Baseerat Online News Portal

طبی اداروں کا قیام،اور اس کی افادیت

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
دارالا فتاء: شہر مہد پور، ضلع اجین (ایم پی)

طبیب (Medical doctor)جہاں بیماروں کی صحت کا ذریعہ ہوتا ہے، وہیں وہ کمزوروں کے آ نسوپوچھ کرانہیں اپنا خیرخوا ہ اور ہم خیال بھی بناسکتا ہے۔ طب ایسا میدان ہے کہ اس میدان کا ماہر معاشرے کی ضروت بن جاتا ہے۔اور جب کوئی کسی معاشرے کی ضرورت بن جائے تو اس کے خلاف کیسی ہی عداوت کی ہوا بہہ رہی ہو، معاشرے میں اس کے محافظ ضرور کھڑے ہو جاتے ہیں۔

*مسلمان داعی طبیبوں کے ذریعہ تعمیر کردہ اسلامی اسپین*

پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ لکھتے ہیں کہ:
بربری قبائل اپنی خود مختاری کے لیے وہاں عربوں کو داخل نہیں ہونے دیتے تھے،…بربری قبائل میں اسلام کی اشاعت کے لیے قادریہ سلسلے کی خانقاہ (ساقیۃ الحمراء)کے صوفیوں نے تبلیغی مشن قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ملی، لیکن جب اسپنی مسلمان ان بزرگوں کے رابطے میں آئے، تو تبلیغ اسلام کے اس دشوار مہم کے لیے اُن کو بہت موزوں سمجھا، جس کو سر انجام دینے میں ان کے مریدوں کی کوششیں ناکام رہیں۔ ان مہاجر اسپینی مسلمانوں کو دعوت کے کام پر لگایا۔…. یہ مبلغ پانچ پانچ چھ چھ کی جماعتوں میں مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے، وہ پھٹے پُرانے کپڑے پہنے اور ہاتھ میں عصا لیے چل دیے، اور انہوں نے پہاڑوں کے سنسان اور غیر آباد مقامات منتخب کرکے وہاں غاروں میں، چٹانوں کے درمیان خانقاہیں قائم کیں، قبائل کے درمیان ان کی پرہیز گاری اور عبادت گزاری کا چرچا ہونے لگا۔ چنانچہ یہ قبائل جلد ہی ان کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرنے لگے۔ان مبلغوں نے آہستہ آہستہ اپنے علمِ طب اور صنائع وحرفت اور تمدن کے دیگر فوائد کی بدولت بربری قبائل کے ہاں اپنا مطلوبہ اثر و رسوخ قائم کرلیا اور ہر ایک خانقاہ اسلامی تعلیم کا مرکز بن گئی، ان نو واردوں کے علم و فضل کی کشش سے بہت سے طالب علم ان کے گرد وپیش جمع ہوگئے، کچھ عرصے کے بعد یہی طالب علم اپنے ابنائے وطن میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے، یہاں تک کہ ان کا مذہب ان قبائل کے تمام علاقوں اور صحراء الجزائر کی بستیوں میں پھیل گیا۔ع
(اسباق تاریخ ص252بحوالہ:The Preaching Of Islam;P. N134|135. by Sir Thomas W. Arnold)

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری

سلسلہ ئ قادریہ کے صوفیاء کرام وہاں بہت پہلے سے دعوتی کو ششیں کررہے تھے، لیکن ا ن کو کامیابی اس لئے نہیں مل رہی تھی کہ ان کے پاس ایسا کوئی مادی ذریعہ نہیں تھاجس کی وجہ سے وہ وہاں کے لوگوں کی ضرورت بن سکیں۔ لیکن جب اسپین کے مقہور مہاجر اطباء اور مختلف فنون کے ماہر مسلمان وہاں پہونچے تو وہ اپنے علم طب اور دوسرے فنون کی بدولت اس علا قہ کی ضرورت بن گئے۔اس طرح وہاں کے باشندوں کی ذاتی ومادی ضروریات پوری کرکے ان میں اپنا اعتماد قائم کیا اور اسی کے ساتھ ساقیۃ الحمراء کے بزرگوں کی رہبری میں دعوت اسلام کاکام کرنے میں مصروف ہوگئے،تو چند ہی سالوں میں وہاں اسلام کی باد بہار ی چلنے لگی۔
ہمارے ملک کے حالات جس قدر نازک ہوتے جارہے ہیں، دعوت وخدمت کے ذریعہ فتوحات کے لئے اتنے ہی مواقع ہمیں دستیاب ہو رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اندھیروں پر ماتم کے بجائے دعوت کے اُجا لوں سے فائدہ اٹھا ئیں۔ اور ہم پھر اسی طرح بھارت بلکہ پورے عالم میں دوسرے اسپن کی تعمیر کریں جو (711ء سے 1492ء)میں ہم نے تعمیر کیا تھا،اور 1492ء کے بعدسرزمین اسپین سے باہر افریقہ اور الجزائرمیں تعمیر کیا ہے۔ع
یہ سحرجو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہا ں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہِ مومن کی اذاں سے پیدا

*مسیحی بھائیوں کی کامیابی*

یہاں مالوہ(ایم پی) میں کام کرنے والے بعض مسیحی رہنماؤں سے بندے نے ملا قات کی، تومعلوم ہوا کہ یہاں ان کے اندر خود کے غیر محفوظ ہونے کا احساس بہت گہرا ہے۔ کیوں کہ مسیحی برادری ملک کے ایسے علاقوں میں اپنے تعلیمی وطبی ادارے قائم کرتی ہے،جہاں ان کی حفاظت کا بظا ہر کو ئی خاص انتظام نہیں ہوتا ہے۔ لیکن وہ ان بستیو ں میں تعلیم اور میڈیکل کا ایسا نظام بناتے ہیں کہ جب ان کے خلاف کوئی جارحیت کا ارادہ کرتا ہے،توجارحین کے خلاف سرکاری غیر سرکا ری تمام شعبوں سے Christianity کی مدد کے لئے لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یہاں لوگوں کی ضرورت بن گئے۔ ان کے مقابل میں ہم اپنی حفاظت کے لئے ہرطرح کوششیں کرتے ہیں، لیکن تعلیم میں آ گے بڑھ کر اور میڈیکل ودوسرے رفاہی میدانوں میں اپنی خدمات پیش کرکے معاشرے کی ضرورت بننے کی کوشش کم ہی کرتے ہیں۔ جب کہ Christianity کے مقابلے ہمیں بہت زیا دہ وسائل حاصل ہیں۔
تعلیمی شعبے میں عیسائی حضرات لوگوں کی ضرورت تو ہیں ہی، میڈیکل شعبے میں وہ کسی قدر اہمیت رکھتے ہیں، اس سلسلے میں درج ذیل صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔
یہاں مالوہ میں ”دٖیْمَڑ“ نامی ایک انہتائی خطرناک سانپ ہوتا ہے، یہ سانپ سائز میں چھوٹا ہوتا ہے، کھپریل،کچے مکانوں یا غیر پلا سٹر شدہ پکی عمارات میں بھی آ جاتا ہے۔ وہ سانپ اگر کسی انسان کو پھونک ماردے،تو اس شخص کا پوراجسم غبارے کی طرح پھولتا جا تا ہے، اور پھر جسم بُری طرح پھٹتارہتا ہے، لیکن دماغ(Brain)کی موت(Death) نہیں ہو تی ہے،اسی کے ساتھ اس کے اعصاب
(Nervous system)
کی حساسیت (Sensitivity) بھی باقی رہتی ہے، جس سے جسم میں شدیددرد (Severe pain)
ہوتا ہے۔ اورپھر کئی دنوں کے بعد موت ہو تی ہے۔
یہ سانپ انتا خطرناک ہو تا ہے کہ اگر کسی زمین وغیرہ سے گذراہو اور اس زمین، مٹی،فرش پر انسان کا ہاتھ یا جسم کاکوئی حصہ پڑجائے تو بھی انسانی جسم میں اس کے زہر کا اثر پوری طرح ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔راقم الحروف نے اس سانپ کو اور اس سا نپ کی گذرگاہ پرہا تھ یا پیر رکھ کر مسموم ہونے والوں کی کڑیل جوانی کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ اس کا علاج شاید حکومت کا پاس بھی دستیا ب نہیں ہے۔ اسی لئے جب کسی کو اس سانپ سے نقصان پہونچتا ہے، تو وہ فورا مسیحی شفاخا نوں (Christianity Hospitals)کا رخ کرتاہے، اوروہاں سے صحتیاب ہو کر واپس آ تاہے۔ میں نے معلوم کرنے کی کو شش کی ہے کہ ایسی کون سی دوا دی جاتی ہے جو حکومتی اداروں کے پاس بھی نہیں ہے، تو (تصحیح وتکذیب کے بغیر) پتہ چلا کہ یہ لوگ کیرالا کے علا قہ سے کوئی چیز لا تے ہیں اور اسی سے علاج کرتے ہیں۔ یا د رہے ان اداروں میں ننیں اور ذمہ دار لوگ اکثر کیرالا علا قہ سے چل کر یہاں مالوہ میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ وہ یہاں کے لوگوں کی ضرورت بن گئے۔ اس لئے ان سے لا کھ عداوت کے باجود لوگ ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔آ ج مسیحی برادری جو خد مات انجام دی رہی وہ ہما را کام تھا۔ہم مسلمان اس بات کے زیا دہ پابند ہیں کہ علم وطب میں اتنی محنت کریں کہ معاشرہ کے ضرورت بن جائیں۔ اور اس طرح ضرورت بن کر دعوت الی الاسلام کے ذریعہ لوگوں کو آ خرت کے دائمی عذا ب سے بچانے کا اپنا فریضہ اداکریں۔

*طبابت اورخواتین*

مفتی امانت علی قاسمی ”علم طب میں مسلمانوں کی خدمات“ مقالہ میں لکھتے ہیں۔
”اسلام میں طب کی اہمیت کا ا ندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے ابتدائی عہد میں، جب کہ اسلامی حکومت کا کوئی محکمہ اور دفتر نہیں تھا، مسجد نبوی کے صحن میں ایک شفا خانہ موجود تھا اور ایک انصاری خاتون حضرت رفیدہ رضی اللہ عنھا اس شفاخانہ کی نگراں تھیں، جو بلا عوض خدمت کیا کرتی تھیں، غزوۂ خندق کے موقعہ پر حضرت سعد بن معاذؓزخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا، اس کو رفیدہ رضی اللہ عنھا کے خیمہ میں پہنچا دو۔حضرت رفیدہؓ کے تذکرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں بھی فن طب میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔
(علوم وفنون عہد عباسی میں ص:108، العلوم العربیہ ص: 302)

تاریخ الاسلام للذھبی میں حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے کہ ”میں نے حضرت عائشہ ؓسے بڑا طب میں کوئی عالم نہیں دیکھا“
مختلف کتب حدیث میں ہے کہ حضرات صحابیات جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ۔
”…علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھاگیا،اے ام المؤمنین قرآن کی تفسیر اور حلال وحرام کی تعلیم آپ نے نبی اکرم ﷺسے حاصل کی اور شاعری،علم انساب اور سابقہ اقوام کے حالات آپ نے اپنے والد اور دیگر لوگوں سے جانا،لیکن فما بال الطب؟آپ کو طب سے کیسے واقفیت ہوئی؟ام المؤمنین نے فرمایاکہ :نبیﷺکے پاس جو وفود آیا کرتے تھے وہ اپنی بیماری کی شکایت آپ سے کرتے،آپﷺجو بھی نسخہ بیان فرماتے، میں اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیتی تھی ۔ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ: آنحضرتﷺآخر عمر میں بیمار رہاکرتے تھے،اطباء عرب آیا کرتے تھے ، جو وہ بتاتے تھے میں یاد کرلیتی تھی ۔
اسلام کے اس ابتدائی عہد میں ام المومنین عائشہؓ کے علاوہ دیگر صحابیات بھی علم طب میں ید طولی رکھتی تھیں ۔جن میں رفیدہ اسلمیہ،ام سلیم،ام سنان،آمنہ بنت قیس الغفاریہ،کعبیہ بنت سعد اسلمیہ،شفاء بنت عبداللہ اور ام عطیہ وغیرہ کے نام محدثین نے بیان کئے ہیں۔“
شروع میں مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی روایت نقل کی گئی ہے کہ: نبی اکرمﷺنے ایک صحابیہ حضرت شفاؓ بنت عبداللہ عدویہ کو جولکھنا پڑھنا جانتی تھیں، انہیں اس بات پر مامورفرمایا تھاکہ وہ حضرت حفصہؓ کو لکھناپڑھناسکھائیں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی بتائیں، چناچنہ حضرت حفصہؓ نے بہت جلد پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھ لیا۔“
(ابو داو،د کتاب الطب جلد2 ص97)

میڈیکل ریلیف کیمپ (Medical relief camp)لگانا، طب میں خواتین کو مہا رت حاصل کرنا اور آ ج کے اس دور کی زبان میں کیرئیر (Career)بنا نا عام حالات میں سنت ہے۔ اور اگر شہر میں کوئی مسلم طبیبہ نہ ہو تو مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے کہ ہے کچھ خوا تین کو طب کی ایسی مستند تعلیم دلائیں جس سے علاج کرنے کی حقدار (Authorised)ہوں، اسی طرح شہر، بستی میں مرد اطباء کا ہونابھی فرض کفایہ ہے۔آج ہمارے مریضوں کو صحیح علاج نہیں مل پاتا ہے۔ اور اطباء سے ہمیں شکایتیں رہتی ہیں۔ حالا ت انتہا ئی درجہ خراب ہیں، قانونی ذرائع معلومات کے بجائے ملک کے گودی میڈیا کی دروغ گوئی کی بنیاد پر ملک کا بڑا ذمہ دار ہمارے لباس میں باشندگان وطن کے سامنے مجرموں کی شناخت(Identify) کرتا ہے. انجام کار پورے ملک میں ہما رے خلاف ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ لیکن جب بھو کے،پیا سے، ننگے، پیدل مزدوروں کا قافلہ نکلتا ہے، اور مسلمان مفلسی، گرمی، روزہ کی حالت میں ان کی خدمت کرکے اپنے کپڑوں سے اخلا قی فتوحات کی مینا رے تعمیر کرتے ہیں، ایسے موقع پر ملک کے ذمہ داروں کے بگڑے سر اور تیور میں اگر چہ کوئی تبدیلی نہ آ ئی ہو۔ لیکن پورے ملک میں جو ہمارے خلا ف فضا بن گئی تھی، اس میں کسی قدر کمی ضرور آ ئی ہے۔اس کے باوجودہما رے خلاف صاحبان اقتدار کی طرف سے پھیلا یا گیازہر جلد ختم ہونا مشکل ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ بے ضرورت خوش پو شاکی، مرغن غذاوؤں اور تعمیرا ت و شادی بیاہ میں اصراف کے بجا ئے مزاج شریعت کے مطابق تعلیم وطب اور دیگر رفاہی کاموں میں روپیہ صرف کریں۔ اچھے اسکولس کھولے جائیں، بہترین اسپتال قائم کئے جائیں، اور اپنوں اور غیروں سب میں تعلیمی وطبی خدمات کے ذریعہ ملک کی مستقل ضرورت بن کرحالا ت کو بدلنے کی کو شش کرنا چاہئے۔ ع
منزل تیری تلاش میں گھومے گی در بدر
خلق خدا کی راہ سے کانٹے ہٹا کے دیکھ

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خا دم الا فتاء: شہر مہد پور،ضلع اجین (ایم پی)
19جون2020ء مطابق26شوال المکرم1441ھ
E.mail:[email protected]

Comments are closed.