Baseerat Online News Portal

چینی مصنوعات کا بائیکاٹ: کیا یہ عمل اتنا آسان ہے اسجد عقابی

چینی مصنوعات کا بائیکاٹ: کیا یہ عمل اتنا آسان ہے

اسجد عقابی

چینی فوج کی دراندازی اور ہمارے سرحدی علاقوں میں بیجا مداخلت نے ہمارے ملک کی فوج کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ جس سے عوامی طور پر پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ چین نے ہمیشہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تقریباً اسی طرح کا رویہ اپنایا ہے۔ چائنا بزور قوت اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے، جس سے اس کے پڑوسی ممالک مستقل پریشانی میں گھرے رہتے ہیں۔ اور ان اوچھی حرکتوں کی بنیاد پر وہ اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح تجارتی دنیا میں اس نے اپنا اثرورسوخ قائم کرکے اس کا غلط استعمال کرنا شروع کردیا ہے، ہندوستان کے ساتھ اس کا رویہ پڑوسی ہونے کے اعتبار سے ناقابل بیان اور شرافت سے کوسوں دور ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت اس نے ضرور دیگر ممالک سے معاہدے کر رکھے ہیں لیکن شروع دن سے چین نے اس کا غلط استعمال کیا۔ چین کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی معاہدے میں منصف نہیں ہے۔ چین ہمیشہ یکطرفہ تجارت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کام کو انجام دینے میں وہ اپنی گھریلو کمپنیوں کےپروڈکٹس کو ہر طرح سے تحفظات فراہم کرتا ہے اور انہیں پروموٹ بھی کرتا ہے۔

حالیہ فوجی کاروائیوں میں فوجیوں کی شہادت نے پورے ملک میں، چائنا کے خلاف غم وغصہ میں شدت پیدا کردیا ہے۔ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی ہے کیونکہ، چین نے ایسے علاقے میں دراندازی کی جو مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں رہا ہے۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے غیر متنازعہ رہا ہے لیکن چین نے اپنی خباثت کی وجہ سے اسے بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے، جب شہریوں نے چینی مداخلت اور اس کے اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف اس کے اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور حتی الامکان اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالیہ دراندازی اور فوجیوں کی شہادت کے بعد بھی کئی جگہ سے ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ لوگوں نے بعض گھریلوں اشیاء، ٹی وی اور چینی کھلونوں کو توڑ دیا ہے۔ حیدرآباد کی سب سے بڑی چینی مارکیٹ کے تمام تاجروں نے اپنے اعتبار سے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے۔ چینی اشیاء کی خریدوفروخت سے اجتناب کریں گے۔ تھوڑا نقصان ہی سہی لیکن ملکی مفاد کی خاطر ہمیں یہ گوارا ہے۔

یہ تو ایک پہلو ہے، جہاں ہمارے ملک کے مختلف طبقوں کی جانب سے بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے لیکن اگر حقیقت شناسی سے اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ناممکن نہ سہی لیکن مشکل ضرور ہے۔ چینی مصنوعات ہمارے روز مرہ کے استعمال کی ان بنیادی ضروریات میں شامل ہیں، جن سے یکبارگی پیچھا چھڑانا مشکل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں صرف چینی کھلونے ہی درآمد ہوتے ہیں بلکہ الیکٹرونکس اور دیگر ٹیکنیکل چیزوں کی فراہمی بھی چائنا سے امپورٹ ہوتی ہے۔ چائنیز موبائل کا ڈمپنگ گراؤنڈ ہمارا ملک بن چکا ہے۔ ہندوستان کی کئی بڑی کمپنیوں کے ساتھ چینی کمپنیوں کی مشارکت ہے۔ ابھی ابھی اڈانی گروپ نے چینی کمپنی ایسٹ ہوپ گروپ کے ساتھ مل کر گجرات میں کروڑوں کے بجٹ پر سولر سسٹم کے مینو فیکچرنگ کی ڈیل کی ہے۔ علاوہ ازیں چینی کمپنیvivo نے ہندوستان کے مشہور ترین کرکٹ لیگ آئی پی ایل کو بھی اسپانسر کر رکھا ہے۔ OPPO اورMI نے ہندوستانی مارکیٹ میں اپنا سکہ جما رکھا ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق میرٹھ ریل سرنگ کا ٹھیکہ بھی ایک چینی کمپنی کے پاس ہے۔ اسی طرح ملک کے سب سے بڑے اسٹیل پلانٹ کا ذمہ بھی چینی کمپنی کے پاس ہے۔ بعض ایسے پروڈکٹس ہیں جن کے کچھ اجزاء ہمارے یہاں تیار ہوتے ہیں اور کچھ اجزاء چین کی کمپنیوں میں بنائے جاتے ہیں۔

چین نے ہمارے ملک میں اپنے کاروبار کو اس طرح بچھا رکھا ہے کہ اس کا یکبارگی بائیکاٹ کئی مسائل کو بیک وقت جنم دے سکتا ہے۔ کئی کمپنیاں ہیں جن کو آغاز میں کئی چینی کمپنیوں نے سپورٹ کیا ہے۔ ان سب چیزوں سے چھٹکارا پانا اتنا سہل اور آسان نہیں ہے، جتنا بظاہر نظر آرہا ہے۔

ایسی صورت میں دو چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ہندوستانی مصنوعات کی تشہیر اور حکومتی اداروں کی جانب سے اس کے بقا کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے جانے چاہیے۔ ایسے اقدامات کئے جائیں اور گھریلوں کمپنیوں کو ایسی سہولتیں فراہم کی جائیں جس سے یہ کمپنیاں بآسانی اپنے مال کو پورے ملک میں پھیلا سکے۔ ان کمپنیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔ کھلونے بنانے والی اور گھریلوں اشیاء جیسے برتن وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کو وہ سہولتیں میسر ہو جن کے استعمال سے وہ بسہولت کم قیمت کے سامان مارکیٹ میں فراہم کرسکیں۔ تبھی یہ ممکن ہوسکے گا کہ ہم اپنی مصنوعات میں خود مختار ہوسکیں گے۔ ورنہ یہ وقتی عوامی غصہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا۔ کچھ دنوں بعد یہ پانی کے بلبلے کی مانند ختم ہو جائے گا۔

دوسری بات جو ہماری حکومت اور بڑے تجارت پیشہ افراد کرسکتے ہیں۔ چینی مصنوعات کا متبادل تلاش کیا جائے۔ وہ اشیاء جو ہمارے ملک کیلئے لازم ہے اور جن کیلئے ہماری مارکیٹ چینی مصنوعات پر منحصر ہیں، ان اشیاء کی خریدوفروخت کیلئے دوسروں کی جانب پیشقدمی کی جائے۔ ایسے ممالک کی جانب ہاتھ بڑھایا جائے اور ان سے تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے جو چین کے بالمقابل ہمارے لئے زیادہ سود مند ہو۔ الیکٹرونکس اور ٹیکنیکل چیزوں کیلئے چینی مصنوعات کا متبادل تلاش کرنا ناممکن نہیں ہے۔ دنیا کے کئی یوروپی ممالک ان میں سر فہرست ہے اور ہمارے ملکی تعلقات بھی ان سے کافی مضبوط ہیں۔

پہلا طریقہ ہمارے ملک کو خود مختار بنانے میں معاون و کار آمد ثابت ہوگا، ہمارے ملک کی مصنوعات کو مارکیٹ میں پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا اور دوسرے طریقے سے ہم چین کے تجارتی دباؤ سے بآسانی باہر آسکتے ہیں۔ جب ہمارے پاس متبادل ہوں گے تو ہمارے پاس پسند کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ لیکن ہمارے پاس ابھی متبادل نہیں ہے۔ لیکن اس درمیان گودی میڈیا عوامی غصے کو کم کرنے کے لیےبائیکاٹ مہم چلا رکھی ہے، عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ محض عوامی بائیکاٹ سے ہم چین کا بائیکاٹ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جبکہ یہی گودی میڈیا چینی اسپانسر کے ذریعے اپنا شو چلاکر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جب تک بڑے بڑے تجارتی مراکز اور میڈیا خود آگے بڑھ کر ان سے اپنے رابطے اور معاہدے کو ختم نہیں کریں گے، ہمیں وہ کامیابی نہیں مل سکتی ہے جس کی توقع ہم باشندگان ہند کئے بیٹھے ہیں۔

Comments are closed.