*زندگی سنورتی ہے حوصلے بڑھانے سے_ محمد اعظم ندوی استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد111

*زندگی سنورتی ہے حوصلے بڑھانے سے*

محمد اعظم ندوی

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

 

چھوٹے اپنے بڑوں کی تعریف کریں تو یہ خود ان کے لیے عین سعادت کی بات ہے؛ لیکن عام طور سے با مقصد لوگ اپنے چھوٹوں کی تعریف وتحسین کو ”تحسینِ ناشناس” سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اور نہ جانے کتنی تعریفیں کن کن مقاصد سے کی جاتی ہیں اس لیے وہ اور بھی اپنا وزن کھو دیتی ہیں، بڑوں کو تجربات ومشاہدات سے بھی اس کا اندازہ ہوجاتا ہے،یوں بھی ایک تجربہ کار انسان اپنی شخصیت کا تعین دوسروں کی رائے سے نہیں خود شناسی کی بنیاد پر کرتا ہے،ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کا دل رکھ لینا اور کسی کے نیک جذبات کی ظاہری طور پر ہی سہی قدر کرلینا انسانی شرافت واخلاق کے تقاضوں میں داخل ہے،اس کے بالمقابل بڑوں کی جانب سے اپنے چھوٹوں کے لیے ایک حوصلہ افزا جملہ بھی مہمیز کا کام کرجاتا ہے،اورایک متوسط درجہ کے طالب علم کو بھی آفتاب وماہتاب بنا دیتا ہے،ان کی نفرت ومحبت کا ان کے خوردوں پر گہرااثرمرتب ہوتا ہے اور کبھی کبھی اسی بنیاد پر وہ اپنے سفر کی سمت طے کرتے ہیں،علامہ محمد اقبال نے” مرد بزرگ” کے بارے میں فرمایا ہے:

اس کی نفرت بھی عمیق ،اس کی محبت بھی عمیق

قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

اس میں کوئی شک نہیں کہ شخصیت سازی میں اللہ کے انتخاب کے بعد علمی ماحول،ذاتی جد وجہداورعزم وہمت جیسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں، انہیں میں ایک اہم تربیتی محرک اساتذہ ،والدین یا کسی اور محسن کے تشجیعی کلمات اور حوصلہ بخش جملے ہوتے ہیں،کسی کا کوئی ایک جملہ اگر دل پر اثر کر جائے تو وہ زندگی کی مثبت اور کبھی کبھی انقلابی تبدیلیوں کے لیے سنگ میل ثابت ہوجاتا ہے،رسول معلم اور مربی انسانیتﷺ کا انداز تربیت بھی یہی تھا، اس میں محبت کی حرارت،لہجہ کی شبنمی ٹھنڈک اور تعلق کا احساس پنہاں ہوتا تھا،بعد کے ادوار میں بھی یہ طرز قائم رہا ، اور آج بھی کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ہے، ہم یہاں علمی وروحانی تربیت کی اپنی روشن تاریخ سے ایسے چند واقعات کا ذکرکرتے ہیں، جن میں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح تربیت کی جاتی ہے اور رجال کار تیار کئے جاتے ہیں:

 

*میرا یہ بیٹا سردار ہے*

یہ جملہ رسول اللہﷺنے اپنے پیارے نواسہ حضرت حسن ؓسے فرمایا،صحیح بخاری میں حضرت ابو بکرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو بر سر منبر دیکھا، اور حسنؓ ان کے پہلو میں تھے، آپ فرما رہے ہیں:” ابني ہذا سید،ولعل اللہ أن یصلح بہ بین فئتین من المسلمین”(صحیح البخاري:کتاب أصحاب النبي، باب مناقب الحسن والحسین رض اللہ عنہما ،حدیث نمبر:٣٧٤٦ )(میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح فرمائیں گے)،سنن ترمذی میں ہے کہ رسول اللہﷺ حضرات حسنین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: ” ہذان ابناي، وابنا ابنتي، اللہم إني أحبّہما، فأحِبَّہما، وأحبّ من یحبُّہما”(سنن الترمذي: أبواب المناقب، باب مناقب بی محمد الحسن بن علی بن بی طالب والحسین بن علی بن بی طالب رضی اللہ عنہما ،حدیث نمبر: ٣٧٦٩)(یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما، اور ہر اس شخص سے محبت فرما جو ان سے محبت کرے)۔

نبی نانا ﷺکے یہ مبارک جملے ان دونوں نونہالوں کے ذہن ودماغ سے محو نہیں ہوئے، حضرت حسین نے جہاں حق کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا، وہیں حضرت حسن نے جذبات کی قربانی دی اور رسول اللہﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوئی،جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان نزاعی کیفیت پیدا ہوگئی، اور اس کا سلسلہ حضرت علی کی شہادت کے بعد بھی جاری رہا جب کہ حضرت حسن خلیفہ ہوچکے تھے، جب اس فتنہ کا سلسلہ دراز ہوا تو حضرت حسن نے حضرت معاویہ کو صلح کا پیغام بھیج کرمسلمانوں کا خون بہنے سے بچا لیا، اور خلافت سے دستبردار ہوگئے، رسول اللہﷺکی پیشین گوئی پوری ہے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے،اور اس طرح انہوں نے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کا قابل قدر کام انجام دیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا،اور رسول اللہﷺنے اسی کے مطابق پیشین گوئی فرمائی تھی،لیکن ایک بچہ کے سامنے اس کے تذکرہ سے اس کا حوصلہ بڑھا ،مزاج بنا،اور ایک وقت آیا کہ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا،اسلامی تاریخ میں صلح جوئی کا یہ واقعہ ہمیشہ یاد رکھا گیا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 

*کاش تمہاری خوبصورت آواز میں قرآن سنا جاتا*

زاذان ابو عمر الکندی(و:٢٨٠ھ) ایک خوش آوازمغنّی ومطرب تھے، لہو ولعب اور شراب وکباب میں مست رہا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان کے پاس سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا گزر ہوا، وہ اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے، وہ نغمہ سنج تھے، اور ایک سازندہ یا طبلچی ان کی آواز کو ساز دے رہا تھا، ابن مسعود نے ان سے فرمایا:”لوکان ما یسمع من حسن صوتک یا غلام بالقرآن، لکنت أنت أ نت”(سیر أعلام النبلاء:٢٨١٤)(بیٹے !اگر تمہاری اس خوبصورت آواز میں قرآن سنا جاتا تو تم کچھ اورہی ہوتے)،یہ کہتے ہوئے ابن مسعودؓ آگے بڑھ گئے، ذازان نے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا گیا: ابن مسعود، ذازان کہتے ہیں، مجھے توبہ کی توفیق مل گئی، میں روتا ہوا ان کے پیچھے دوڑا اور ان کا دامن پکڑ لیا، میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے گلے لگایا اور رو پڑے، پھر فرمایا:اُس خوش نصیب کو خوش آمدید جس کو اللہ نے چاہ لیا،اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ وہ قرآن کریم کے خوش الحان قاری بن گئے، خشوع وخضوع میں ان کی مثال دی جاتی تھی، نمازوں میں طویل اور پرسکون سجدہ اور قیام کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ کوئی درخت کی ٹہنی ہوں(سیر أعلام النبلاء:٢٨١٤)۔

 

*اگر بندہ ہوتا تو بندگی کے آداب بجالاتا*

امام ابن قدامہ مقدسی(و:٦٢٠ھ) نے اپنی کتاب ”التوّابین” میں بشربن حارث بن عبد الرحمن حافی(و:٢٢٧ھ) کی توبہ کا ایک پس منظر یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایک دن بشر اپنی محفل طرب میں تھے، ایک بزرگ کا ادھر سے گزر ہوا، دروازہ پہ دستک دی، ایک باندی باہر آئی، انہوں نے پوچھا:اس گھر کا مالک حُر(آزاد)ہے یا عبد(بندہ وغلام)؟ باندی نے کہا: آزاد، انہوں نے فرمایا: تم سچ کہ رہی ہو، اگر بندہ ہوتا تو بندگی کے آداب بجا لاتا، اور لہو ولعب چھوڑ دیتا، بشر نے ان دونوں کی گفتگو سنی تو برہنہ سر، برہنہ پا تیزی سے باہر آئے، لیکن اس وقت تک وہ بزرگ جا چکے تھے، انہوں نے باندی سے کہا: تیرا برا ہو! وہ کون تھا جو تم سے دروازہ پربات کر رہا تھا، باندی نے ماجرا بتایا، بشر نے پوچھا: وہ کس طرف گئے، باندی نے بتایا: اس طرف، انہوں نے تیز قدموں سے ان کا تعاقب کیا اور ان کو پا لیا،جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: حضرت!آپ نے ہی دروازہ پر باندی سے مخاطب ہوکر کچھ ارشاد فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، بشر نے کہا: براہ کرم ایک بار پھر مجھ سے وہی باتیں ارشادفرمائیں، انہوں نے وہی بات دوہرائی،سن کر بشر پر ایسا اثر ہوا کہ اپنے دونوں رخسار مٹی میں لت پت کرتے جاتے، اور کہتے جاتے: بندہ ہوں بندہ، اور پھر سرگرداں وپریشاں برہنہ پا نکل گئے، اسی لیے ”الحافی”(برہنہ پا) ان کے نام جزو بن گیا(التوّابین،ص:١٢٩)۔

اس انقلاب ماہیت نے ان کی زندگی کا قبلہ بدل دیا، ایک مے خوار سے زاہد شب زندہ دار بن گئے، اور ”امام” کہلائے، امام ذہبی ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: ” الإمام، العالم، المحدث، الزاہد، الرباني، القدوة، شیخ الإسلام”(سیر أعلام النبلائ:٤٦٩١٠)امام ابراہیم حربی ان کے بارے میں کہتے ہیں:”لو قسم عقل بشر علی أ ہل بغداد، صاروا عقلاء”(اگر بشر کی عقل اہل بغداد پر تقسیم کردی جائے تو سب کے سب دانش مند ہوجائیں)(سیر أعلام النبلاء:٤٧٥١٠) اور اسلام کے ایک نیر تاباں بن کر دنیا کے افق پر چھا گئے، اس واقعہ نے ایک غافل انسان کوتیسری صدی ہجری کے مشہور ائمہ میں شامل کردیا۔

 

*یہ نوجوان روئے زمین کا بہت بڑا عالم ہے*

اسی قسم کے تشجیعی کلمات اور تربیت ونگہداشت نے امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم بن حبیب(و:١٨٢ھ) کو تیار کیا،یہاں تک کہ ان کو عباسی حکومت کے آسمان کی بلندیوں پر چمکتا ہوا ایک روشن ستارہ بنادیا،اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ امام ابو یوسف خلیفہ ہارون رشید(و:١٩٣ھ) کے دور میں مشرق ومغرب کے قاضی القضاة ہوگئے،امام ابو حنیفہ نے اس غریب طالب علم میں اقبال مندی، علمی تفوق، قوت حافظہ اور اخذ واستنباط کی بے پناہ صلاحیتوں کے آثار دیکھ لیے تھے،اس لیے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی اور ان کو ایک تاریخ ساز شخصیت بنانے میں کامیاب ہوئے،امام ابو یوسف کے والد تنگ دست تھے، ان کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس سے اپنے غریب اہل خانہ کی کفالت کرتے تھے، اور اپنے بیٹے یعقوب سے چاہتے تھے کہ وہ ان کے کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ کسی طرح گھر چل سکے، لیکن ان کے فرزند عزیز یعقوب علم کے دلداہ تھے، اور علم اپنے استاذ امام ابو حنیفہ سے حاصل کرنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے والد اور اپنے استاذ دونوں کے حکم پر کس طرح عمل کیا؟ خود ہی فرماتے ہیں: ”میں علم حاصل کرتا تھا ، تنگ دست اور بد حال تھا، میرے والد آئے اور فرمایا: تم اپنے قدم ابو حنیفہ کے قدم سے نہ ملاؤ،ابو حنیفہ کی روٹی تلی ہوئی ہے،اور تم کسب معاش کے محتاج ہو، تو میں نے اپنے والد کی فرمانبرداری کو ترجیح دی،جب امام ابو حنیفہ کوپتہ چلا تو وجہ معلوم کی اور مجھے سو درہم دئیے، اور فرمایا: درس میں پابندی سے آیا کرو، جب یہ پیسے ختم ہوجائیں تو مجھے بتاؤ، پھر کچھ دنوں بعد مجھے سو درہم دئیے”(تاریخ بغداد:٣٥٩١٦)۔

جب امام ابو یوسف بیمار ہوئے تو امام ابو حنیفہ آئے اور فرمایا:”إن یمت یذ الفتی فھو أعلم من عليھا”(سیر أعلام النبلاء:٥٣٦٨)(اگر اس نوجوان کا انتقال ہوگیا تو روئے زمین کا ایک بڑا عالم چلا جائے گا) اس اہتمام وتوجہ اور اس حکیمانہ تربیت سے امام ابو حنیفہ نے دوسری صدی ہجری میں امت کو ایک عظیم الشان تحفہ دیا، جن سے یحی بن معین(و:٢٣٣ھ)، احمد بن حنبل(و:٢٤١ھ) اور اسد بن فرات(و:٢١٣ھ) جیسے ائمہ وقت نے علم حاصل کیا۔

 

*تمہارا خط محدثین کے خط کی طرح ہے*

اس جملہ نے اسلامی تاریخ کو ایک گرانقدر تحفہ عطا کیا، اور وہ ہے امام محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز(و:٧٤٨ھ)کی شخصیت، بعد میں جن کو امام ذہبی کے نام سے شہرت ملی، علم وعلما کی محبت پر پروان چڑھے، کم عمری میں ہی حافظ ہوگئے، ١٨ سال کی عمر میں قرآن کریم کی مختلف قراء تیں بھی سیکھ لیں، ایک دن ان کے ایک استاذ شیخ قاسم الدین بن محمدعَلم الدین بِرزالی(و:٧٣٩ھ) نے ان کے قلم کی لکھی ہوئی تحریر دیکھی، تو فرمایا:”تمہاری تحریر محدثین کی تحریروں کی طرح ہے”،اس جملہ نے ان پر غیر معمولی اثر ڈالا، اور وہ علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے، یہاں تک کہ علم حدیث کے جلیل القدر عالم بن کر نکلے۔

خود لکھتے ہیں: ” وہو الذی حبّب إليّ طلب الحدیث، فإنہ رأی خطّي، فقال: خطّک یُشبہ خطّ المحدثین، فأثّر قولہ فيّ۔۔”(الدرر الکامنة في أعیان المائة الثامنة: ابن حجر،٢٧٨٤)(برزالی نے ہی میرے اندر علم حدیث کی محبت پیدا کی،انہوں نے میری تحریر دیکھی تو فرمایا:تمہاری تحریر محدثین کی طرح ہے،ان کی بات کا مجھ پر اچھا اثر ہوا۔۔)وہ دن بھی آئے کہ امام ذہبی کے سامنے ہزاروں شاگردوں نے زانوئے تلمذ تہ کئے، دوسری طرف انہوں نے اپنی بیش بہا تصنیفات سے اسلامی کتب خانہ کو مالا مال کردیا، دو سو سے زیادہ کتابیں لکھیں اور متعدد کتابیں کئی کئی جلدوں میں ہیں جن میں”سیرأعلام النبلاء”،” تاریخ الاسلام” اور” تذکرة الحفاظ”وغیرہ زیادہ مشہور ہیں، ایک جملہ نے زندگی کا مقصد متعین کردیا، اور ساتویں صدی ہجری میں امام ذہبی ایک مایہ ناز محدث کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔

ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں طالب علم کو جب تک احمق ،نالائق،بد تمیز،چغداور ان سے بڑھ کر بد بخت،بد معاش،کم نصیب اور گدھے جیسے الفاظ سے نہ نوازا جائے سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی کام کا نہیں بن پائے گا،سچی بات یہ ہے کہ طلبہ کومناسب انداز میں تادیب وتنبیہ کے ساتھ ان کے بہت معمولی کاموں پر بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے،مثلا ماشاء اللہ، بہت خوب، واہ، شاباش،تم کر سکتے ہو، تم اور بہتر کر سکتے ہو،روشن مستقبل تمہارا منتظر ہے، تم ضرور ایک بڑے عالم بنو گے،تمہاری محنت قابل رشک ہے،تمہاری آواز کا زیر وبم فلاں خطیب سے ملتا جلتا ہے،ان شاء اللہ وہ دن آئے گا کہ تمہاری ایک علمی شان ہوگی،تمہارا ذوق وشوق تمہیں بہت آگے لے جائے گا،تمہارا مسائل کو اس گہرائی سے سجھنا اور ان میں غور وفکر کرنا بتاتا ہے کہ تم فقیہ بن سکتے ہو،تمہارے اندر مجھے ایک کامیاب قائد کے اوصاف نظر آتے ہیں،تمہارے اندر ایک ادیب سو رہا ہے اس کو مرنے مت دینا، یہ خوش اسلوبی تمہیں ایک کامیاب قلم کار بنا دے گی،تم میں ابھی سے شاعری کے جراثیم ہیں ان کو پرورش پانے دو،تمہارے اندر قرآن فہمی کے جوہر ہیں،ماشاء اللہ حدیث سے تمہاری مناسبت میں اضافہ ہورہا ہے،الحمد للہ تمہارا مزاج عارفانہ ہے،ثابت قدم رہو، تم ایک بہادر طالب علم ہو،خدمت خلق تمہیں مقبول بنا دے گی،یہ اور اس قسم کے ہمارے مختصر جملے ہمارے بچوں اور طالب علموں میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں اور امت کو افراد فراہم کرنے میں معاون ہوتے ہیں،عارف باللہ حضرت مولانا محمد احمدصاحب پرتاب گڑھی کی جلوت وخلوت کے ایک حاضر باش عالم دین سے ان کا قول سنا: ”سرزنش میں نرمی اور حوصلہ افزائی میں فیاضی مطلوب ہے” ۔

Comments are closed.