرچ کر کے اپنے بچوں کو ایسی تجارت کی تعلیم دیتے ہیں جو سود پر مبنی ہو تا ہے کیا اپنی قوم کو اس دلدل سے بچانا ہماری زمہ داری نہیں ہے۔
اگر میری یہ تحریر ان اکابر علماء کی نظر سے گزرتی ہے جن کے ہاتھوں میں تعلماتی نظام ہے یا جن کی ایک پکار پر پورا ملک لبیک کہتا ہے تو میری ایک گزارش ہے کے اپنی قوم کے بکھر تے ہوئے نوجوانوں کو سہارادیں اوراپنے اداروں کو خود مختار بنائں اپنے بچوں کو تاجربنا ئیں ۔آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی ایک حدیث ہے ۔رسول اللہﷺ نے حضرت عمرو بن العاص رضوی اللہ عنہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم کو مناسب مقدار میں مال حاصل ہوجائے ، انہوں نے کہا اللہ کے رسول ! میں مال کے لئے مسلمان نہیں ہوا ۔ میں اپنی قلبی رغبت سے مسلمان ہوا ہوں ۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا صالح آدمی کیلئے صالح یعنی حلال مال بہت ہی بہتر شئے ہے ۔ (مسند احمد 17309)آپﷺ نے خود تجارت فرمائی ، حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمان ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا ۔آپؐ سے پہلے جتنے نبی گزریں ہیں سبھوں نے تجارت کی۔
٭حضرت آدم علیہ السلام زراعت کیا کرتے تھے۔
٭ حضرت ادریس علیہ السلام سلائی کا کام کیا کرتے تھے۔

٭حضرت دائودعلیہ السلام زرہیں بنایا کر تے تھے۔
انہوں نے اللہ کا پیغام بھی لوگوں تک پہنچایا اور اپنی معاشی حالت پر بھی نظر رکھا
اتنی بڑی بڑی ذمداریوں کے ساتھ انہوں نے تجارت کی ہے تو کیا ہم اپنے تعلیمی نظام کے ساتھ تجارت کو فروغ نہیں دے سکتے ۔دیسکتے ہیں مگر فکری زوال ہماری ناکامی کا سبب بنی ہوئ ہے ۔سچر کمیٹی کی ریپورٹ کے اعتبار سے تعلیمی اور مالی دونو اعتبار سے ہمارا دیولیا نکلا ہواے آخر کس چمتکار کے انتظار میں ہم۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں .
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا .
اٹھیے زمانے کی تجارت کے نظام کو بدل دیجیے۔دنیا کو بتا دیجیے کے محمد کے متوالوں نے دنیا کے تجارتی بازار میں قرآن کا حکم نافذ کر دیا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب علماءوں کا قافلہ تجارت کے بازار میں نظر آیںگا۔

Comments are closed.