لداخ کی صورتحال کے کشمیرپر دوررس اثرات

عبدالرافع رسول
دشمنی کی تخم ریزی سے سوائے تباہی کے کچھ نہیں نکلتا۔بنیادی طورپرسلسلہ قراقرم میں گھرالداخ ایک سردریگستان ہے یہاں لق ودق صحرائی درے،آسمانوں سے باتیں کرنے والے سنگلاخ پہاڑہیں اوران خشک فلک بوس پہاڑوں پرسال بھریخ بستہ ہوائوں کاراج رہتاہے۔ ان پہاڑوں پرتعینات بھارتی فوجیوں کی چاہت ہوتی ہے کہ کسی طرح انہیں یہاں سے چھٹی اورگلو خلاصی مل سکے۔ آج یہی لداخ شہ سرخیوں میں ہے۔اس علاقے میں چین اوربھارتی افواج کے بابین،ہاتھاپائی دھکم پیل،مارکٹائی ،ٹھڈوں ،مکواور گھونسوں کے ذریعے ناچاقیوں ، رقابتوں اور نفرتوں کااظہارہواکرتاتھالیکن 5اگست 2019کوجب بھارت نے ریاست جموںو کشمیر کی متنازعہ اورحل طلب حیثیت کی کھلم کھلا دھجیاں اڑا کرخطے میںاپنی سیاہ تاریخ میں ایک اورتاریک باب کااضافہ کرکے بشمال لداخ پورے متنازع خطے کو دہلی کے زیرانتظام علاقہ قراردیاتوپاکستان کے ساتھ ساتھ چین نے اس فیصلے کوسختی سے مستردکردیا۔بھارت کے اس فیصلے سے خطے پرجواثرات مرتب ہونے جارہے ہیں اسے بھانپ کرچین کا پیمانہ صبر لبریزہوا ۔اس کی فوج نے لداخ کی طرف پیش قدمی کی جس سے علاقے میںپیداشدہ جنگی اور دھماکہ خیز صورت حال نے عسکری طورپر خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے بھارت کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے۔
چین نے ا سٹریٹجی وضع کرکے اپریل 2020کے اواخرپرلداخ کی طرف پیش قدمی کرکے لداخ میںمربع پچاس کلومیٹر پرقبضہ جماچکاہے۔چین کے فوجیوں نے اس علاقے میں جہاں ڈیرہ ڈال رکھا ہے ان میں سے کئی ایسے مقامات اورپوزیشنیںہیں کہ جوسطح سمندرسے 14سے 18ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں ۔چین نے لداخ کی وادی گلوان میں خم ٹھونک کرنہایت بلندآہنگی کے ساتھ اپناتازہ قبضہ برقرار رکھا ہواہے اوراڑھائی سوکلومیٹرسے زیادہ طویل فوجی اوردفاعی اہمیت کی حامل اس سڑک کومکمل بلاک کردیاہے جوبھارت نے ہماچل پردیش سے اس علاقے تک پہنچادی ہے یہ صورتحال عین غین کرگل والی صورتحال ہے کہ جب افواج پاکستان نے جنگ کرگل کے دوران بھارتی کی فوجی اوردفاعی اہمیت کی روڈکوگرگل میں بلاک کرکے لداخ کی طرف جانے والی بھارتی رسد وکمک کی ترسیل کوکاٹ ڈالاتھااورلداخ میں موجودبھارتی فوجیوں کی رگ جان دبوچ لی تھی۔
صورتحال یونہی دھماکہ خیزبنی ہوئی تھی اورچین کے مقابلے میں بھارت فوج ساکت وصامت حالات کانظارہ کررہی تھی لیکن 15اور16جون 2020سومواراورمنگل کی شب کو چینی فوج نے وادی گلوان کے قریب بھارتی فوج پرہلہ بول دیااور بھارتی فوج کے ایک کمانڈنگ آفیسر کرنل سنتوش بابو سمیت20اہلکار ہلاک کردیئے تواس کے بعد ہی مودی کامیڈیاجو چین کی صورتحال پراس طرح خاموش تھاکہ جیسے اسی سانپ سونگ گیاتھا۔خطے میں مودی کے پھیلائے گئے جنگی جنون، آزار یت ، فرسٹیشن اوراسکی تخریبی ذہنیت پرماتم کرنے کے بجائے جزع وفزع اورواویلاکرنے لگااورچیخ اٹھاکہ علاقے میں چین ایک عفریت کے طورپرچھنگاڑ رہاہے۔اس واقعے کے بعد بھارت کے تمام سابق فوجی افسراوردفاعی تجزیہ کارٹی وی چینلوں پرآکرگھٹنے ٹیک دیئے اوروہ روتے بلکتے کہہ رہے ہیں کہ لداخ میں چین کی افواج پھن پھیلا ئے زہر اگلتی پھررہی ہے۔ لڑائی مسئلے کاحل نہیں۔جنگ کی آگ کے شعلوں کوبھڑکنے نہیں دینااورچین کے ساتھ مذاکرات کرکے علاقے کولڑائی سے بچاناہوگا۔اس تازہ واقعے سے اخذہوتاہے بھارت کویہاں اپنی فوج کوموت کے بھینٹ چڑ ھانے کے سواکچھ حاصل ہونے والانہیں۔
لداخ اس ریاست کشمیرکاحصہ ہے جس پربھارت نے 1947میں فوج کشی کرکے جبری طورپرقبضہ جمایاہے اس جبری تسلط کے خلاف اہل کشمیربرسرجدوجہدہیں ۔ایسے میں جب چین اسی لداخ پرفوج کشی کرکے اس کے کئی علاقوں پرقابض ہوجاتاہے اوراسکی فوج بھارتی فوجیوں کوہلاک کرتی ہے تواسلامیان کشمیر سوشل میڈیاپردلی مسرت کااظہارکرتے ہوئے ایک دوسرے کواس پرمبارکبادپیش کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کشمیری مسلمان چین کے اس قدام پرخوش کیوں ہیں۔دراصل اسلامیان کشمیرچین کے لداخ میں کئی علاقوں کے قبضے پرخوشیاںنہیں مناتے بلکہ وہ اس بات پرنہال ہیں کہ خداکاشکرہے کہ کسی نے توان کے قاتل کی گردن مروڑ لی ہے اوریہ فطری امرہے ۔بھارت لگاتارکشمیری نوجوانوں کونہتے اوربے سروسامانی کے عالم میں شہیدکرتاہے گذشتہ دوہفتوں کے دوران 20نوجوان شہیدکردیئے گئے،اس دوران حسب سابق ایک بارپھرمسکنوںکواجاڑاگیا ،مکانوں کوبارود سے بھسم کیاگیا ۔جب مکینوں کوتہہ وتیغ کیاجاتاہو ،ان پردہشت انگیزاوروہشت انگیزمظالم ڈھائے جارہے ہوں کہ کلیجہ پھٹ جاتاہے تو ایسے میںجب چین ،بھارت کادشمن بن کراس پر مسلط ہوجاتاہے ،اسکی گردن دبوچ لیتاہے ،اسکے 20سے زائد فوجیوں کوموت کے گھاٹ اتارہے ،اسکی پوزیشنوں کوڈھاتاہے تو بھارت کے خلاف چین کے ایسے حریفانہ اورقیبانہ اقدامات سے فطری طورپرکشمیری مسلمان کے دلوں کے لئے تسکین کاساماں فراہم ہوتاہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ کم ازکم چین نے بھارت کی اس فوج پرشب وخون ماراجوہمارے نہتے نوجوانوں کومسلسل اورلگاتارقتل کررہی ہے ۔
جب اسلامیان کشمیرکادشمن بھارت چین کے سامنے بطورریاست عسکری، دفاعی ،سیاسی اور نفسیاتی دبائوکاشکارہوکرڈھیرہوجاہے اورمودی کاجنگی ٹھکانے لگ جاتاہے تواس سے بڑھ کراسلامیان کشمیرکے لئے پھرخوشی کا کونساموقع ہوگا۔اس پس منظرمیں دونوں چین اوربھارت قابضین ہی کہلاتے ہیں لیکن چونکہ دشمن کادشمن دوست کہلاتاہے اس لئے کشمیری چین کے اس اقدام پرنہال نظرآتے ہیں۔2019کوجامع مسجدسری نگرکے اطراف میں اس وقت چین کے جھنڈے لہرائے گئے تھے کہ جب چین نے اقوام متحدہ میں کشمیرپربھارتی موقف کومستردکرتے ہوئے سرزمین کشمیرکی متنازع حیثیت پردوٹوک بات کی ۔حالانکہ کشمیرکی مقدس جدوجہدسے وابستگان اسے سمجھتے ہیں کہ چین ایک کیمونسٹ ملک ہے لیکن بھارت کاکلیجہ جلانے کے لئے تحریکی اراکین نے چینی جھنڈے لہرادیئے۔اس طرح کے تمام ردعمل تشفی بخش ،اوراطمینان آفریںہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دشمن کوزچ کرنے کاسامان ہوتاہے ۔وہ اس پرخوشیاں مناتے ہیں، جھومتے ہیں، ناچتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں۔واضح رہے کہ لداخ میں1999 کرگل میں ہونے والی جنگ کے بعد اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی پائی جارہی ہے۔لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گلوان وادی اور دیمچوک چین کے قبضے میں ہیں۔
بھارت اور چین کے درمیان تین ہزار 488کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ یہ سرحد جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش میں بھارت سے ملتی ہے اور اس سرحد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی سیکٹر یعنی متنازعہ خطہ جموں و کشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ اور مشرقی سیکٹر یعنی سکم اور اروناچل پردیش۔ چین علاقے میں کسی سرحد ی حد بندی کو نہیں مانتا اوراس کاموقف ہے کہ یہ ساراعلاقہ اس کاہے۔چین مشرقی سیکٹر میں اروناچل پردیش پر اپنا دعوی کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے۔ چین تبت اور اروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کو بھی قبول نہیں کرتا ہے۔مجموعی طور پر چین اروناچل پردیش میں میک موہن لائن کو قبول نہیں کرتا۔مجموعی طورپریہ سمجھ لیجئے کہ بھارت جس علاقے کوLAC)) کہتاہے چین اسے تسلیم نہیں کرتاوہ اس سارے علاقے کو اپنا علاقہ ہونے کا دعوی کرتاہے جوبھارت کے لئے ایک مسلسل دردسر کا باعث بناہواہے۔
اپریل 2020کے اواخرپرچین نے لداخ کی طرف جوپیش قدمی کی ہے اس پرعلاقے کے مکینوں کاکہناہے کہ وادی گلوان اور پینگونگ جھیل چینی فوج کے قبضے میں آچکے ہیں اوراس طرح چینی افواج ان کی چراگاہیں چینی علاقے میں شامل کر چکی ہیں۔پینگونگ جھیل لداخ خطے کے انتہائی سرد علاقے میں 4350میٹر کی بلندی پر ہے۔علاقہ مکینوں کاکہناہے کہ روایتی چراگاہوں کے علاقے سکڑ تے چلے جارہے ہیں کیونکہ جیسے ہی کسی علاقے سے برف ہٹ جاتی ہے توچین کی فوج اس علاقے کواپنے کنٹرول میں لے رہی ہے ۔مکینوں کاکہناہے کہ ان کی چراگاہوںمیں ہرطرف چینی افواج ہی نظرآرہی ہے۔
چینی افواج کی پیش قدمی سے مقامی لوگوں میں دونوں ممالک کے مابین جنگ ہونے کاخوف بڑھ رہا ہے اور ان پرمسلسل خوف اور بے چینی کے سائے منڈلارہے ہیں۔علاقہ مکینوں کاکہناہے کہ 1962کے بعدیہ پہلاموقع ہے کہ جب وہ اس علاقے میں بڑے پیمانے پربھارتی فوج کاجمائودیکھ رہے ہیں۔ان کاکہناہے کہ 1962کوچین بھارت جنگ کے بعد ہم نے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی تھی۔علاقے کے مکینوں کاکہناہے کہ ہم علاقے سے روزانہ سیکڑوں گاڑیوں پرمشتمل فوجی کانوائے کو آتے جاتے دیکھ رہے ہیںاور فوجی گاڑیوں کی اس غیر معمولی نقل و حمل کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتاہے۔کیونکہ موجودہ صورتحال غیر معمولی معلوم ہوتی ہے۔
وادی گلوان کے قریب بسنے والے زیادہ تر مقامی افراد کا تعلق خانہ بدوشوں سے ہے جو اپنی خوراک اوردیگراشیاء کے لئے جانوروں پر انحصار کرتے ہیں۔لداخ چونکہ ایک خشک علاقہ ہے جہاں عام حالات میں بھی جانوروں کے لیے چارہ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ خانہ بدوش ان چراگاہوں’’بہکوں‘‘ پر منحصر ہیں ۔ان لوگوں کو خوف ہے کہ ان کے جانوروں کی چراگاہیں’’بہکیں‘‘ کم ہو رہی ہیں کیونکہ چینی ہر سال اس پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔ان کاکہناہے کہ ہماری چراگاہوںکے بیشتر علاقوں پر چینیوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور خدشہ ہے کہ وہ دوسرے علاقوں پر قبضہ کرلیں گے۔ اگر جانوروں کی یہ ساری چراگاہیں’’بہکیں‘‘ ہماری ہاتھوںسے چلی گئیں تو ہماری زندگی ہی چلی جائے گی۔یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پہلے چین کی طرف سے علاقے میںیہ قبضہ انچ یا فٹ میں ہوتا تھا لیکن اب یہ کلومیٹر زکے حساب میں ہونے لگا ہے۔
سوال یہ ہے کہ لداخ میں انڈین آرمی چین کے سامنے لیٹ کیوں گئی۔کیوں وہ ساکت صامت بنی بیٹھی ہے ۔ کیوں نہیں وہ سینہ تان کے چین کے سامنے کھڑی ہوجانے کی جرات کررہی ہے ۔کیوں اس کے ہوش اڑ چکے ہیں اورکیوں اس کے اوسان خطاہوچکے ہیں۔ حالانکہ علاقے میں اس کابڑے پیمانے پرجمائو ہورہاہے ۔اس سوال کاجواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیںبھارت کے سابق خارجہ سیکرٹری شیام سرن نے ہندوستان ٹائمز میں2 جون2020 کو لکھے گئے ایک مضمون کوپڑھ لیناچاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ چین کے ساتھ سرحد پر لگاتار ایسی چیزیں ہو رہی ہیں جن کا انڈیا کوسامنا ہے لیکن انڈین فوج چین کی طرف سے پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی یا تو کرنا نہیں چاہتی یا پھر اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔جبکہ بھارت کے سابق فوجی افسروں کاکہناہے کہ صورتحال کابڑے صبراورمحتاط طریقے سے مقابلہ کرناہے اورممکن ہے کہ سردیوں میں چینی افواج خودہی علاقے سے واپس چلی جائے گی ۔ بھارت کے چیف آرمی چیف سربراہ بکرم سنگھ نے بی بی سی کواپنے ایک انٹرویوکے دوران بتایا ہے کہ انڈین فوج چین کے ساتھ سرحد پر چینی فوج کو بھرپور جواب دی سکتی ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن اس طرح کی کارروائی کا فیصلہ فوج نہیں بلکہ سیاسی قیادت کرتی ہے۔ بکرم سنگھ کاکہناہے کہ ہمیں اس حوالے سے محتاط رہنا ہوتا ہے کہ ہماری صلاحیت کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ہم چین کو اسی کی زبان میں جواب دی سکتے ہیں۔ہم کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے دیر پا اثرات کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ان کاکہناہے کہ چین کے معاملے میں وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت دفاع کو ہی فیصلہ لینا ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں تصادم میں اضافے کا پورا خدشہ ہوتا ہے۔
بکرم سنگھ نے اپنے انٹرویوبی بی سی میں بتاتے ہیں کہ پوری اورمجموعی صورتحال کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ جنگ؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں ایسی ہی منصوبہ بندی کرنی چاہیے لیکن جب ہمیں پتا ہے کہ ایسے معاملات پرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں تو جیسے کو تیسے کی پالیسی کی ضرورت نہیں ہی۔انھوں نے کہا کہ اگر چین اپنے فوجیوں کو واپس نہیں بلاتا اور کئی ماہ گزر جاتے ہیں تو پھر ہمیں کسے بڑے فیصلے کی ضرورت پڑے گی اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں اسی زبان میں جواب دینا پڑے۔ لیکن ہمارا ابتدائی قدم جیسے کو تیسا کی طرز پر نہیں ہو سکتا۔اگر ہم ایسا کرنا بھی چاہیں تو ہمیں وسائل کی ضرورت ہو گی۔ ہم جلدی اس ضرورت کو بھی پورا کر لیں گے لیکن ابھی ہم اس صورت حال میں نہیں پہنچ پائے۔یہاں آمنے سامنے کی تعیناتی نہیں ہے جہاں ہماری فوج بہترین کام کر رہی ہے۔تاہم جنرل بکرم سنگھ کہتے ہیں کہ سرحد پر انفراسٹرکچر کے لحاظ سے چین ہم سے بہت آگے ہے۔ کچھ سال پہلے تک چین بہت کم وقت میں اپنی فوج کے 22ڈویژن جمع کر سکتا تھا۔ آج یہ تعداد 32ہو گئی ہے۔ ایک ڈویژن میں 10ہزار کے قریب فوجی ہوتے ہیں، جو فوری طور پر پوزیشن سنبھال سکتے ہیں۔
لداخ کے اس پسماندہ علاقے میں عوام کوویسے بھی گوناگوں مشکلات کاسامناہے ۔انہیںایک فون کال کے لیے 70کلومیٹر کا سفرطے کرناپڑتاہے اورابصورتحال کے پیش نظر یہ سہولت بھی منسوخ کر دی گئی ہے جس سے مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔علاقے کے لوگوںکا کہنا ہے کہ جب بھی علاقے میں کوئی پریشانی ہوتی ہے تو پہلے مواصلات کے ذرائع کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ ہمارے پاس مواصلات کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور اگر کچھ ہوتا ہے تو ہم کیسے رابطہ کرسکیں گے؟
Comments are closed.