Baseerat Online News Portal

اگر کتابیں نہ ھوتیں…

محمد شہاب الدین قاسمی
دارالقلم۔ ھزاری باغ ۔ جھارکھنڈ

جب کسی عہد کے لوگوں نے اپنی انگلیوں میں قلم کوتھاما،اس زمانے کی نظریات حروف کے تابع ہوئے، کتب خانوں کی الماریاں کتابوں سے اور اس وقت کے شہر کتب خانوں سے بھرگئے، تو اس دور کی حکومتوں اور تہذیبوں کو ہرمحاذ پر کامیابی سے کوئی بھی طاقت نہ روک پائی۔
کتابوں کے پڑھنے سے انسان ہمیشہ تاریخ کے کردارمیں رہتاہے، ماضی سے واقفیت اور مستقبل کی توقعات اور اقدامات سے باخبررہتاہے، مطالعہ سے روح اور ارادوں کو قوت اور بالیدگی ملتی ہے،اچھی کتابوں کے مطالعہ کے عادی لوگ سرچشمۂ معلومات اور قوم وملت کے لئے بہترین اثاثہ ہوتے ہیں، کتابیں انسانوں کے لئے نہ صرف بہترین دوست اور ہم نشیں ہوتی ہیں بلکہ جلوت وخلوت، آسانی وتنگی اور سفروحضر کے ساتھی بھی۔
مطالعہ کا شغف رکھنے والے کتابوں کے ذریعہ اقوام عالم کے احوال، قوموں کے عروج وزوال اور تغیرات زمانہ سے اس طرح باخبر رہتے ہیں، گویاان کی نظروں کے سامنے تاریخ کے عملی کردار وقوع پذیر ہوئے ہوں، یا ان جگہوں تک، جن کو قاری نے کتابوں کے مختلف صفحات میں پڑھاہے، بچشمِ خود ان کا معائنہ کیا ہے،جب کہ جو لوگ مطالعہ نہیں کرتے ہیں وہ اس جزم ویقین کی کیفیت سے محروم رہتے ہیں۔
ترقی یافتہ قوموں بالخصوص اسلام میں مطالعہ اور پڑھنے،لکھنے کی غیر معمولی اہمیت ہے، دینی اور تہذیبی ارتقاء کے لئے کتابوں کو نمایاں مقام حاصل رہاہے، چنانچہ بدر کے موقع پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین قیدیوں کی رہائی کے لئے بطور اجرت دس مسلمان بچوں کو پڑھانا، لکھاناقراردینااس کی بہترین مثال ہے, نیز اقرأ باسم ربک الذی خلق کے ذریعہ اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت سے سرفراز فرمانے کے بعد پڑھنے،لکھنے کو اشاعت اسلام کے لئے بنیادی کردارقرارد یا،یہی وجہ ہے کہ متعدد جگہ اللہ نے قرآن کریم میں لفظ ”کتاب“ کا ذکر فرمایا، اور احادیث شریفہ میں بھی کتاب کا ذکر مختلف اسلوب میں ملتا ھے،چنانچہ طبرانی میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”قیدوالعلم بالکتاب“یعنی کتابوں کے ذریعہ علم کی حفاظت کرو۔دوسری صدی ھجری ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ حضرت امام مالک بن انسؒ کی مؤطا منظر عام پر آگئی،اس کے بعد ہر فن اور موضوع میں کتابیں شائع ہونے لگیں، یہاں تک کہ اس وقت آپس میں ایک دوسرے کو کتابیں ہدیہ میں دینا، بہترین اور قیمتی ہدیہ سمجھاجانے لگا اور کتابوں کو حاصل کرنے اور اسے جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے۔
عربوں اور مسلمانوں نے اپنے دورِ ترقی میں اس حقیقت کا ادراک کرلیاتھا کہ کتابیں انسانیت کے ارتقاء کے لئے سرچشمہ ہیں اور سالوں سال سے انسانی زندگی کے تجربات اور اس کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑ اذریعہ ہیں، لہٰذا علماء اور محققین کے ساتھ عام لوگوں کی بھی توجہ کتابوں کی طرف مرتکزہوتی گئی، یہاں تک کہ بعض مصنفین اور محققین نے اس زمانے کی ادبی،علمی اور تحقیقی کتابوں کا انڈیکس اورفہرست جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا،تاکہ استفادہ کی راہیں عام ہوسکیں، اس سلسلے میں سب سے پہلے تیسری صدی ھجری کے مؤرخ،سیرت نگار اور عربی زبان وادب کے امام محمدبن اسحاق الندیم متوفی380ھ کی کتاب ”کتاب الفہرست “ منظر عام پر آئی، جس میں انہوں نے اپنے زمانے تک کی مختلف علوم وفنون کی کتابوں اور مقالات کا تعارف پیش کیاہے، وہ بجائے خود ایک شہرۂ آفاق کتاب ہے جو عربی، یونانی، سریانی اور دیگر زبانوں سے عربی میں منتقل ہونے والی سیکڑوں کتابوں کے لئے ذخیرۂ معلومات ہے،جس میں کم وبیش آٹھ ہزار تین سو کتابوں کا ذکرہے، تاآں کہ عباسی دورِ حکومت میں مختلف علوم وفنون میں کتابوں کی تصنیف وتالیف اور ترجمہ کا کام وسیع پیمانے پر جاری رہااور اسلامی مملکت کے لئے کتابیں، لائبریریاں اور مطالعہ گاہیں حکومتی نظامِ کار میں ضروری قراردیدی گئیں۔
علوم وآداب اور علمی آثاروروایات کا جس قدر ذخیرہ خواہ وہ مادی ہوں، جیسے کتابیں یا معنوی ہوں، مثلاً اسلاف کی رہنمایانہ آراء اور ترقی یافتہ قوموں کے آثار،عرب مسلمانوں نے اپنی نسلوں کے لئے چھوڑا ہے، اس سے پہلے نہ کسی قوم نے اور ان کے بعد نہ کسی جماعت نے چھوڑاہے۔ بے شمار کتابیں،لغات،موسوعات جو ہزارہا ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں ان کے نوکِ قلم سے نکل کر امت مسلمہ اور کسی بھی ترقی یافتہ ملکوں کے لئے مشعل راہ بنی ہوئی ہیں، نثر وشعرمیں کسی بھی عنوان پر لکھتے ہوئے ان کا نوکِ قلم کاغذِ اور ورق پر اس طرح جھومتاتھا جس طرح ایک موسیقار کی انگلی آلۂ موسیقی پر جھومتااور رقص کرتاہے۔جس کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی لائبریری خواہ وہ کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو ان امہات الکتب سے وہ بے نیاز نہیں ہے۔
چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے اندلس کے بڑے مصنف، امام، فقیہ ابومحمد بن حزم متوفی 456ھ فرمایا کرتے تھے کہ ”اگر کتابیں نہ ہوتیں تو علوم ضائع ہوجاتے، جو لوگ کہتے ہیں کہ کتابیں بہت ہوگئی ہیں، یہ ایک بڑی غلطی ہے، اگر ان کی رائے مان لی جاتی اور کتابوں کے لکھنے کا سلسلہ بند ہوجاتا تو علوم تلف ہوجاتے اور جہلا دنیا کو کشمکش میں ڈال دیتے اور وہ اپنی مرضی پر کسی بھی چیز کا دعویٰ کردیتے، اگر کتابوں کی شہادت نہ ہوتی تو عالم وجاہل کے دعوے برابرھوجاتے”
ساتویں اور آٹھوریں صدی ھجری کے بڑے فقیہ،محدث، مفسر اور مصنف ابن قیم متوفی 751ھ فرماتے ہیں ”میں اپنے ہمعصر رفقاء کو ذاتی طورپر جانتاہوں جن کو کوئی بیماری یا مرض پڑھنے سے مانع نہ ہوتی، ساتویں صدی ہجری کے عراق کے مشہور فقیہ حسن بن زیاد لؤلوی متوفی 814ھ کا معمول تھا کہ دن رات پڑھتے رہتے، چالیس سال تک قیلولہ اور رات سوتے ہوئے، یا کسی بھی وقت ٹیک اور سہارالیتے ہوئے ان کے سینے سے کتاب الگ نہیں ہوئی۔
تیسری صدی ہجری اورعباسی دورِ حکومت میں علوم بلاغت اور نحوونقدکے امام ابوالعباس المبرد متوفی 286ھ کہتے ہیں ”میں نے تین آدمیوں سے زیادہ کسی کو علم کا حریص نہیں دیکھا، جاحظ، فتح بن خاقان اور اسماعیل بن اسحق القاضی، جاحظ الکتانی بصری متوفی 255ھ عباسی دور حکومت کے مشہور ائمۂ ادب عربی کے ہاتھ میں کوئی بھی کتاب آجاتی تو اسے اول سے آخرتک پڑھ کر ہی چھوڑتے، خواہ وہ کسی بھی موضوع اور ضخامت کی ہوتی، یہاں تک کہ کاتب اور کاغذفروخت کرنے والے دکان کو کرایہ دیکر رات وہاں مطالعہ کے لئے گذارتے، وہ کتابوں اور مکتبات کی محبت میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے، انہوں نے کتاب کی ایسی تعریف کی کہ اس سے پہلے کسی نے ایسی تعریف نہیں کی اور نہ ان کے بعد۔ان کے مطالعہ اور پڑھنے کا یہ عالم تھا کہ کہ ان کی موت بھی ان پر ان کی کتابوں کے گرجانے کی وجہ سے ہوئی۔ فتح بن خاقان متوفی 528ھ اشبیلہ سے تعلق رکھنے والے بڑے مصنف اور مؤرخ تھے، کثرت سے اسفار کرنے والے تھے وہ کتاب کو اپنی کشادہ آستین میں رکھتے تھے خلیفہ متوکل جب کسی کام سے مجلس سے اٹھتے تو وہ اپنی آستین سے کتاب نکال کر پڑھنا شروع کردیتے، اپنی مجلس سے نماز یا کسی کام کیلئے جاتے تو کتاب نکال کر چلتے چلتے پڑھتے اور اسی طرح مجلس میں واپس آتے۔ اسماعیل بن اسحق القاضی متوفی282ھ قاضی بغداد اور مشہورامام حدیث کے پاس میں جب بھی جاتا، یاتو وہ پڑھ رہے ہوتے یا کسی کتاب کی تلاش میں سر گرداں رہتے۔ مشہور محدث سلیمان بن اشعت السجستانی متوفی 275ھ ،جوابوداؤد کے نام سے مشہورہیں،ان کے بارے میں آتاہے کہ وہ دو آستین رکھتے تھے، ایک تنگ،دوسری کشادہ، ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا!کشادہ آستین کتابوں کے لئے ھےاور دوسری کی مجھے ضرورت نہیں پڑتی۔اسی طرح مشہور تابعی عبد اللہ بن عبدالعزیزبن عبداللہ بن عبداللہ بن عمرالخطاب متوفی 184ھ مشہورامام حدیث وحجت ہیں، امام بخاری اور مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے، ان کے بارے میں آتاہے کہ اکثر وہ مقبروں میں جاکر کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا!کہ قبرسے زیادہ نصیحت حاصل کرنے والی جگہ کوئی اور نہیں، اور اس سے بہترین تنہائی کہیں نہیں، اور کتاب سے بہترکوئی دوست نہیں۔
ابونصر المیکالی متوفی 436ھ عباسی دورِ حکومت کے مشہور شاعروادیب اور ابن درید متوفی 321ھ جو بڑے عالم،شاعر اور عربی زبان وادب کے نامور فاضل تھے، ان کے بارے میں کہاجاتاتھا! علماء میں سب سے بڑے شاعر اور شعراء میں سب سے بڑے عالم تھے ۔ان دونوں کے درمیان تفریحی مقامات کے سلسلے میں تبادلۂ خیال ہوا،بعض نے کہاکہ تفریح کے لئے بہترین جگہ غوطۂ دمشق ہے، بعض نے کہاصُغدِ سمر قند ہے، ایک نے کہا نہر اوان بغداد ہے،کسی نے کہا شعب بوان ہے۔
غوطۂ دمشق،شام میں ایک خوبصورت وادی ہے، جس کے چاروں طرف پانی اور خوبصورت مناظر ہیں۔صُغدِ سمرقند،سمرقند میں ایک سبز اور خوبصورت مقام کا نام ہے۔نہراوان بغداد یہ دجلہ اور فرات کے درمیان ایک پُرفضاجگہ ہے اور شعب بوان کو دنیا میں جنت کا ٹکڑا کہا جاتاہے، جہاں چاروں طرف سبز وادیاں ہیں، جوسرزمین فارس کا حصہ ہے، معاجم البلدان میں کہاگیا ہے! دنیا کی چارجنت ہے، صُغد سمرقند، غوطۂ دمشق، شعب بوان، نہرالا ُبلہ، یہ چار مقامات دنیاکی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار کئے جاتے ہیں،کسی نے کہا نہرالا ُبلہ ھمزہ اورباء کے ضمہ کے ساتھ ، عراق میں ایک شہر ہے، اس کے اور بصرہ کے درمیان چارمیل کی دوری ہے، اسی کے شمال میں نہر واقع ہے اور مغربی جانب دجلہ ہے، یہ چھوٹی سی جگہ انتہائی خوبصورت اور ان کے چاروں طرف بڑی بڑی عمارتیں اور حسین باغات ہیں، جہاں لوگ جانے اور آباد ہونے کا بہت زیادہ شوق رکھتے ہیں۔ابوعبداللہ حمیری کی کتاب”الروض المعطار فی خبرالأقطار”میں ابن سیرین کے قول کے مطابق اسی جگہ سے حضرت موسیٰ اورحضرت خضرعلیہماالسلام کا گذرہواہے اورانہوں نے اسی بستی کے لوگوں سے کھانا مانگااوران لوگوں نےان کی ضیافت سے انکار کردیا،ابلہ کے لوگ طبعی طور پرسخاوت سے دوراور انتہائی بخیل ھیں، حضرت عمرؓ نے نہرالا ُبلہ کے کھدوانے کا حکم دیاتھا، ابلہ ایک قدیم آباد شہر ہے جس کو عتبہ بن غزوان نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح کیا تھا۔ کسی نے نوبہار بلخ کا ذکر کیا، جوافغانستان کا چھوٹا ساشہرھے ۔ سب کےجوابات سن کر ابن درید نے کہا! یہ تو آنکھوں کے لئے تفریح کی جگہیں ہیں، دلوں کی تفریح گاھوں کے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟ ابونصر میکالی نے ابن دریدسے پوچھاوہ کیاہیں؟ابن درید نے جواب دیا،ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، ابن داؤد کی زہرہ اور ابن ابی طاہر کی قلق المشتاق۔
یعنی ابومحمدعبداللہ بن مسلم بن قتیبہ الدینوری متوفی276ھ جو دوسری صدی ھجری اور عباسی دور خلافت کے بڑے ادیب،فقیہ،محدث اور مؤرخ تھے، فارس کے رہنے والے تھے،ان کی معرکۃ الآراء تصنیف عیون الاخبار جو اہل ادب کے لئے انمول خزانہ ہے، اور اس زمانے کے کبار اہل علم ابن قتیبہ کی کتاب پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے، عیون الاخبار میں قدیم قیمتی آداب اور فوائد ہیں، اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا بہت سارے منافع کو اپنے دامن میں سمیٹتاہے، اس میں مصنف نے بیک وقت معاشرت، آداب، اخلاق، بادشاہت، مناصب،سفر،علم واہل علم،جنگ،غصہ ،بردباری،جمال جیسے متنوع عنوانات پر اچھوتا کلام کیاہے، جن کے ہر سطرکو پڑھتے ہوئے قاری وجدوطرب میں ڈوب جاتاہے اوراس کے پڑھنے کے دوران حیرت انگیز معلومات کو اکٹھا کرنے میں دنیا وما فیہا سے بے خبر ہوجاتاہے، اس کتاب کے مطالعہ سے حاصل ہونے والاوجدوسرور، تفریح گاہوں سے حاصل ہونے والی خوشی سے سواہے۔ابن قتیبہ نے علم حدیث اسحق بن راہویہ سے حاصل کیا، اور لغت،نحو،قرآن کریم ابوحاتم السجستانی اور ابوالفضل الریاشی سے، اور شعرولغت عربیہ کے سلسلے میں ان کی اصمعی سے کثرت سے روایات ہیں۔ اسی طرح ابوبکر محمدبن داؤد الاصفہانی الظاہری متوفی 297ھ بڑے عالم حدیث، ادیب، شاعر، اور فقیہ کی شہرتِ یافتہ تصنیف زھرہ جو آداب وشعر کے موضوع پر لکھی گئی ہے، نیز ابن ابی ظاہر کی قلق المشتاق۔ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے مطالعہ سے جو سکون ملتاہے وہ مذکورہ دنیاکی مشہور تفریح گاہوں میں جانے سے زیادہ ہے، یعنی کتابوں اور مطالعہ کے عشاق کے لئے یہ جنت ارضی اور حسین وادیاں اس کے قلب وجگر اور دل ودماغ کووہ سکون فراہم نہیں کرسکتیں، جس قدر مشائخ وعلماء کی قیمتی اور نادرونایاب تصانیف کے مطالعہ سے ان کی خوشی ومسرت میں حرارت پیداہوسکتی ھے۔آج جو قومیں ائیرپورٹ،اسٹیشنوں،تفریح گاہوں، باغات،ہوٹلوں اور پارک میں کتب بینی میں منہمک نظرآتی ہیں اورانہیں یہ پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ ان کے آگے پیچھے کیا ہورہاہے، وہ بالکل بے خبرمطالعہ میں مصروف ہیں ، دراصل وہ اسلامی عروج وترقی اوراس دورکے انہماک مطالعہ کے دھندلے نقوش وآثار ہیں،جو مسلمانوں نے اپنے دورِ ترقی میں اپنی تہذیب وروایات کا لازمہ بنارکھاتھا، اُن ادوار میں مسلمانوں کو کتابو ں اور پڑھنے کا کس قدر شوق اور جنون تھا اسے تاریخ کے روشن صفحات میں دیکھا جاسکتاہے۔
پھولوں کے باغات اور اس کے دلکش مناظر سے بلاشبہ آنکھیں لطف اندوز ہوتی ہیں لیکن کتابوں سے عقل میں جلاء،ذہن ودماغ میں قوت اور قلب وجگر میں زندگی پیداہوتی ہے، غموں سے نجات اور طبیعت وروح کو پاکیزگی ملتی ہے، کتابیں انسان کو روشن راہیں فراہم کرتی ہیں، خلوت ووحشت میں مونس غم گسار اور ہونٹوں میں پرسکون مسکراہٹ بکھیرتی ہیں،اپنے مصاحب کو نادر ونایاب موتیوں سے مالامال کرتی ہیں، کتابیں مفید ہوتی ہیں،مستفیدنہیں، عطاکرتی ہیں، کچھ لیتی نہیں، باربارقاری کو حقیقی لذت ومسرت سے آشنا کرتی ہیں، وہ کبھی ملول نہیں کرتیں اور نہ ہی مشقت میں ڈالتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بغداد،قاہرہ اور قرطبہ کے حکمراں کتابوں کو جمع کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے پر فخر کرتے، ایک روز رشید، مامون کے پاس آئے، تو دیکھا کہ مامون ایک کتاب پڑھ رہے ہیں، رشید نے پوچھایہ کیا ہے؟ مامون نے جواب دیا!کتاب، جوفکرکو قوت اور معاشرت کو بہتر کرتی ہے، یہ سن کر رشیدنے اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے کہا!اللہ نے مجھے ایسی نعمت عطاکی ہے جسکے جسم کی آنکھوں سے زیادہ قلب کی آنکھیں دیکھتی ھیں۔
اندلس کے خلیفہ مستنصرکتابوں کے بڑے عشاق میں تھے،اپنے مصاحبین کو نئی اورنادرونایاب کتابوں کو خریدنے کے لئے دیارِ مشرق بھیجتے تھے امام ذہبی نے لکھاہے کہ خلیفہ مستنصر صاحب ِاخلاق ومروت اور نفیس طبیعت کے مالک تھے اور مطالعہ کے بہت شوقین تھے، اس لئے نفیس کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے،کتابوں کے حصول کے لئے کم وبیش انہوں نے نے مختلف دیار میں دو ہزاراسفار کئے، اور خرید اری کتب میں بے دریغ مال وزر صرف کئے، کتابوں سے بڑھ کر ان کا کوئی مشغلہ نہیں تھا، اور نہ ہی انہیں اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں لطف ملتاتھا۔
یہ وہ دور تھا جب اسلامی مملکتوں کی توسیع کے ساتھ کتابوں اورکتب خانوں کی کثرت ہوئی، علماء ومشائخ کے ساتھ عام لوگ بھی کتابوں اور مطالعہ کے شوقین ہونے لگے، تمام طبقات اور رنگ ونسل،بادشاہ، مورخ، عالم،قاضی، وزیرسے لے کر کوئلہ کے تاجر تک اپنے گھروں کو کتابوں سے مزین کرنے لگے، چنانچہ جرمنی کے مشہورمستشرق آدم متزنے سوئیزرلینڈ میں ”اسلامی تہذیب چوتھی صدی ہجری میں“کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھاہے:
”ہر اسلامی یونیورسٹی میں ایک مکتبہ ہوتاتھا، اس دور میں عام مسلمان اپنی طرف سے جامعات کو کتابیں وقف کرتے تھے اور حکمراں کتابوں کو وقف کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے،چنانچہ مصر،قرطبہ اور بغدادکے بادشاہ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں کتابوں کے غیر معمولی حریص ثابت ہوئے“
اسی طرح جرمنی کی مشہور مستشرقہ ”زیغرید ہونکہ“ نے اپنی کتاب ”شمس الاسلام تسطع علی الغرب“جو1960ء میں گیارہ زبانوں میں شائع ہوئی،یہ کتاب ان کے لئے کھلی چیلنج ہے جو اسلام کے صاف وشفاف چہرے کو داغدارکرنے میں ہر مکروفریب کا سہارالیتے ہیں۔زیغرید ہونکہ مغرب اور یورپ میں اسلام کی طرف سے دفاع کرنے والی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پوری جرأت وبے باکی کے ساتھ عرب اور اسلامی تہذیب وتمدن کو ان کے سامنے پیش کیاہے، اسی وجہ سے ان کے لئے اسلامی دنیا میں قدرومنزلت اور گہری عقیدت واحترام ہے،چھیاسی سال کی عمرمیں 1999ء میں وفات پانے والی زیغریدہونکہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں:
”عربوں نے کتابوں کی ذخیرہ اندوزی میں جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے وہ فقیدالمثال ہے، آ ج ہم جس طرح عمدہ اور مہنگی گاڑیوں، جدید الیکٹرونکس سازوسامان کے لئے اپنی دولت کو بے دریغ خرچ کرتے ہیں،نویں صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک انہوں نے پوری قوت کتابوں اور مخطوطات کی خریداری میں صرف کی۔اس زمانہ میں ہر گھر کتابوں سے اس طرح آباد اور بھر گئے تھے جس طرح ایک زرخیز زمین میں مختلف النوع پودے اُگ کر لہلہارہے ہوں،ہر سطح پر ہر پیشہ کے لوگ بقدر استطاعت اپنے گھروں میں کتابیں رکھنا،بہترین متمدن ہونے کے لئے ضروری سمجھتے تھے،ممکن نہیں تھاکہ اس وقت پڑھنے اور مطالعہ کے لئے مشترکہ طورپر کوئی جگہ متعین نہ کرلی جاتی ہو اور صبح وشام وہاں بیٹھ کر مختلف علوم وفنون کی کتابیں وہاں نہ پڑھتے ہوں اور آپس میں مباحثہ ومذاکرہ نہ کرتے ہوں،عرب مسلمانوں کی کتابوں کے تئیں محبت،دلچسپی اور مجنونانہ انہماک کی مثال مجھے کسی اور کلچر اور تہذیب میں نظرنہیں آتی“۔
بہت دو ر نہیں،ماضی قریب میں ہمارے اکابرنے بھی اپنی تصنیف وتالیف،فکر وآگہی اورعلوم وفنون کے جواہرپارے دنیاکو دیئے ہیں، ہمیں ان کی حیات وخدمات کو پڑھنا چاہئے تاکہ ہمارے اندربھی ذوق مطالعہ پیداہو،اس لئے کہ اگر کتابیں نہ ہوں تو انسانوں کے قلوب مردہ ہوجائیں ،اورمردہ دلی سے بڑا مرض کچھ اور نہیں۔۔۔
[email protected]
Mob:7004283092

*مآخذ ومراجع*
سیر أعلام النبلاء/امامذھبی ،ج11,ص527,ج13ص297,ج20ص297۔معجم البلدان/یاقوت الحموی ج1ص76-77.تاریخ الأمم والملوک/محمد بن جریر طبری ج3ص 594,597۔معجم الشعراء/مرزبانی۔تاریخ بغداد/خطیبِ بغدادی ج12 ص417۔کتاب الفہرست/محمد بن اسحاق۔وفیات الأعیان/ابن خلکان ج4 ص74۔ألأمکنۃ والمیاہ والجبال/زمخشری۔آثارالبلادوأخبارالعباد/قزوینی ج1ص286۔رحلۃابن بطوطہ ج1ص144۔الروض المعطار فی خبر الأقطار ۔الحضارۃ الإسلامية فى القرن الرابع الهجري/آدم مٹز۔شمس الإسلام تسطع على الغرب/زیغرید ھونکہ۔

Comments are closed.