Baseerat Online News Portal

ہر خودکشی کرنے والے کا ایک قاتل ضرور ہوتا ہے نوراللہ نور

ہر خودکشی کرنے والے کا ایک قاتل ضرور ہوتا ہے

نوراللہ نور

یوں تو انسانی زندگی کے لے اس دشت فناہ میں تمام آرام دہ اشیا مہیا ہے اور راحت بخش چیزوں کا ذخیرہ ہے مگر انسان پھر بھی سکون و طمانینت کی نعمت سے محروم ہیں ۔

اسباب زندگی کے حصول کے بعد بھی انسان پرسکون نہیں بلکہ وہ اپنی جان کا دشمن ہے خود اپنا ہی قاتل بنتا جا رہا ہے ؟ ہونا تو یہی چاہیے کہ ان آسایشوں کے بعد انسان پرسکون ہوجاتا‌ اور اپنی ہی جان کا دشمن نہ بنتا لیکن ان سب کے علاوہ سماج ؛ معاشرہ گھر فیملی ہوتا ہے جو کہیں ن کہیں انسان کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے اور اس کی پر سکون زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔۔

ہر خودکشی کر نے والے کے بارے میں ہمارا یہی خیال ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جان آپ خود لی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا ضرور کوئی نہ کوئی قاتل ہوتا ہے وہ یا تو معاشرہ ہوتا ہے ؛ سماج کے زعماء ہوتے ہیں یا کبھی کبھی خود اس کے اہل خانہ ہوتے ہیں ۔۔۔
مجھے ان باتوں کو لکھتے ہوئے ذرا بھی تردد نہیں ہے کیوں کہ حقیقت یہی ہے آخر ہر روز ایک نہ ایک اس افسوسناک کا موت کا شکار ہوتا ہے آے دن کوئی نہ کوئی اپنی زندگی سے ہار مان لیتا ہے اگر ان کو سماج ؛ معاشرہ ؛ سوسائٹی اور اہل خانہ اس کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرتے تو کوئی اپنی جان کا دشمن نہ بنتا ۔
معاشرے میں جینا ان ہی لوگوں کا حق ہے جو ان کے ہر غلط و صحیح میں انکے ہمدوش ہو لیکن وہ لوگ جو اپنی شبانہ روز جد و جہد سے کوئی مقام حاصل کرلے ان کے لیے جینا محال ہوجاتا ہے ان کا عروج ان سماج کے ٹھیکیداروں کو کھٹکنے لگتا ہے اگر میری یہ بات ذرا بھی سچای سے عاری ہے تو پھر ششانت سنگھ راجپوت کا قتل کیوں ہوا ؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ اپنی شب و روز کی محنت سے ان سے سبقت لے گیا تھا کیا یہ سچای نہیں ہے ؟
چلو جو بڑی عمر کے لوگ ایسا کرتے ہیں تسلیم ہے کہ وہ اپنی جان کے خود دشمن بن جاتے ہیں لیکن وہ نوخیز اور کم عمر جوان جو ابھی زندگی کے نشیب و فراز سے واقف نہیں ہوتے ہیں آخر وہ اس کو ہی مسلہ کا حل کیوں سمجھتے ہیں انہیں تو کوئی فکر نہیں ہوتی تو وہ اس کے کیوں مرتکب ہوتے ہیں انہیں اس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے اس کے باوجود ایسی حادثات میں نوجوانوں کی تعداد سر فہرست ہے کیوں ؟

کیوں کہ وہ اپنے والدین کی توجہ جو اس عمر میں درکار ہوتی ہے اس کی کمی محسوس کرتے ہیں جس عمر میں انہیں انس و محبت کی ضرورت ہوتی ہے والدین اس سے بری ہوتے ہیں اپنے آفس کی مشغولیت میں مصروف رہتے ہیں جب وہ ان سب چیزوں کو اپنے گردوپیش معدوم پاتا ہے تو پھر وہ اپنے صحیح و غلط میں خود‌ امتیاز کرنے لگتا ہے اور بسا اوقات جب اسے اپنے عمل میں ناکامی ہاتھ آتی ہے تو وہ اپنی جان لے لیتا ہے ۔۔
یہ جو بلا چل پڑی ہے اور ہر روز ایک نہ ایک شکار ہوتا ہے اس پر قابو مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں اگر سماج عصبیت اقربیت کے دلدل سے نکل کر سب کے ساتھ مساویانہ رویہ رکھے ؛ اور والدین اپنی اولاد کو اپنی پوری توجہ دیں تو کچھ حد تک قابو پاسکتے ہیں ورنہ روز کوئی نہ کوئی اس کے بھینٹ چڑھے گا اور انسانیت کا تماشہ بنتا رہے گا ویسے دلایل کی روشنی میں یہ کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہر خودکشی کرنے کا کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے کبھی تو معاشرہ ؛ سو سایٹی اور کبھی خود اپنے ہی ۔

Comments are closed.