Baseerat Online News Portal

"گولی مارو سالوں کو” کہنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں! 

"گولی مارو سالوں کو” کہنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں!

شکیل رشید

"دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو”

کیا آپ جانتے ہیں یہ نفرت انگیز نعرہ کس نے لگایا تھا؟ یقیناً جانتے ہوں گے، بی جے پی کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکرنے۔ نعرہ دہلی اسمبلی کے لیے انتخابی مہم کے دوران لگایا گیا تھا۔ اور نشانہ شاہین باغ کے سی اے اے مخالف احتجاجی اورمسلمان تھے۔ نعرہ صرف اشتعال انگیز ہی نہیں مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والا بھی تھا۔ نعرے کو الیکشن کمیشن نے بھی اشتعال انگیز مانا تھا اور انوراگ ٹھاکر پر چند دنوں تک کے لیے انتخابی مہم میں شرکت پر پابندی لگا دی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے سی اے اے کے احتجاجیوں بالخصوص شاہین باغ کے مظاہرین کی انتہائی گھناؤنی تصویر لفظوں میں اس طرح بیان کی تھی: "یہ تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری بہن بیٹیوں کو ریپ اور قتل کریں گے”۔ ورما کو بھی چند روز کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ بس، ان دونوں کے خلاف اتنی ہی سی کارروائی کی گئی!! اور جمہوری طرز پر پر امن سی اے اے مخالف تحریک چلانے والوں کے خلاف، جنہیں "دیش کے غداروں” کہا گیا اور جن کے خلاف لوگوں کو "گولی مارو سالوں کو” کہہ کر تشدد کے لیے اکسایا گیا،اور جن کی "یہ تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری بہن بیٹیوں کو ریپ اور قتل کریں گے” کہہ کر کردار کشی کی گئی، آج کے دنوں میں وہی کارروائی کی جا رہی ہے جو واقعی کسی "غدار” سے ہی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہ کہ اب اشتعال انگیزی اور نفرت کا پرچار جمہوری بھارت میں” جائز” ٹہرے ہیں اور پرامن جمہوری تحریکیں "ناجائز”۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو پہلے "آئینی” تھا اب وہ "غیر آئینی” بنا دیا گیا ہے۔

دو مثالیں مزید لے لیں، دہلی اسمبلی کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی آئے تھے، ان کی تقریریں شاہین باغ، بریانی، گولی، پاکستان اور آرٹیکل ۳۷۰کے گرد گھومتی تھیں۔ ایک جلسے میں بولے : "یہ بولی کی بھاشا نہیں مانے گا تو گولی کی بھاشا سمجھے گا”۔ مثال ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کی شاہین باغ پر کرنٹ پہنچے والی تقریر کی بھی دی جا سکتی ہے لیکن اس سے بہتر مثال بھاجپائی لیڈر کپل مشرا کی ہوگی۔ سی اے اے کے احتجاجیوں کو ہٹانے کے لیے انہوں نے پولیس کو وارننگ دی تھی کہ اگر انہیں پولیس نے نہ ہٹایا تو ہمارے لوگ آکر انہیں سڑک سے ہٹا دیں گے۔ یہ وہ زہریلا بیان ہے جو ان دنوں اس لیے پھر موضوع گفتگو بنا ہے کہ فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے اپنے ساتھیوں سے ایک میٹنگ کے دوران اس کاتذکرہ کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ دہلی اسمبلی کی انتخابی ریلیوں اور جلسوں کے دوران انوراگ ٹھاکر سے لے کر پرویش ورما، امیت شاہ اور یوگی تک سب ہی گولی اور کرنٹ کی بات کرتے رہے۔ کپل مشرا نے تو الیکشن کے بعد ایکشن لینے تک کا اعلان کر دیا، اور الزام یہی ہے کہ مشرا کے بیان پر ہی دہلی میں فساد شروع ہوا، لیکن دہلی کے فساد کے لیے مقدمے کن پر بنے اور گرفتار کون ہوئے، سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے۔صفورہ زرگر، میران حیدر، شفاءالرحمان، شرجیل امام، آصف اقبال تنہا، عمر خالد، نتاشا نارول وغیرہ پر بغاوت سے لے کر فسادات تک کے معاملات درج کیے گئے ہیں۔ کئی کو یو اے پی اے لگا کر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیاگیا ہے، حاملہ صفورہ زرگر بھی اسیر زنداںہے۔ اگر غور سے ساری کرونالوجی پر نظر ڈالی جائے تو یہ سچ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ بھاجپائی لیڈر جو اشتعال انگیزی کر رہے تھے ان کے نشانے پر سی اے اے مظاہرین بالخصوص شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین تھیں، جامعہ اورجے این یو کے سی اے اے مخالف طلباء تھے۔ شاہین باغ گلے کی ہڈی بن گیا تھا۔ اور اب کورونا کے ان دنوں میں ان بھاجپائیوں کے اور ان کے اشارے پر ناچنے والی پولیس کے نشاے پر پھر سی اے اے مخالفین اور شاہین باغ کے احتجاجی ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ یہ احتجاج آئندہ جاری رہ سکے۔ یہ نہیں چاہتے کہ بولنے کی آزادی برقرار رہے اور جمہوری حقوق کی باتیں کرنے والے پھر سرگرم ہوں، لہٰذا آئین کی دھجیاں اڑا کر طالب علموں اور خواتین اور حقوق انسانی کے کارکنان کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ اور جو واقعی گنہگار ہیں انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے ۔

Comments are closed.