آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
اگر سفراء مدارس سے زکوٰۃ کی رقم گم ہو جائے؟
سوال: رمضان المبارک میں عام طور پر مدارس کے سفراء مدارس کے لئے تعاون وصول کرنے کے لئے مختلف بڑے شہروں میں جاتے ہیں،بعض دفعہ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ ان کی رقم گم ہو جاتی ہے یا چوری ہو جاتی ہے، بعض شہروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ پاکٹ ماروں نے رقم چھین لی، ایسی صورت میں جن لوگوں نے زکوٰۃ کی رقم سفیر کے حوالہ کی تھی، کیا ان کی زکوٰۃ ادا ہو گئی، یا انہیں دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟(عبدالمجید قاسمی، ٹولی چوکی)
جواب: شریعت کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر وکیل کسی چیز کو اپنے قبضہ میں لے لے، تو یہ مؤکل ہی کا قبضہ سمجھا جاتاہے، اور ادارہ کا ناظم یا مہتمم ادارہ کے طلبہ کی طرف سے وکیل ہے، اور اس نے جن لوگوں کو وصولی ٔ تعاون کے لئے مقرر کیا ہو، وہ بھی بالواسطہ وکیل ہیں؛ لہٰذا جب انھوں نے زکوٰۃ کی رقم وصول کر لی تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوگئی، اب اگر سفیر کی کوتاہی سے پیسے ضائع ہوئے ہوں تو مہتمم کو حق ہوگا کہ وہ اس کو اس سے وصول کر لے، اور اگر اس میں اس کی کوتاہی کا دخل نہ ہو تو وہ اس رقم کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’مہتممین مدارس اور ان کے مقرر کردہ چندہ وصول کرنے والے عاملین صدقہ کے حکم میں داخل ہو کر فقراء کے وکیل ہیں،معطین چندہ کی وکالت صرف اس درجہ میں ہے کہ انھوں نے ان حضرات کو وکیل تسلیم کر کے اپنا چندہ ان کے حوالہ کر دیا تو جب بحیثیت وکیل فقراء کی رقم ان کے قبضہ میں چلی گئی، تو وہ فقراء کی ملک ہوگئی، اور زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوگئی (امدادالفتاویٰ: ۲؍ ۱۰۸۵)
غیر مسلموں کو زکوٰۃ
سوال: اس بار کورونا کی وجہ سے شہر کے غریبوں اور مہاجر مزدوروں پر لوگوں نے کافی رقم خرچ کی، یہ رقم زکوٰۃ کی مد سے خرچ کی گئی، جن لوگوں کی مدد کی گئی، ان میں نوّے فیصد تو مسلمان تھے؛ لیکن دس فیصد برادران وطن بھی تھے، تو کیا غیر مسلموں پر خرچ کی گئی رقم سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ؟ (فہیم الدین، پونہ)
جواب: اسلام نے انسانی بنیادوں پر تمام لوگوں کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا ہے؛ بلکہ انسان تو کیا جانوروں کے ساتھ بھی بہتر برتاؤ کی تعلیم دی ہے، اس لئے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ حُسن سلوک کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے اور موقع ومحل کے لحاظ سے شرعی فریضہ ہے؛ لیکن زکوٰۃ کا خصوصی حکم یہ ہے کہ یہ مسلمانوں پر خرچ کی جائے، حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے: تؤخذ من أغنیائھم وترد علیٰ فقرائھم (صحیح البخاری،حدیث نمبر: ۱۳۹۵) اس لئے جو رقم غیر مسلم بھائیوں پر خرچ ہو، اس کا اجروثواب تو ہوگا؛ لیکن زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی؛ اس لئے خوب اندازہ کیجئے کہ کتنی رقم غیر مسلم بھائیوں پر خرچ کی گئی، اگر دس فیصد کا اندازہ ہے تو احتیاطاََ پندرہ فیصد یا بیس فیصد مان لیجئے، اور اتنی رقم کو زکوٰۃ شمار نہیں کیجئے، بقیہ رقم کو زکوٰۃ شمار کر سکتے ہیں؛ بشرطیکہ وہ مزدور اور غرباء زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔
پیشگی زکوٰۃ کی ادائیگی
سوال: کورونا کی مصیبت کی وجہ سے لوگوں نے ڈھیر ساری رقمیں ضرورت مندوں پر خرچ کی ہے، اور بہت سے لوگوں نے یہ رقم زکوٰہ کی نیت سے خرچ کی ہے؛ کیوں کہ اس وقت لوگ فاقوں سے دو چار تھے، اور بنیادی ضرورتوں کے لئے پریشان تھے؛ لیکن یہ رقم اندازہ پر خرچ کی گئی، جب بعد میں حساب کیا گیا تو ان پر اتنی مقدار زکوٰہ واجب نہیں ہوتی تھی، تو کیا اس زائد رقم کا آئندہ کی زکوٰۃ میں حساب جوڑا جا سکتا ہے؟ (فہیم الدین، پونہ)
جواب: زکوٰۃ ایک ایسی عبادت ہے، جو وقت سے پہلے بھی ادا کی جا سکتی ہے؛ لہٰذا اس زائد رقم کا آئندہ سال کی زکوٰۃ میں حساب کیا جا سکتا ہے، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے: رجل لہ أربع مأۃ درھم فظن أن عندہ خمس مأۃ درھم فأدی زکوٰۃ خمس مأۃ، ثم ظھر أن عندہ ارٔبع مأۃ، فلہ أن یحتسب الزکاۃ للسنۃ الثانیۃ؛ لأنہ أمکن أن یجعل الزیادۃ تعجیلا (الفتاویٰ الولوالجیہ: ۱؍۱۹۳)
نکاح میں تین بار قبول کرنا
سوال: عام طور پر نکاح کے وقت نوشہ سے تین بار قبول کرایا جاتا ہے، نوشہ کہتا ہے ’’ میں نے قبول کیا، میں نے قبول کیا، میں نے قبول کیا،، کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ (حامد حسین، کنگ کوٹھی)
جواب: بعض علاقوں میں یہ غلط رواج قائم ہو گیا ہے، شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے تین دفعہ طلاق دینے سے مکمل طور پر طلاق واقع ہو جاتی ہے، اور رجعت کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اسی طرح اگر تین بار نکاح قبول کرایا جائے گا تو نکاح ہوگا یا نکاح مضبوط ہوگا، یہ درست نہیں ہے، ایک بار قبول کر لینا نکاح کے منعقد ہونے کے لئے کافی ہے، بار بار کہنے کا کوئی فائدہ نہیں:رجل قال لامرأتہ: زوجت نفسی منک، فقالت المرأۃ: قبلت ینعقد النکاح (خلاصۃ الفتاویٰ،کتاب النکاح:۲؍۳)
نکاح باقی ہو تو حق پرورش
سوال: زید اور ہندہ میاں بیوی ہیں؛ لیکن زید کا مستقل قیام اپنے والدین کے پاس دوسرے محلہ میں ہے؛ البتہ وہ اپنی بیوی کے پاس آتا جاتا رہتا ہے، ان دونوں کی پانچ سال کی ایک بچی ہے، زید چاہتا ہے کہ بچی کو اپنے ماں باپ کے گھر رکھے اور ہندہ چاہتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ رہے، ہندہ نے کہا کہ ماں کو بچے کی پرورش کا زیادہ حق ہے؛ لیکن زید کہتا ہے یہ حق اس صورت میں ہے، جب کہ میاں بیوی میں طلاق ہو گئی ہو، اگر رشتہ قائم ہو تو اس وقت کے لئے یہ حکم نہیں، براہ کرم اس سلسلہ میں وضاحت فرمائیں؟ (شائستہ بیگم، بہادر پورہ)
جواب: شریعت میں چھوٹے بچوں کو ماں کی پرورش کا اس لئے حق دیا گیا ہے کہ وہ زیادہ بہتر طور پر بچے کی پرورش کر سکتی ہے، اور اپنی ممتا کی وجہ سے کم شعور بچوں کی ناگوار باتوں کو بھی خوشی خوشی سہتی ہے؛ اس لئے نکاح ختم ہو گیا ہو، یا نکاح باقی ہو؛ لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے میاں بیوی کا الگ الگ قیام ہو، بہر صورت ماں کو ترجیحی طور پر پرورش کا حق حاصل ہے؛ لہٰذا اس معاملہ میں ہندہ پرورش کی زیادہ حقدار ہے اور بچی کو اس کے پاس ہی رکھنا چاہئے: أحق الناس لحضانۃ الصغیر حال قیام النکاح أو بعد الفرقۃ الأم (الفتاویٰ الھندیۃ: ۱؍۱۶۵، نیز دیکھئے: البحر الرائق: ۴؍۲۸۲)
بچوں سے مزدوری کرانا
سوال: ملک کے قانون کے لحاظ سے بچہ مزدوری کی ممانعت ہے؛ لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں بچہ مزدوری کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں، تو کیا یہ عمل شرعاََ بھی ناجائز ہے؟ (صبیح الدین،مہدی پٹنم)
جواب: اس مسئلہ کی دو جہتیں ہیں (۱) شرعی (۲) قانونی، شرعی اعتبار سے باپ یا جس پر بچہ کا نفقہ واجب ہوتا ہے، اس پر یہ بات واجب ہے کہ وہ کمائے اور بچہ پر خرچ کرے، بچہ کو تعلیم سے محروم کر کے مزدوری پر مجبور نہ کرے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نا بالغ بچوں کو کمانے کا حکم نہ دو؛ کیوں کہ اگروہ کمائی نہ کر سکے گا تو چوری کرنے لگے گا‘‘ لا تکلفوا الصغیر الکسب فانہ إذا لم یجد سرق (مؤطا امام مالک، باب الامر بارفق بالمملوک، حدیث نمبر: ۲۸۰۸)
اس لئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر غریب آدمی کا نا بالغ بچہ ہے اور وہ غریب شخص کمانے کی طاقت رکھتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ کمائے اور اپنی اولاد کی ضرورت پوری کرے؛ بلکہ اگر وہ ناکارہ اور سست قسم کا آدمی ہے، محنت مزدوری سے بھاگتا ہو تو اسے کمانے پر مجبور کیا جائے گا، اور اگر اسلامی حکومت ہو تو قاضی اسے قید کی سزا دے گا: رجل معسر لہ ولد صغیر إن کان الرجل یقدر علی الکسب یجب علیہ أن یکتسب وینفق علیہ، فإن أبیٰ أن یکتسب وینفق علیھم یجبر علیٰ ذالک ویحبس (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۵۶۵)
ہاں اگر بچہ ابھی بالغ نہیں ہوا ہو؛ لیکن اس میں محنت مزدوری کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہو اور اس کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں ہو، جیسے بیوہ ماں ہو اور کوئی کمانے والا شخص نہ ہو،یاباپ بوڑھا اور معذور ہو گیا ہو، تو اس صورت میں ایسی محنت مزدوری اس سے کرائی جا سکتی ہے، جو اس کی صحت کے لئے قابل برداشت ہو: صغیر بلغ حد الکسب ولم یبلغ مبلغ الرجال کان للأب أن یسلمہ فی عمل أو یوجرہ لعمل أو خدمۃ وینفق علیہ من ذالک (فتاویٰ قاضی خان، علی ہامش الھندیۃ: ۱؍۴۴۷)
دوسری جہت قانونی ہے، ملک کا جو قانون شریعت سے متصادم نہیں ہے، اس پر عمل کرنا شرعا بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ ہم نے اس پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ہے؛ اس لئے شدید ضرورت کے بغیر نابالغ بچوں کو مزدوری پر لگانا یا مسلمان کارخانہ داروں کے لئے ایسے بچوں کو مزدوری پر رکھنا درست نہیں ہے۔
غیر مسلموں کو عیدی
سوال: عید تو مسلمانوں کا تہوار ہے؛ لیکن مسلمانوں کے گھروں اور محلہ میں کام کرنے والے بہت سے غیر مسلم حضرات بھی عید کے موقع سے عیدی کا مطالبہ کرتے ہیں، کیا ان کو عیدی دینا درست ہے؟ ( محمد فرحان، مانصاحب ٹینک)
جواب: قرآن مجید نے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ترغیب دی ہے (سورہ ممتحنہ: ۸) اس لئے غیر مسلم بھائیوں کو تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے: لا بأس أن یعطی کافرا حربیا أو ذمیا وأن یقبل الھدیۃ منہ (رد المحتار: ۳؍ ۳۰۲)
عیدی بھی خوشی کے موقع پر دیا جانے والا ایک ہدیہ ے؛ اس لئے اس کے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ موجودہ حالات میں جب کہ مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش دکی جا رہی ہے، اس طرح کا حسن سلوک خصوصی اہتمام سے کرنا چاہئے؛ تاکہ نفرت کے بادل چھٹ جائیں، اور برادران وطن محسوس کریں کہ مسلمانوں کا وجود ہمارے لئے رحمت ہے نہ کہ زحمت ۔
Comments are closed.