Baseerat Online News Portal

صرف دعوے سے کہیں دیس چلتا ہے؟

نوراللہ نور
دو ہزار چودہ میں اگر آپ کو یاد ہو تو ایک مسیحا آیا (مودی جی ) تھا جس نے ایک نیا جہاں تشکیل دینے کے سنہرا
خواب دکھایا، جسے لگتا تھا کہ ہر مرض کی دوا ہے اس کے پاس، پیچیدہ
اور ژولیدہ معمعوں کو با آسانی حل کر لے گا ۔
اس نے اس وقت کے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی نفی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ملک کی تقدیر بدل دے گا اور سب سے بڑی بات جو اس مہان پرش نے کہی تھی کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے چھپن انچ کا سینہ ہونا چاہیے جو ان کے پاس ہے اور وہ یک لخت سارے معاملات کو باآسانی حل کر لیں گے ۔
وہ جس جوش و جذبے اور پروپیگنڈے سے آئے تھے اسی کے مطابق اگر ان کے کیے ہوئے وعدے درعمل ہوتے تو آج ہندوستان ترقی کے بام عروج پر ہوتا اور ایک نیا ہندوستان وجود میں آتا لیکن وہ اپنے ہدف و منشور کو تو جلا اور تقویت بخشی مگر ملک کو اس دلدل میں فروکش کر دیا ہے جہاں سے آگے بڑھنا مشکل سا ہوگیا ہے ۔
جب سے وہ مسند پر براجمان ہوئے اپنے کیے گئے وعدوں کے مطابق ایک بھی لائق ستایش کام نہیں کیے اور چھپن انچ کا سینہ رکھ کر ہمیشہ بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے ان کے آنے سے راحت تو نصیب نہ ہوئی مگر رنج و الم ؛ مکرو فریب ؛ خودپرستی ان ساری چیزوں کو ذائقہ چکھ لیا، ترقی کی راہ تو کبھی مفتوح نظر نہیں آئی لیکن تنزلی ان کی آمد سے اس ملک کی تقدیر بن گئی بستیاں ویران تو ہوئی مگر آباد نہ ہو سکی ۔۔
انہوں نے ہمیشہ بتکلف بیوقوف بن کر ہماری آنکھ میں دھول جھونکی اگر ایک بھی کا م بہتر کیا ہوتا تو اس مغموم دل کو تسکین مل جاتی، ہمیشہ اپنے احمقانہ اور غیر ذمہ دارانہ فیصلوں سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور یہاں کی عوام کا مزاق بنایا ۔
نوٹ بندی کے فیصلوں سے پریشان کیا اس کے بعد عصبیت و نفرت کو ہوا دینے کے لئے بیہودہ اور بے معنی بل (سی اے اے) کو منظور ی دیدی اور اس کے بعد وبا کے دنوں میں تالی اور تھالی کا ڈراما کر کے لاکھوں بے قصوروں کی جان لے لی ۔
اگر وہ یہیں پر بس کرتے تو مافات کی تلافی کے امکانات تھے مگر وہ اپنی غفلت و سرکشی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اندرون ملک کا کیا چل رہا وہ اس بے خبر اپنے چمچے اینکروں کے ذریعہ فرقہ واریت کو ہوا دینے میں لگے ہیں اور اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں ۔
یوں تو انہوں نے کام کچھ نہیں کیا مگر بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے پوری دنیا میں خود کا اور ہمارا مزاق بنایا ہوا ہے اب دیکھیے کہ وہ ملک جس کو ہم اعدادوشمار میں نہیں لاتے وہ ہمیں آنکھ دکھا رہا اور بد نسل چینی فوج ہمیں ہی ہمارے گھر میں گھس کر قتل کر رہی ہے،
مودی جی آپنے تو کہا تھا کہ اگر ہمارے ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا تو اسے قطعا برداشت نہیں کرونگا آج چین جس کو اپنا رفیق بنایا تھا وہ ہمارے حدود میں آکر ہمارے جوانوں کو مار رہا ہے آپ اس سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کیوں نہیں کر رہے؟ کیا آپ کو صرف پاکستان پر غصہ آتا ہے؟ آپ کا چھپن انچ کا سینہ کب کام آئے گا ؟ آپ اتنے نحیف و نزار ہیں کہ دو کوڑی کا نیپال آپ کو دھمکیاں دے رہا ہے ؟ آپ چھ سال میں اتنے بے بس ہوگئے کہ کوئی ہماری سرحد میں گھس کر ہمارے جوان شہید کردے اور آپ کچھ بھی نہ کر سکے ‌۔۔
اگر آپ کو یاد نہ ہو تو یاد دلا دوں کہ آپ نے سنکلپ لیا تھا کہ دیش واسیوں کا درد میرا درد ہے تو اتنے ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں آپ کو تکلیف نہیں ہوتی آخر اس طرح کب تک جوانوں کو ارزاں سمجھ کر ان کا خون بہاتے رہیں گے "فرضیکل ” اسٹرایک ؛ پلوامہ میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے پھر بھی صاحب کو سکون نہیں ۔
اگر واقعی آپ میں ہمت و جسارت ہے تو ان کی دخل اندازی پر بندش لگائیے اور ان کو ان کی حد بتائیے، اگر آپ کے پاس واقعتا چھپن انچ کا سینہ ہے تو نیپال کو اس کی اوقات یاد دلا دیجئے مگر آپ سے یہ کبھی نہیں ہوگا کیونکہ آپ نے ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے محنت کیا ہے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔۔
مودی جی صرف جملہ بازی اور اور وعد وعید سے ملک پروان نہیں چڑھتا بلکہ وعدوں کو پورا بھی کرنا پڑتا ہے آپ کی لفاظی اور جملہ بازی کو دیکھ کر یہ اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر آپ پر فٹ آرہا ہے کہ
صرف کہنے سے کہیں چلتا ہے کا م
کام کرنے کے لئے ہمت چاہیے .

Comments are closed.