ہم سے اتنی نفرت کیوں ؟

مرزا عادل بیگ (9823870717)
کچھ دن قبل کانپور کے میڈیکل کالج کی پرنسپل صاحبہ ڈاکٹر آرتی لال چندانی کا ایک ویڈیوں وائرل ہوا تھا ۔ جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے مسلمانوں کے خلاف جوز ہر آفشانی کی ہیں وہ قابل افسوس ہے ۔ ڈاکٹر آرتی نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور مسلم مریضوں کو جنگل میں چھوڑدینے ، یا پھر کال کھوٹھری میں قید کرنے کو کہا تھا، اب ڈاخٹر آرتی صاحبہ کے پہلے کئی واقعات رونما ہوئے ہے ۔ جس کو دیکھ کر لگتا ہے اس ملک کی اکثریت ، اقلتی طبقات کے سے شدت سے نفرت کرنے لگی ہے ۔ آج سنگھی مرکزی حکومت نے ملک میں ایسا نفرت کا بیج بویا ہے ، جس کی فصل خون ریزی ، ظلم وو ستم ، ناانصافی ، قتل و غارت گیری ، دہشت گرد ی ، عصمت دری، مادیت پرستی ک، حسد و بغض، اشتعال انگیزی سے پر وان چڑھ رہی ہیں ۔
حکومت کورونا (مہلک وبا ء) کو مسلمانوں سے جوڑنے کی بھر پور کوشش کرتی رہی ہے ، آج گودی میڈیا نے دن رات ، کئی قیمتی دنوں کو جماعت (تبلیغی ) کے سر باندھا تھا ۔ مرکز کو کورونا ہاٹ اسپاٹ بتا کر ، مولانا سعدصاحب (امیر تبلیغی جماعت ) کو خطر ناک ملزم ثابت کرنےکی کوشش کی ہے ۔ کئی بیرونی ساتھیوں کو قید کر کے رکھا ، انھیں ستایا ، پریشان کیا ، پھر اسپتال سے رہائی وغیرہ کرائی گئی ، گودی میڈا مسلمانوں کو کورونا کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے لگی ، مختلف مرحلوں میں لگے لاک ڈاؤن سے ملک کو شدید نقصان ہو ا ہے ، وہی سرمایہ کاری نظام در ہم برہم ہو چکا ہے ۔ کمپنیوں ، کارخانوں ، میلوں ، تعمیراتی کمپنیوں کو کرڑوں عربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے ۔ ملک کا مزدور ، غریب پیشہ افراد ، کسان ، ضرورت مند طبقہ ، روز داری کرنے والے، بھوک مری ،، فاقہ کشی ، تنگ دستی سے نڈھال ہو کر ، بے بسی کی موت کو گلے لگاتے دیکھا گیا ہے ۔ غریب مزدوروں کو ، روزداری کرنے والوں کو ،دہلی ، ممبئی ، پونہ سے اپنے وطن ہزاروں میل پیدل چلتے دیکھا ہے ۔ بھوک و پیاس کی شدت نے ہزاروں جانوں کو لقمہ اجل بنایا ہے ، ایسے سنگین ، دل سوز و وحشت طاری حالات میں ملک کے الگ الگ علاقوں سے ، شہروں سے غریب مسلمانوں نے مسلم سماجی تنظیموں نے ، مسلم دینی تنظیموں نے بناء مطلب و اغراض سے دور راحت کا کام کرتے دیکھا گیا ہے ۔ یہ تنظیموں نے جماعتوں نے ، راشن کٹ ، پانی ، ادوایات ، دورانِ سفر لگنے والی چیزوں کو بنا مذہب و ملت سب ہی انسانوں کو یکساں سمجھ کر سہولتیں مہیاں کرائی ہے ۔ ان کے کندھوں سے کندھا لگا کر کھڑے رہتے ہوئے دیکھا ہے ۔
آج کورونا مرض میں مبتلا تین لاکھ سے زائد افراد ہو چکے ہے ۔ جس میں 1 لاکھ 54 ہزار افراد کو ٹھیک کیا گیا ہے ۔ وہی اس مہلک مرض سے مرنے والی کی تعداد 9280 ہو چکی ہے ، ہر دن 10،000 کے قریب نئے معاملات سامنے آرہے ہے ، کورونا مرض کے پھیلاؤں کے معاملے میں ہمارا ملک چوتھے نمبر پر آچکا ہے ، ایسے ہی مریض بڑھنے لگے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک پہلے نمبر پر آجائیگا ۔ ملک کے مختلف شہروں میں ہو رہی ہلاکتوں کے بعد معاملات اور بھی سنگین ہوتے جارہے ہے ۔ رشتہ دار مہلک کی لاش لے جانے کو کترا رہےہے ۔ ایسے حالات میں ورثہ دوری بنائے ہوئے ہے ۔وہی مسلم تنظیمیں ، مسلم کلب، مل نواسی منچ وغیرہ لاش کے مذہب کے مطابق ، ریتی رواج سے تدفین ، انتم سنسکار کرتے نظر آرہے ہے ۔ مسلمان ہر جگہ ہر محلہ میں اپنے پڑوسیوں کی ، مسافروں کی ضرورت مندوں کی مدد کر رہا ہے ۔ کئی مسافروں کے بیانات ہمارے سامنے ہے ، جنہوں نے کہا کہ مسلم بستیوں میں رہنے والے مسلمانوں نے ہماری خوب مدد کی ، ہمیں کھانا دیا ، پانی دیا ، ہماری ضروریات ِ زندگی پورا کرنے کی کوشش کی ، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہمیں نفرت کی نگاوں سے دیکھا جا رہا ہے ، آج گودی میڈیا مسلمانوں کی امداد ، راحت بچاؤں کام ، مسافر خانوں میں کی جانے والے خدمت ، ریلوے اسٹیشنوں پر باٹتے ہوئے فوڈ پیکیٹ ، کو دیکھ کر جل بھون گیا ہے ۔ اس لیے فلم انڈسٹری کے دوسرے درجہ کے ایک معمولی ایکٹر کو لاکر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کی طرف سے خوب مدد کی جارہی ہے ، غریب دہاڑی مزدوروں کو انکے گھر تک پہنچایا جا رہا ہے ۔ ہزاروں لاکھوں مزدوروں کو انکے گاؤں چھوڑا گیا ہے ۔ یہ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ سخت ترین لاک ڈاؤن میں مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے کاموں سے عوام (اکثریتی) متاثر نہ ہو جائے ، ان کے دلو ں میں مسلمانوں کے طئے محبت پیدا نا ہوجائے اس لئے سنگھ پریوار نئے نئے حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔
میں اپنی تحریر کو ختم کرنے سے پہلے اس سخت ترین لاک ڈاؤن کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ہوئے نا انصافی کے کچھ واقعات کو پیش کرو ں گا۔ وہلی یونیورسیٹی کے پروفیسر شعبہ عربی جناب ولی اختر صاحب کو 7 دواخانوں میں نہیں ملا علاج ، آخر میں ان کی موت واقعی ہوگئی ، انھیں مسلمان ہونے کی بنا ء پر دو ا خانے آنے نہیں دیا گیا ، دوسرا واقعہ مدھیہ پردیش کا ہے حال ہی میں ہوئے امتحانات کا ہے ، جہاں مسلم نقاب پوش لڑکیوں کو اسکول کے ہال میں جانے نہیں دیا گیا ، مسلم بچیاں ، اسکول کے میدان میں بیٹھ کر امتحان دیتی رہی ، ایک واقعہ اتر پردیش کا ہے شاملی ضلع کے ٹپرانا گاؤں میں گئو کشی کے نام پر مسلمانوں کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ ٹپرانا گاؤں کے 200 خاندان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہے ، اب یہ 200 خاندان کہاں جائے گے ، کیا کریں گے ، کون ان کی مدد کو آگے آئیگا یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ ایک واقعہ آپ کی نظر کر رہا ہوں ، راجستھان کے چرو ضلع کے ملٹی اسپیشلیٹی ہاسپیٹل شام میرا سِنھ کا ہیں جہاں کا میڈیکل اسٹاف مسلمانوں کے علا ج میں لا پر واہی برتنے ، اس کا اعلاج نہ کرنے ، مسلمان کو صحیح علاج سے کیسے دور رکھے اس پر ان گنت پیغامات واٹس اپ پر اپلوڈ کرتے رہے ، ایک اور واقعہ آپ کو بتا نا چاہتا ہو ، گوا ایئر پائلیٹ آصف خان ، جنھیں قابل اعتراض ٹویٹس کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا ، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ہندو بھگوانوں کے لیکر قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا ۔ جب کہ آصف خان اسے بے بنیاد ، من گھڑت بتا رہے ہے ۔ بہار کے ضلع چمپارن کے گاؤں مہسی تھانہ حلقہ کے ایک نوجوان محمد اجرائیل کا الزام ہے کہ 2 جون کو پڑوس کے ایک گاؤں میں اپنے دوست سے ملنے جانے کے دوران انہیں ایک اکثریتی طبقہ کے گروپ نے روک کر کفریہ کلام کہنے کو کہا، نہیں بولنے پر بہت زد کوب کیا ، لاٹھی ، ڈنڈوں سے پٹائی کی اور مرگیا سمجھ کر چھوڑ دیا ، حالیہ دنوں میں دہلی فساد کی چارج شیٹ داخل کی گئی جس میں طائر حسین کو فساد کا ماسٹر مائینڈ بتایا گیا ، وہی کپل مشرا کا نام و نشان تک نہیں ، طائر حسین پر تبصرہ کرتے ہوئے امانت اللہ خان (آپ پارٹی ، ایم ایل اے) نے کہا طائر حسین کو مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے ، سی۔ اے ۔ اے ، این ۔ آر۔ سی ، پروٹیسٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی حاملہ خاتون صفورا زرگر آج سلاخو ں کے پیچھے ہے ،ان کی ضمانت کب ہو گی کوئی نہیں جانتا ، وہی آج مسلمانوں کو ہر جگہ نفرت بھری نظروں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ چاہے پھر دواخانہ ہو ، عدالت ہو ، پولس محکمہ ہو ، سوسائیٹی ہو ، بینک ہو ، سرکاری و نیم سرکاری محکمات ہو ، ہر جگہ اس کا نفرت سے استقبال کیا جاتا ہے ، آج مسلمانوں کا اس ملک میں نفرت مقدر بن چکا ہے ، میں اپنی بات اس اہم مقام پر لا کر ختم کرتا ہو کہ جہاں آپ کو منصف بن کر فیصلہ کرنا ہوگا ۔ دونو ں واقعات مہاراشٹر سے جڑے ہیں جس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔
پہلا واقعہ 26 مئی کا ہے ، ضلع اکولہ کے میڈیکل کالج جہاں ایک غیر مسلم شخص کی کوویڈ 19 سے مو ت واقعہ ہوگئی ، جس کی لاش، انتم سنسکار کرنے کے لئے بیٹے نے انکار کر دیا ، مجبوری میں مسلم نوجوانوں نے ہندو ریتی رواج سے انتم سنسکار کیا ، وہی دوسرا واقعہ میونسپل کارپوریشن ہاسپیٹل ، حیدرباغ نانڈیڑ کا ہے جہاں ایک غریب مسلم حاملہ خاتون کی ڈیلوری کرنے سے انکار کیا گیا ، اس ملک میں نفرت کی آگ لگ گئی ہے ، اس آگ کا شکار سارا مسلم سماج ہو رہا ہے ، ہم نے بھی اس ملک میں 800 سالہ حکومت کی ہے ہماری طرف سے ایک بھی واقعہ ایسا بتا دو کہ ہم نے کبھی زیادتی کی ہو ، ظلم کیا ہو، نا انصافی کی ہو ، کسی سماج کو تکلیف دی ہو ۔ میں اس اقلیتی طبقہ کی طرف سے اکثریتی طبقہ سے پوچھنا چاہتا ہو کہ ہم سے اتنی نفرت کیوں؟
Comments are closed.