Baseerat Online News Portal

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے دربار میں

اسجد عقابی

حضرت شیخ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ المعروف (خواجہ غریب نواز) ہندوستان کی سرزمین کے ان پاکباز اولیاء کرام میں سے ہیں، جنہوں نے ظلم و استبداد کے خلاف محبت اور پیار کے پیغام سے انسانیت کا درس دیا ہے۔ آپ کا حلقہ ادارت سرحدوں سے پرے ہیں اور آپ کے دربار میں حاضری دینے والے مذہبی عصبیت سے ماوراء ہیں۔ آپ کے دربار میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے افراد حصول برکت کیلئے تشریف لاتے ہیں۔ آپ کی شخصیت آپ کے زمانہ سے ہی مرجع خلائق رہی ہے اور آج بھی آپ عالمی طور پر مرجع الخلائق ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ اور اسوہ حسنہ سے متاثر ہوکر نوے لاکھ کے قریب انسان حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ساری زندگی اس پر قائم رہتے ہوئے تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دئے، آپ کی ہستی وہ مبارک ہستی ہے جنہوں نے ہزاروں کوس دور سے آکر یہاں ہند میں گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد رکھی، صلہ رحمی کا درس دیا اور اخوت و بھائی چارگی کے پیغام کو عام کیا آپ نے کبھی بھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا اور نہ ہی کسی سے نفرت کی بلکہ نفرت کے مقابلے میں پیغام محبت عام کیا اور لوگوں کو حسن سلوک کی تعلیم دی جس کا اثر یہ ہوا کہ جو لوگ اسلام لائے وہ تو محبت کرتے ہی تھے لیکن جن کی قسمت میں اسلام نہیں تھا وہ بھی آپ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے جو آج تک جاری ہے لیکن ملک کے موجودہ دور میں اس عقیدت و محبت کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہندومسلم بھائی چارگی میں خلیج پیدا کی جارہی ہے اسی لیے سوچی سمجھی سازش کے تحت حال ہی میں ایک نیوز اینکر کے ذریعے آپ کی ذات اقدس کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ نفرت کی مضبوط دیوار قائم ہوسکے لیکن عاشقان خواجہ مذہب و ملت سے اوپر اٹھ کر اس دریدہ دہن کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ فوری کارروائی کرتے ہوئے اس دریدہ دہن کو قرار واقعی سزا دے تاکہ اس طرح کی حرکت کوئی اور کرنے کی جرات نہ کرسکے-

جولوگ آپ کی ذات کو مطعون کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو منہ میں آرہا ہے بول رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ آپ کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور اپنے ذہن کو صاف کریں تاکہ معلوم ہوسکے کہ آپ کس طرح ہند کے سلطان بنے اور کیوں لوگ آپ سے کئی سو سال گزر جانے کے باوجود بھی وہی عقیدت و محبت رکھتے ہیں جو اول دن میں تھی۔

یہاں اجمالی طور پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں تاکہ نفرت کے پجاریوں کے علم میں آسکے کہ آپ کی ذات گرامی کیا تھی اور آپ کن کن خصوصیات اور کمالات کے حامل تھے- آپ کی پیدائش 1142 عیسوی کو خراسان کے علاقہ سیستان میں سید غیاث الدین حسن رحمۃ اللہ علیہ کے گھر ہوئی۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 1155 عیسوی میں آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں تعلیمی و تزکیری مشغلہ کو جاری رکھنے کی کوشش کی، لیکن جب آپ کی عمر محض سولہ سال تھی آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ بعد ازاں آپ نے اپنے والد کے چھوڑے ہوئے کاروبار کو یکجا کرکے اسے فروغ دینے کی کوشش کی، لیکن زمانے کی گردش اور حالات کی شورش نے اتنی مہلت نہیں دی، بلکہ مقدر تو کچھ اور ہی تھا، پھر کیسے کاروباری زندگی میں اطمینان نصیب ہوتا۔ ذاتی وصف اور زہد و قناعت نے انہیں علم و عمل کے تتبع میں اسلامی حکومتوں کے بیشتر ممالک کی خاک چھاننے پر مجبور کردیا۔ اسی زمانہ میں آپ نے امام بخاری اور امام ابو منصور ماتریدی کے قبور کی زیارت فرمائی۔ اور وہاں رہتے ہوئے ظاہری علوم میں دسترس حاصل کی۔ آپ کی علمی تلاش جاری رہی اور آپ ملکوں ملکوں ہوتے ہوئے، بخارا، سمر قند، نیشاپور، بلخ، عراق، اصفہان، غزنی وغیرہ کے اکابرین عظام سے تعلقات استوار کئے اور ان سے روحانی فیض کا کسب کیا ہے۔ عراق کے سفر میں آپ کی ملاقات وقت کے مشہور شیخ خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش زندگی کے بیس سال ان کی خدمت میں گزارے۔ ان ایام میں وہاں رہتے ہوئے ان کے حکم کے مطابق کئی روحانی اسفار کئے جن میں عوام الناس کو خدائی پیغام سے روشناس کرایا۔

آپ مستقل روحانیت کی تلاش میں سرگرداں رہے جس کی بناء پر آپ کو ولایت کا اعلی مقام نصیب ہوا تھا۔ ان اسفار کے درمیان آپ کی ملاقات شیخ المشائخ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی۔ شیخ عبد القادر جیلانی کی روحانی تربیت نے آپ کو چمکتا دمکتا ہیرا بنا دیا۔ آپ کے قلوب کو منور و مجلی کردیا۔ علاوہ ازیں شیخ نجیب الدین ابو الخیر سہروردی، شیخ ابوسعید تبریزی، شیخ عبد الوحید غزنوی، شیخ نجم الدین کبریٰ وغیرہ سے بھی روحانی فیض کسب کیا ہے۔

اکابرین عظام اور اولیاء کرام کی مستقل صحبت نے آپ کے قلوب کو منور و مجلی کردیا تھا۔ روحانیت کا یہ حسین سنگم شدہ شدہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجہ ہوا، سب سے پہلے آپ لاہور تشریف لائے، جہاں شیخ علی ہجویری کے مزار پر حاضری دی اور کچھ ایام ان اطراف میں گزارا۔ شیخ ابو یوسف ہمدانی اور شیخ ابو عبداللہ انصاری کے مزارات کی زیارت فرمائی۔ لاہور آپ کی منزل نہیں تھی، یہاں سے آپ نے رخت سفر باندھا اور دہلی تشریف لائیں۔ یہاں کا ماحول دیکھنے کے بعد آپ دہلی سے قریب اجمیر تشریف لے گئے۔ یہ وہ جگہ تھی، جسے اللہ ربّ العزت نے آپ کیلئے منتخب فرمایا تھا۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے دین اسلام کی اشاعت و ترویج کی ایسی بے لوث خدمت انجام دی ہے جس کا فیض صدیوں گزرنے کے بعد آج بھی جاری و ساری ہے۔

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں اسلام کے اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ آپ جس علاقہ میں قیام پذیر تھے، وہاں ایک ہندو راجہ کی حکمرانی تھی۔ اسلام کے آفاقی پیغام کو عوام تک پہنچانے کیلئے آپ نے خدمت خلق کا وہ نمونہ پیش کیا اور ایسی نظیر مثال قائم فرمائی کہ دنیا آج تک انہیں (غریب نواز) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ اور بے لوث خدمات نے غیروں کو آپ کا ایسا گرویدہ بنا یا کہ لوگ جوق در جوق آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے تھے۔ لاکھوں کی تعداد نے آپ سے کسب فیض کیا اور دنیاوی تعیش کو چھوڑ کر مالک حقیقی کی یاد اور دین حنیف کی ترویج و اشاعت میں گزار دیا۔ 1236 عیسوی میں آپ اس دار فانی سے دار بقا کی جانب ہمیشہ کیلئے کوچ کرگئے، لیکن آپ کے علوم و معارف کو اللہ نے ہمیشہ کیلئے عوام کیلئے مشعل راہ بنا دیا۔

آپ نے اپنے مایہ ناز شاگرد اور مشہور زمانہ بزرگ شیخ قطب الدین بختیار کاکی کو اپنا روحانی جانشین مقرر کیا، اور اپنے علوم کی نشر و اشاعت کیلئے سیر و سیاحت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس وقت تک چشتیہ سلسلہ تقریباً اجمیر اور اطراف کے علاقوں میں منحصر تھا، شیخ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں سے اپنے شیخ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و معارف اور روحانی فیض کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کی بے لوث خدمت نے شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جیسا گوہر نایاب آپ کی جھولی میں ڈال دیا۔ جنہوں نے روحانی معارف کو ایک نئی سمت عطا فرمائی۔

شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ سے حاصل کردہ علوم و معارف کو کما حقہ محفوظ رکھا اور عوام کو اس سے مستفید کرتے رہے۔ آپ کا حلقہ ادارت بسرعت چہار جانب پھیلتا چلا گیا۔ آپ کی مخلصانہ کاوش اور رحمت الٰہی نے آپ کو شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ جیسا روحانی فرزند عطاء فرمایا۔ جنہوں نے اکناف عالم میں اپنے شیخ اور اس کڑی کے مبتدی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علمی ورثہ کو ہمیشہ ہمیش کیلئے زندہ و جاوید بنا دیا۔

شاہان مملکت خواجہ جی کے دربار میں

آپ کی تعلیم و تربیت نے گنگا جمنی تہذیب کی بے مثال روایت قائم کی، جس کی وجہ سے آپ کی ذات گرامی بالاتفاق اور مذہبی قیود سے پرے ہر کسی کیلیے باعث برکت بن گئی تھی۔

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ بنانے کا شرف دہلی کے نامور حکمراں محمد بن تغلق کو نصیب ہوا، بعد ازاں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اسی سے متصل وسیع و عریض خطہ پر اکبری مسجد کی تعمیر فرمائی تاکہ علم و عمل اور زہد و ورع کی اس عظیم شخصیت کے دامن ادارت سے وابستہ افراد بآسانی ان کے جوار میں یاد الٰہی میں مصروف رہیں۔ اجمیر شریف کا عظیم الشان (نظام دروازہ) بنانے کا شرف، حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان کے حصہ میں آیا۔ (بلند دروازہ) کی تعمیر سلطان محمود خلجی کے حکم پر ہوئی۔ مغل سلطنت کے عظیم ترین شہنشاہ اکبر ہر تقریباً ہر سال مع اہلیہ زیارت کیلئے تشریف لاتے اور یہاں کے فضائل و برکات سے مستفید ہوتے۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جس میں شاہان ہند نے اپنی عقیدتوں کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا ہے۔ مغل سلطنت کے بعد برطانوی راج میں بھی آپ کی شان و شوکت برقرار رہی اور آپ کے معتقدین گوشہائے عالم سے اپنی عقیدتوں کا اظہار کرنے کیلئے تشریف لاتے رہے ہیں۔ آزاد ہندوستان میں ہر سال ماہ رجب میں عرس کے موقع پر حکومت ہند کی جانب سے تبرکات کے حصول کی نیت سے چادر پیش کرنے کی روایت برقرار ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ریاستوں کی جانب سے بھی چادر پیش کی جاتی ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوبامہ کی جانب سے حصول برکت کیلئے چادر پیش کی گئی تھی۔ اکناف عالم سے ہر سال عرس کے موقع پر مختلف ممالک کے وفود شرکت کرتے ہیں۔ کئی ممالک کے سربراہان مملکت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری دینے کیلئے تشریف لاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ہمارے ملک ہندوستان کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مختلف کاروبار اور پیشہ سے منسلک افراد برکت کے حصول کی خاطر چادر پیش کرتے ہیں۔ یہ رواج آج تک بدستور جاری ہے۔ بڑے بڑے نامی گرامی اشخاص اس درویش کی چوکھٹ پر حاضری لگانے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ آپ کے فیضانِ معرفت اور گنگا جمنی تہذیب کی وراثت کو ہمیشہ باقی رکھے۔ آمین

Comments are closed.