آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
بچوں کے تعلیمی اخراجات اور ماں کی ذمہ داری؟
سوال: میرے ایک دوست کی اہلیہ اپنے شوہر کی اجازت سے خلیجی ملک میں کام کرتی ہیں، ان کی اچھی آمدنی ہے، بچے باپ کے پاس ہندوستان میں رہتے ہیں، ان کی کوئی خاص آمدنی نہیں ہے، خاص کر بچوں کی تعلیمی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اب بیوی کا کہنا ہے کہ بچوں کی فیس ادا کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے، بچوں کی تمام ضروریات اس کے شوہر کو پوری کرنی چاہئے، اور شوہر اتنے پیسے ادا نہیں کر سکتا، ایسی صورت میں شرعاََ کیا حکم ہے؟ (احمد محی الدین، دبیر پورہ)
جواب: یہ صحیح ہے کہ اصل میں نفقہ باپ پر واجب ہوتا ہے؛ لیکن یہ واجب ہونا اس کی صلاحیت واستطاعت کے لحاظ سے ہے، عام طور پر بچوں کے لئے اسکول متعین کرنے میں ماں کی خواہش بھی شامل ہوتی ہے اور بعض اسکولوں کی فیس بہت گراں ہوتی ہے، پھر یہ کہ شوہر نے اسے اپنی تکلیف کو گوارا کرتے ہوئے بیرون ملک ملازمت کی اجازت دی ہے، یہ اس کا احسان ہے، بیوی کو بھی اس کا پاس ولحاظ رکھنا چاہئے، لہٰذا بچوں کے سلسلہ میں ان کی اہلیہ کو بھی تعاون کرنا چاہئے، فقہاء نے بھی صراحت کی ہے کہ اگر کسی وجہ سے بچوں کا باپ نفقہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہو اور ماں کے اندر اس کی استطاعت ہو تو ماں پر بچوں کا نفقہ واجب ہوگا:
’’ والأم لا یلزمھا نفقۃ ولدھا مع وجود أبیہ، قلت: یلزم الأم نفقۃ ولدھا إذا کان أبوہ فقیرا عاجزا عن التکسب جدا‘‘ (عمدۃ القاری، باب الزکاۃ علی الاقارب:۹؍۳۳)
اگر نو مسلم نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھ سکے؟
سوال: ایک شخص نے چند ماہ پہلے اسلام قبول کیا ہے، کافی کوشش کے باوجود سورۂ فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی اور چھوٹی سورت نہیں پڑھ پاتا ہے، ایسا شخص نماز کس طرح ادا کرے گا؟ (محمد اسلام، وجے واڑہ)
جواب: شریعت کے تمام احکام انسان کی صلاحیت اور طاقت کے لحاظ سے واجب ہوتے ہیں؛ لہٰذا اگر کوئی شخص قرآن پڑھنے پر قادر نہ ہو، تسبیح پڑھ سکتا ہو تو یہی کافی ہے، ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں قرآن کا کچھ بھی حصہ پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتا تو مجھے کوئی چیز بتلادیجئے جو اس کی جگہ پڑھ سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا کرو،(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۸۳۲۰) فقہاء نے یہی لکھا ہے کہ اگر قرآن یا د نہ ہو خاص طور پر اگر نو مسلم ہو تو جب تک سورۂ فاتحہ اور نماز کے بقدر قرآن یاد نہ ہو تو وہ سبحان اللہ والحمد للہ کہنے پر اکتفا کرے؛ لیکن کم سے کم قرآن مجید کی ایک آیت کا حفظ کرنا فرض ہے اور سورۂ فاتحہ نیز اس کے ساتھ کوئی چھوٹی سی سورت یا تین چھوٹی آیتوں کا یاد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے:
’’إنما تجوز الاکتفاء بالتسبیح والتمجید وغیرھما لمن لم یحفظ الفاتحۃ أو آیۃ واحدۃ تجوز بھا الصلاۃ ……. وتعلم الآیۃ الواحدۃ وحفظھا فرض عین متعین علیٰ کل مکلف، وحفظ فاتحۃ الکتاب وسورۃ أوما یقوم مقامھا من ثلاث آیات قصار واجب الخ (اعلاء السنن:۲؍۲۴۴)
اعلیٰ تعلیم کے لئے سرکاری قرض
سوال: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں، اس کی وجہ سے ملت اسلامیہ غیر معمولی نقصان سے گذر رہی ہے، بعض مسلمان تعلیم میں بہتر ہوتے ہیں، اور کسی خاص شعبہ میں داخلہ کا استحقاق بھی حاصل کر لیتے ہیں؛ لیکن تعلیم کے کثیر اخراجات ادا نہیں کر سکتے، گورنمنٹ ان کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ قرض لے کر اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور تعلیم کا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد قرض واپس کرتے ہیں، گورنمنٹ اس پر سود لیتی ہے؛ لیکن ایک مدت کے بعد سود عائد کرتی ہے، نیز سود کی شرح بھی کم رکھی جاتی ہے، کیا مسلمان طلبہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟(خواجہ حمید الدین، بنجارہ ہلز)
جواب: بعض چیزیں انفرادی حیثیت سے ضرورت کے درجہ میں نہیں ہوتیں؛ لیکن اجتماعی حیثیت سے ان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے؛ اسی لئے فقہاء نے اصول لکھا ہے ’’الحاجۃ إذ عمّت کانت کالضرورۃ‘‘ اعلیٰ تعلیم بھی اس وقت مسلمانان ہند کے لئے اجتماعی ضرورت کے درجہ میں ہے، اس سے بہت سی دفعہ نہ صرف مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو؛ بلکہ دین اور دینی شعائر کا بھی تحفظ ہوتا ہے، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا اور دفاع وغیرہ میں مسلمانوں کے نہ ہونے سے امت کو غیر معمولی نقصان پہنچ رہا ہے، اور بعض دفعہ ایک آدھ مسلمانوں کی موجودگی بڑے نقصان سے بچانے میں ممدو معاون ہو جاتی ہے، ان شعبوں میں تعلیم کے بغیر رسائی ممکن نہیں ہے؛ لہٰذا اگر کسی نوجوان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں داخل ہونے کی صلاحیت ہو؛ لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہوں اور اس کے والد کے پاس بھی نہیں ہوں، یا والد کے پاس پیسے ہوں؛ لیکن وہ اپنی اولاد کی تعلیم پر اتنا خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوں، نیز اولاد کے پاس اپنی کوئی ایسی جائداد بھی نہیں ہو، جس کو فروخت کر کے وہ تعلیمی ضرورت کو پوری کر لے تو وہ اس مقصد کے لئے سودی قرض لے سکتا ہے؛ البتہ اس کی نیت صرف پیسے کمانا نہ ہو؛ بلکہ قوم وملک کو فائدہ پہنچانا بھی ہو اور جوں ہی اس میں قرض ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے وہ جلد از جلد ادا کر دے، استاذ گرامی حضرت مفتی نظام الدین اعظمیؒ (سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند) نے ایک اصولی بات لکھی ہے ،جو بہت ہی چشم کشا ہے:
’’اضطرار دو قسم کا ہوتا ہے، ایک: اضطرار انفرادی وشخصی، اور ایک: اضطرار اجتماعی وقومی، پس جس طرح ’’ ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح‘‘ کے تحت اضطرار شخصی اور انفرادی میں سودی قرض لے کر سود دینے کی اجازت ہے، اسی طرح اضطرار اجتماعی وقومی میں بھی قرض لینے کی گنجائش ہوگی‘‘ (جدید فقہی تحقیقات: ۲؍۴۷۵)
وقت پر قیمت ادا نہ کرنے کی وجہ سے معاملہ کو کینسل کر دینا
سوال: میرے ایک دوست بلڈر ہیں، وہ مکان تعمیر کرتے اور بیچتے ہیں، ان کو ایک بڑی دشواری یہ ہے کہ خریدار کچھ قیمت ادا کر دیتا ہے، اور مثلاََ تین ماہ میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے؛ لیکن وقت پر پیسے ادا نہیں کرتا، یہاں تک کہ دو دو سال گزر جاتے ہیں، ایسی صورت میں کیا بلڈر وہ فلیٹ کسی اور کے ہاتھ بیچ سکتا ہے؛ تاکہ اس کا سرمایہ حاصل ہو جائے؟ ( شاہ نواز خان، بنگلور)
جواب: اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب قیمت اور بیچی جانے والی شئی متعین ہوگئی اور خرید وفروخت کا معاملہ طے ہوگیا تو اب خریدار اس کا مالک بن گیا، چاہے وہ چیز ابھی بیچنے والے ہی کے قبضہ میں ہو، بلڈر قیمت کے لئے خریدار پر دباؤ تو ڈال سکتا ہے؛ لیکن وہ شئی کسی اور کو فروخت نہیں کر سکتا: ونوع لا یرتفع إلا بالاقالۃ وھو حکم کل بیع لازم وھو البیع الصحیح الخالی عن الخیار (بدائع الصنائع: ۵؍۳۰۶)اور اس ٹال مٹول کا حل فقہا نے یہ لکھا ہے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے اور اس کو قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جائے؛ لیکن موجودہ زمانہ میں عدالتی نظام اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ کسی بھی مقدمہ کی کارروائی بہت وقت طلب بھی ہوتی ہے، خرچ طلب بھی اور محنت طلب بھی؛ ا س لئے موجودہ دور میں بعض اصحاب افتاء نے اجازت دی ہے کہ ایسی صورت میں بیچنے والا اس شئی کو فروخت کر دے اور خریدار جو پیسہ ادا کر چکا تھا، وہ اس سے واپس کر دے تو اس کی گنجائش ہے، فقہاء کی بعض عبارتوں سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے: ولأنہ لما تعذر استیفاء الثمن من المشتری فات رضا البائع فیستبد بفسخہ (ہدایہ: ۳؍۱۴۷)موجودہ دور کے اہل علم میں حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور مفتی رشید احمد لدھیانویؒ (کراچی) نیز حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب (جنوبی افریقہ) کی یہی رائے ہے، (فتاویٰ دارالعلوم زکریا:۵؍۷۷)
Surrogacy سے پیدا ہونے والے بچہ کا نسب
سوال: آج کل رحم کو کرایہ پر لینے کا رواج بڑھ رہا ہے، اگر کسی عورت میں ماں بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا وہ حمل کی مشقت برداشت نہیں کر سکتی تو اس کا اور اس کے شوہر کا مادہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جاتا ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو جس شوہر اور بیوی کا مادہ حاصل کیا گیا تھا، بچہ اس کے حوالہ کر دیا جاتا ہے اور قانوناََ وہ اس کا بچہ سمجھا جاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعاََ بھی وہ اس کا بچہ ہوگا؟(ڈاکٹر مظفر احسن، کلکتہ)
جواب: جو صورت آپ نے لکھی ہے، یہ ناجائز اور حرام ہے، کسی مرد کا نطفہ اجنبی عورت کے رحم میں پہنچانا جائز نہیں؛ کیوں کہ یہ زنا ہی کی ایک شکل ہے، اور پیدا ہونے والے بچے کا نسب بھی اس مردوعورت سے ثابت نہیں ہوگا، جس کا مادہ حاصل کیا گیا تھا؛ بلکہ جس عورت کے رحم میں بچے کی پرورش ہوئی ہے، وہی اس کی ماں سمجھی جائے گی، اور اسی کا شوہر باپ سمجھا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی عورت کو بچہ ہو تو جس کے لئے اس سے صنفی تعلق کی اجازت ہے، یعنی شوہر، بچہ اسی کا سمجھا جائے گا الولد للفراش وللعاھر الحجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۲۰۵۳)
کورونا اور مصافحہ
سوال: آج کل کورونا کی وباء کی وجہ سے مصافحہ سے منع کیا جا رہا ہے؛ کیوں کہ ہاتھ ملانے سے بھی یہ بیماری پھیل سکتی ہے، ایسی صورت میں مصافحہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ (ڈاکٹر احمد، ممبئی)
جواب: مصافحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان سے اظہار محبت کا ذریعہ ہے ،حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مصافحہ کی برکت سے انسان کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں، دوسری طرف صحت اور زندگی کی حفاظت بھی بہت اہم ہے، اور شریعت میں قدم قدم پر اس کی رعایت کی گئی ہے، ایک وفد مدینہ میں حاضر ہوا، وفد میں ایک شخص جذام کا مریض تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہاتھوں پر بیعت نہیں فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ اگر مصافحہ کی وجہ سے صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو مصافحہ نہیں کرنا چاہئے، فقہاء نے بھی ایسے شخص سے مصافحہ کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جو کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہو: وتکرہ مصافحۃ من بہ عاھۃ کجذام أو برض (الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۳؍۵۶۲)؛ اس لئے اس سلسلہ میں طبی ماہرین کے مشورہ پر عمل کرنا چاہئے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.