Baseerat Online News Portal

انقلاب دہر کی آواز تو بن جائے گا

محمد سیف اللہ رکسول

مبائل: 9939920785

….,……………………………………………………..

وقت گزرتے دیر نہیں لگتی،ملک پچھلے تین ماہ سے جس بھیانک وبا سے جنگ لڑ رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن اسی بیچ اگر آپ موجودہ سیاسی منظر نامے کو غور سے دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ عالمی وبا کرونا کے سبب بھلے ہی بہار اپنی بدحالی کے آخری نشان پر کھڑا ہو اور مہاجر مزدوروں کی گھر واپسی کے بعد ہر دروازے پر فاقہ کشی کی دستک جاری ہو مگر اس کے باوجود اس وقت نہ صرف پوری ریاست اسمبلی انتخابات کے خمار میں ڈوبتی جارہی ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی بہار کی سیاست کا منظر نامہ اتنا پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے جس کی گتھیوں کو سلجھانا شاید سیاسی پنڈتوں کے بھی بس میں نہ ہو ،وقفہ وقفہ سے ہونے والی بارش اور بیتاب کر دینے والی گرمی کے ماحول میں بھی جگہ جگہ بکھرے الیکشنی وعدے ،چونکا دینے والے نعرے اور تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کی دور بھاگ کے ساتھ عوام کو دلائے جا نے والے بھروسے نے ہر کسی کا چین و سکون ابھی سے ہی چھیننا شروع کر دیا ہے،یہ اور بات ہے کہ ابھی الیکشن کی تاریخوں کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے لیکن بہار کے مستقبل کے حوالے سے جگہ جگہ بحث وتبصرے اور تجزیوں کا ایسا دور جاری ہے جس نے بہتوں کے ہوش اڑادئے ہیں اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی بہار کی پل پل بدلتی سیاست کو ہی اپنا اوڑھنا بچھو نا بنا رکھا ہے ،خیر بہار میں جاری اس سیاسی گھمسان کا لازمی نتیجہ کیا ہو گا اور یہاں کی عوام کسے اپنے اعتماد کے قابل سمجھ کر اسے اقتدار کی کنجی سونپے گی یہ تو ابھی تک سوالیہ نشان کے دائرے میں ہے اورایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے دن قریب آئینگے سوالیہ نشان کا یہ دائرہ اور بڑا ہوتا جائے گا ، کیونکہ عام سالوں کے بر خلاف اس بار کا سیاسی منظر نامہ نہ صرف عجیب و غریب اور چونکا دینے والا ہے بلکہ فرقہ پرست تنظیموں نے مسلمانوں کو تقسیم کر کے جس طرح لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کی وجہ سے ہر سنجیدہ طبقہ نہ صرف حیران و پریشان ہے بلکہ حالات کے اشارے صاف طور پر یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اگر یہاں کے مسلمانوں نے اس مرتبہ کے حساس الیکشن میں تھوڑی بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیااور سیاست کے مزاج کو سمجھے بغیر کوئی فیصلہ کر لیا تو اس کے بھیانک نتائج بہار کی مسلمانوں سے امن کے ساتھ جینے اور انہیں آزادی کے ساتھ آگے بڑھنے کا حق چھین لینگے۔کیونکہ قوموں کی تاریخ میں بہت ساری غلطیوں کی تلافی کے لئے جگہ ہوتی ہے مگر ایک سیاسی غلطی قوموں کا مستقبل تاریک بنا دیتی ہے ۔
شاید ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہوئے عالم اسلام کی باوقار علمی شخصیت حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ "اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصد تہجد گزار بنا دیا جائے لیکن اسکے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے انکو واقف نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہو جائے”اس لئے ہمیں موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کی طرح ایک بار پھر اپنی سیاسی بصیرت کو سامنے لانا ہوگا اور حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیاست کی صفوں میں اپنے لئے قابل اطمیان جگہ بنانی ہوگی تاکہ مستقبل میں خود اعتمادی کی بنیادوں پر کامیابی کی عمارت کھڑی کی جاسکے۔
مت بھولئے کہ ہم ایک ایسے ملک کی ایک سو تیس کڑور کی آبادی کا حصہ ہیں جسے اپنی جمہوریت پر فخر اور اپنی فوجی طاقت پر ناز ہے یہ ملک اپنے عدالتی نظام اور مضبوط حکومتی پالیسیوں کے حوالے دے کر عالمی برادری کو اپنی طاقت وعظمت کا احساس دلانے کے لئے بھی ہمیشہ کوشاں رہا ہے،مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کے مسلمانوں کو ابھی بھی اس امریکہ کی عوام سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے جس کے ہم رات دن قصیدے پڑھتے ہیں کیونکہ سپر پاور طاقت کہلانے والے امریکہ کی پولس کے ذریعہ ایک سیاہ فام امریکی شہری کے قتل نے وہاں کی پوری عوام کو جس طرح حکومت اور پولس محکمہ کے ظلم کے خلاف سڑکوں پر لاکھڑا کیااور جس طرح وہاں کی عوام نے اس قتل کے خلاف ایک آواز ہوکر حکومت کو اس کی اوقات دلاتے ہوئے اپنے حقوق کی بقاء کے لئے اپنی طاقت کا احساس کرایا ہے وہ یہاں کے مسلمانوں کے لئے ایک پیغام ہے جو اپنے ملک میں سینکڑوں بے گناہوں کا قتل دیکھ کر بھی خاموش تماشائی کا رول ادا کرتی رہے ہیں، ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی بڑی جمہوریت ہے جہاں عوامی حقوق اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے  آئین میں یقین دہانیاں موجود ہیں لیکن ان سب کے باوجود یہاں کی عوام پر آئے دن جو ظلم ہوتے رہے ہیں اور جس طرح یہاں کی پولس اپنے ظالمانہ کردار سے بے گناہوں کا خون کرتی رہی ہے اسے میں یہاں کے جمہوری نظام کے سامنے ایک سوالیہ نشان تو مانتا ہی ہوں.لیکن ان سب معاملوں میں یہاں کے مسلمانوں کی بے حسی کو بھی نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھا جا سکتا کیونکہ ہم وہی ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کا قتل ہوتا دیکھا،جن کی آنکھوں کے سامنے نہ جانے کتنے نوجوانوں کی لینچنگ کر دی گئی،جن کی آنکھوں کے سامنے بے گناہوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا رہا،جن کی آنکھوں کے سامنے عدالت میں انصاف کا خون ہوتا رہا،جن کی آنکھوں کے ساتھ پولس کے ظالمانہ کردار کی گھناونی تصویریں سامنے آتی رہیں،جن کی آنکھوں کے سامنے عورتوں کی عزت وعفت کے سودے ہوتے رہے،جن کی آنکھوں کے سامنے بھوک سے بچے دم توڑتے رہے، جن کی آنکھوں کے سامنے مذہب کے نام پر کھلے عام حیوانیت کا کھیل رچا جاتا رہا،جن کی آنکھوں کے سامنے حکومت کے سیاسی مفادات کے لئے غریبوں مزدوروں اور بے سہارا لوگوں کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر دیا،جن کی آنکھوں کے سامنے بے رحم ڈاکٹروں کے ذریعہ معصوموں کا گلا دبا دیا جاتا رہا،جن کی آنکھوں کے سامنے میڈیا سماج میں زہر پھیلاتا رہا،جن کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کے مذہبی اداروں اور عظیم شخصیات کے کردار کو نشانہ بنایا گیا،جن کی آنکھوں کے سامنے کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی،جن کی آنکھوں کے سامنے معصوم صفورا کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر بے گناہی کی سزا کاٹنے پر مجبور کیا گیا،مگر ان سب کے باوجود بے حسی کا یہ عالم رہا کہ ہماری پیشانیوں پر شکن تک نہیں آیا،نوٹ بندی نے سینکڑوں لوگوں کی جان لی مگر کسی کے منہ سے آہ تک نہیں نکلی،لاک ڈاون میں بھوک سے سڑکوں پر ریلوے پٹری پر،ریل کے ڈبے میں، ریلوے اسٹیشن پر، اور سڑک حادثےمیں سینکڑوں لوگوں نے دم توڑے مگر انہوں نے اپنی چپی توڑتے ہوئے حکومت سے ان کے کئے کا حساب نہیں مانگا، بلکہ ایک غلام کے طور پر سارے حالات کا تماشائی بن کر نظارہ کرتے رہے،حالانکہ ایسے وقت میں ہمیں امریکہ سے سبق سیکھنا چاہئے تھا جہاں ایک قتل نے حکومت کی چولیں ہلادیں اور سپر پاور طاقت کے صدر کو روپوش ہوکر عوام سے رحم کی بھیک مانگنی پڑی،نہ تو اس قتل کے خلاف فوج نے حکومت کی دلالی کی،نہ عدالت نے جی حضوری سے کام لیا اور نہ وہاں کا میڈیا حکومت کی زبان بولتا رہا بلکہ ہر طبقے نے سڑکوں پر اتر کر اپنی ناراضگی درج کرائی، اگر ہم نے بھی آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے یہی رویہ اپنایا ہوتا اور حکومت کے ہر غلط قدم کو جائز ٹھہرانے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف ایکشن لیا ہوتا تو آج ملک میں مسلمانوں کی تصویر ہی کچھ اور ہوتی نہ کوئی بھوکا مارا جارہا ہوتا اور نہ طاقت کے غرور میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا تے اور نہ ہی انسانیت کا خون کرکے تالیاں پیٹی جا رہی ہوتیں۔
یاد رکھئے حالات کے اشاروں کو سمجھ کر اس کے مطابق اٹھائے گئے قدم ہمیشہ کسی نہ کسی خوش آئند مستقبل کی علامت ثابت ہو تے ہیں ،اس لئے اب یہاں کے مسلمانوں کو بہت ہی سوجھ بوجھ اور ذمہ داری کے ساتھ فیصلے لینے کے لئے تیار رہنا ہوگا ،اور انہیں سوچنا ہوگا کے اسمبلی انتخابات محض اقتدار کی تجدید یا منتقلی کے لئے منعقد نہیں ہوتے بلکہ انتخابات کسی بھی ریاست کی آئندہ پانچ سالہ زندگی کا انقلابی موڑ ہوتے ہیں،ایسی صورت حال میں اگر ہوش مندی سے کام لے کر پوری ایمانداری کے ساتھ ریاست کی تقدیر کے فیصلے کے لئے قدم نہ بڑھائے گئے تو کوئی بعید نیں کہ بہار دیکھتے دیکھتے اپنی وہ حیثیت کھو دیگا جس کے لئے وہ ان دنوں عالمی سطح پر متعارف ہے ،میں یہاں کے مسلمانوں کو مبارکباد پیش کر تاہوں کہ انہوں نے ابھی تک اپنے سیکولر مزاج پر کسی اور ذہنیت کو حاوی ہونے نہیں دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسے سیاسی منظر نامے میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہی بڑھتی ہو ئی محسوس ہو رہی ہے ،کیونکہ شاید بہت کم لوگ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ بہار وہ ریاست ہے جہاں کی دو تہائی سیٹیں مسلمانوں کے رحم و کرم کے بغیر نہیں جیتی جا سکتیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ تمام ہی پارٹیاں مسلمانوں کے سامنے بھیک کا کٹورا لے کر نہ صرف کھڑی ہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان سے ایسے وعدے کئے جارہے ہیں اور انہیں وہ خواب دکھائے جارہے ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ،اور اس طرز عمل میں وہ سیاسی جماعتیں بھی شریک ہیں جن کا مسلمانوں کے مفادات اور ان کے خوش آئند مستقبل سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی زندگی کا مقصد ہی مسلم قوم کی تباہی و بر بادی کے لئے تانے بانے تیار کر نا ہے ،اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی مسلمان اپنی کانیں بند کر کے ان کے اشاروں پر ناچتا رہے گا ،کیا وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم قوم سیاسی رہنماوں سے ان کے اب تک کے کئے کا حساب مانگ سکے ،اور ان سے تال ٹھوک کر کہ سکے کہ اب مسلمان صرف ان وعدوں کے سہارے جینے کا حق نہیں رکھتا بلکہ وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی عمارت تیار کر نا چا ہِتا ہے ،کیون کہ اس ملک کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں نے جو قر بانیاں دی ہیں اور اس کی آبرو کو بچانے کا جو فرض نبھایا ہے اسے تاریخ کا کوئی بھی باب فراموش نہیں کر سکتا ،اسلئے اب مسلمانوں کو اپنا سیاسی شعور بیدار کرتے ہوئے ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مسلمان کسی بھی پارٹی کا بندھوا غلام نہیں ہے کہ جب اور جس طرح چاہے انہیں نچادیا جائے ،بلکہ اس کی خودداری آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح کل تھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی کھنکتے سکوں کی پو جا کرکے اپنے کردار کو داغدار نہیں بنا یا ،لہذا ایسی صورت حال میں محض جھوٹے وعدوں کے سہارے مسلمانوں کو بہلا کر خاموش تماشائی بنا دینے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے ،ورنہ اس کے ایسے بھیانک نتائج سامنے آئینگے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یقین کیجئے اگر ہم نے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور مایوسی کی چادر اوڑھ کر خود کو بے بس بنا لینے کی بجائے زمانے کا رخ بدلنے کا عہد کر لیا اور اپنے ماضی سے سبق لے کے مستقبل کی طرف قدم بڑھانے کے لئے ہم تیار ہو گئے تو ملک میں نہ صرف ایک خوشگوار تبدیلی آئے گا بلکہ ہر طرف ایک قابل رشک انقلاب کی آہٹ سنائی دے گی۔

Comments are closed.