Baseerat Online News Portal

’تو باری سب کی آئے گی‘ شکیل رشید

’تو باری سب کی آئے گی‘
شکیل رشید
’ابھی بھی وقت ہے ساتھ ہو جاو ورنہ سب کا نمبر آئے گا‘!
انگریزی زبان کے ایک معروف صحافی سوربھ کمار شاہی نے یہ اپیل ان تمام ہی مسلمانوں سے کی ہے جو سارے ملک میں اپنے خلاف بڑھتی چلی جارہی نفرت کی لہر سے آنکھیں موندے، آپس ہی میں دست و گریبان ہیں ۔اور اب تو مسلک کے نام پر کی جانے والی اس لڑائی نے کچھ ایسی شدت اختیار کر لی ہے کہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بجائے کسی ایک مسلک کے مسلمان دوسرے مسلک کے مسلمانوں کی ’سرگرمیوں کی خبریں‘ لیے ان دفاتر میں کھڑے اور ان ٹھکانوں پر موجود نظر آتے ہیں جہاں کُل مسلمانوں کی بربادی کے منصوبے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان مسلمانوں کی بربادی کے بھی جو ’خبریں‘ پہنچانے کے کام ہنسی خوشی یہ سمجھتے ہوئے انجام دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ محفوظ رہیں گے، ان کا کچھ نہیں بگڑے گا، بگڑے گا تو ان کے مسلکی مخالفین کا۔ نیوز۱۸کے ملعون ٹی وی اینکر امیش دیوگن نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی شان میں جو گستاخی کی ہے وہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ صوفیاءکرام نے ساری دنیا کو پیار اور محبت کا درس دیا ہے اسی لیے آج جب عالمی سطح پر اسلام کی بات ہوتی ہے تو صوفیاء کرام کو یاد کیا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر برطانیہ اور فرانس تک سارے یورپ میں صوفی اسلام کی بات ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی سربراہان مملکت نے بھی اس پر زور دیا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی صوفی اسلام کا بڑا گن گان کیا ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ جب صوفی اسلام کی بات کی جاتی ہے تو مقصد اسلام کے ان احکامات کو مشکوک بنانا ہوتا ہے جو یورپ و امریکہ کو نہیں بھاتے، مثلاً جہاد یا قطع ید اور رجم و سنگساری جیسے اسلامی قوانین۔ صوفی اسلام کی اصطلاح استعمال کر کے مسلمانوں میں یہ غلط فہمی پھیلانے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے کہ صوفیاء جس اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں وہی حقیقی اسلام ہے۔ اور باقی جو ہے وہ اسلام کا متشدد اور دہشت گردانہ چہرہ ہے۔ یہ ایک طرح سے سارے اسلامی احکامات اور قوانین کو کٹگھڑے میں کھڑا کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ صوفیاء کرام کا اسلام وہی اسلام تھا اور ہے، اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے جس کی تعلیم دی اور جس پر چلنے کی تلقین کی۔لیکن جیسا کہ مشہور مثل ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ بدلتا ہے، ہم مسلمان بھی مذہب اسلام کو ان ہی رنگوں میں دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں، جو ہمیں دکھائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم بھی جو پہلے ہی سے مسلکوں میں تقسیم ہیں صوفی اسلام اور غیر صوفی اسلام کے خانوں میں بھی بٹ گئے ہیں۔ اس تقسیم کو مسلمانوں میں اختلافات میں شدت پیدا کرنے کے لیے کس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال ہمیں اس وقت نظر آئی جب تبلیغی جماعت کو سارے ملک میں کورونا پھیلانے کا الزام لگا کر معتوب کیا جا رہا تھا، اس وقت کئی مسلم جماعتوں نے بھی تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا تھا، دہشت گردی سے انہیں جوڑا اور پابندی لگانے کی بات کی تھی، ان میں صوفی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ یہ صرف مسلکی اختلافات کی بنا پر تھا۔ تبلیغی جماعت سے غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر اس کا نام دہشت گردی سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے!! لیکن جوڑا گیا۔ ہم مسلمان یہی کرتے چلے آ رہے ہیں، خود کو محفوظ سمجھ کر کسی دوسرے مسلمان کو آگ میں جھونکے کو تیار، صرف اس لیے کہ اس کے نظریات الگ ہیں۔ سوربھ کمار شاہی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’گجرات فسادات کے دوران کچھ بوہریوں ؍اسماعیلیوں نے خود کو سنّی اسلام سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ مجھے ایک شخص کی بات آج بھی خوب یاد ہے جس نے کیمرے پر کہا تھا کہ ہم تو تین دفعہ نماز پڑھتے ہیں پانچ دفعہ نہیں، پر کوئی فرق نہیں پڑا‘‘ ۔باری وہاں سب کی آئی تھی، اور آئی۔ گجرات کے بعد بھی شتر مرغ کی طرح چاہے جس نے بھی ریت میں گردن ڈال کر خود کو محفوظ سمجھنے کی کوشش کی ہو، باری آنے پر دھر لیئے گئے۔ اس ضمن میں ’دی وائر اردو‘ کے سابق مدیر اور فری لانس صحافی مہتاب عالم نے اپنے ایک کالم میں بالکل درست لکھا ہے کہ ۲۰۰۱میں امریکہ کے ٹوئن ٹاور حملے کے بعد جو پروپگنڈہ شروع ہوا اس کے زیر اثر مسلمانوں کے پڑھے لکھے اور بااثر احباب بھی بہت سی مسلم تنظیموں پر پابندی کی حمایت میں آواز اٹھانے لکے تھے، انہیں لگ رہا تھا کہ پابندی عائد ہونے کے بعد سارا معاملہ ختم ہو جائے گا لیکن ہوا یہ کہ’’یونیورسٹی کے فارغین، کلین شیو، انگریزی بولنے والے اور دیوبند کے علاوہ دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی گرفتار ہونے لگے۔کیا سنّی، کیا شیعہ، کیا دیوبندی، کیا بریلوی، کیادہریہ‘‘۔ اب پھر سب نشانے پر ہیں۔ امیش دیوگن نے جو ذلالت کی ہے اگر اس کے خلاف سب نے مل کر آواز نہ اٹھائی ہوتی تو دوسرے صوفیاء کرام کی شان میں بھی گستاخیاں کی جاتیں، آستانوں پر دعوے کر دیئے جاتے۔ اچھا ہوا کہ کیا دیوبندی اور کیا بریلوی اور شیعہ اور کیا صوفی حضرات سب نے ایک زبان میں ناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا ۔ یہی فرقہ پرستوں سے مقابلے کا درست طریقہ ہے۔ اب اختلاف بہت ہو چکا، ہم آپس میں بہت لڑ لیے، اب اتحاد کا وقت ہے، مل کر فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں سے مقابلے کا وقت ہے۔ کیونکہ اگر ہم لڑتے رہے تو سمجھ لیں کہ باری ہم سب کی آئے گی۔

Comments are closed.