Baseerat Online News Portal

نپوٹیزم ” اقربا پروری ” ‌معاشرے کے لئے ایک ناسور

نور اللہ نور

نپوٹیزم یعنی اقربا پروری یوں تو معاشرے میں ایک طویل عرصے سے یہ مرض پنپ رہا ہے اور ناسور بنتا جا رہا ہے لیکن اب ششانت سنگھ کی موت نے اس زخم پر نمک چھڑک دیا ہے اور اس کی وبا سے ہلاک ہونے والے کی طرف ذہن موڑ دیا ہے۔

یوں تو اپنوں کے بارے میں سوچنا اور خود کی فکر کرنا ایک فطری امر ہے اور موزوں بھی ہے مگر بسا اوقات اس خود پرستی کے وجہ سے دوسرے کی زندگی تنگ اور اجیرن کرنا ایک انسان اور انسانیت کے منافی عمل ہے اپنی قابلیت دکھانا درست بات ہے لیکن دوسروں کی استعداد و کمال کا بھی احترام ضروری ہے ۔
ہم انسانوں کے اندر ایک خامی ہے کہ ہم صرف اپنی بہتری کے خواہاں ہوتے ہیں اور دوسرے کی ترقی ہمارے لیے درد سر ہوتی ہے ہم اپنی جاہ ثروت سے اپنے کو اور اپنے چاہنے والوں  کے لیےترقی کے خواب بنتے ہیں مگر ایک چھوٹی سی فیملی کا اگر کوئی ہونہار فرد اپنی محنت اور لگن سے بلندی پر پہونچ جاتے تو اس کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہو جاتےہیں اس کی ترقی ہضم نہیں ہوتی ۔

یہ مرض صرف فلمی دنیا کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد اس جرم میں ملوث ہے آپ شعبہاے زندگی کے کسی بھی فیلڈ کو دیکھ لیں وہاں یہ مرض ملے گا سب سے پہلے آپ بالی ووڈ کو ہی دیکھ لیں یہاں پر صرف چند لوگ ہیں جو انڈسٹری پر قابض ہیں کسی بھی اداکار کے ہٹ یا فلوپ ہونے کے سرٹیفکیٹ ان کے پاس ہے وہ چاہیں تو آپ کو کام ملے اور اگر چاہیں تو آپ کو دی ہوئی فلمیں بھی واپس لے لیں ۔
فلمی دنیا میں ششانت کی موت تو اس نپوٹیزم ایک تازہ مثال ہے جبکہ یہ مرض برسوں سے ان کے درمیان ہے بہت سارے اس کا شکار ہوئے ہیں مثال کے طور پر وویک اوبرائے اور بہت سارے لوگ ہیں نام ذہن میں نہیں اس لاعلاج بیماری کا شکار ہوج ششانت سنگھ آخر ان کی یکے بعد دیگرے ہٹ فلمیں آی ان کو ایک بھی ایوارڈ نہیں ملا اور اسٹار کڈس کی گھٹیا فلموں کو سارے ایوارڈ حاصل ہوئے ۔
اب بہت سارے کے پیٹ میں میری اس تحریر سے بھی درد ہوگا کہ اور کچھ نہیں ملا تھا لکھنے کے لیے تو ان کو دفع دخل مقدر کے طور پر بتادوں جو بھی غلط ہوگا اس پر جشم کشائی ضرور ہوگی چاہے کسی کے پیٹ میں درد ہو یا کوئی سچ ہضم نہ کر سکے
اب آپ کھیل کود میں ہی دیکھ لو کرکٹ بورڈ کا سکریٹری وہ ہے جس نے کبھی گیند بھی نہیں پکڑی ہوگی اور بیٹ کیسے پکڑا جاتا ہے اس کا بھی علم نہیں ہوگا آی پی ایل کے پلیٹ فارم سے بہت سے ستارے ابھرے مگر جگہ اسے ہی ملی جو سلیکٹرز کے نور نظر تھے اور بہت سی قابل تاریکیوں میں کھوگیے جیسے کہ راجستھان رائلز کے اقبال عبداللہ ؛ منوندر بسلا جو کہ بہترین کھلاڑی تھے جو اچھی کارکردگی دکھا سکتے تھے مگر ان کو جگہ اس لیے نہیں ملی کہ ان کا بیک گراؤنڈ کمزور تھا اور ان کا کوئی گوڈفادر نہیں تھا اسی طرح رنجی کا ایک کھلاڑی جس نے ورلڈ ریکارڈ رن بنایا مگر وہ اپنی سیٹ پکی نہ کر سکا اور ارجن تیندولکر جو ایک مہان کرکٹر کے فرزند ہیں ان کا انتخاب نپوٹیزموکی بنیاد پر ہو جاتا ہے ۔
اور سیاسی میدان تو اس سے بالکل بھی محفوظ نہیں یہاں بھی آپ کو دسیوں مثالیں مل جائیں گی۔

Comments are closed.