Baseerat Online News Portal

تعلیمی اداروں کاقیام اوراسلامی ہدایات

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

مہد پور،اجین (ایم پی)

حضرت رسول اللہ ﷺاورآپ ﷺکے جانثار رفقاءؓ مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے، تو مکہ کے مشرکین یہاں بھی آ پﷺ کے خلاف سازشیں کرتے رہے، نیزیہودیوں نے بھی نبوت کے خلاف ہرطرح پریشانیاں کھڑی کیں۔ (سیرت ابن ہشام ج 2صفحات 167و168و169)
اسی کے ساتھ منافقوں نے بھی حضرت رسول اللہ ﷺ اور آ پ ﷺ کے رفقاءؓ کو مدینہ سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ میں جہاں یہ بات شامل تھی کہ کشت وخون کے ذریعہ انہیں بھگایاجائے، وہیں انہیں معاشی طور پر بے سہا را بنانے کے لیے یہ بھی طے کیاگیا تھا کہ ان کی ما لی مددرُوکی جائے۔
(المنافقون آ یات نمبر7و8 سورہ توبہ آ یت نمبر107و108و109تفسیر ابن کثیر ج 4ص210 تا217)
پردیس میں تین طرح کے طاقتور دشمنوں سے مقابلہ کے لئے حضرت رسول اللہ ﷺنے مدینہ کے ارد گرد آ باد الگ الگ مذاہب کے ماننے والے مختلف قبائل سے باہم تعاون کے لئے معاہدہ فرمایا۔نیز اپنی دعوتی مہم کو برابر جاری رکھا،اسی کے ساتھ تعلیم پر انتہائی درجہ توجہ فرمائی۔حضرت رسول اللہ ﷺ نے مقامی اور پردیسی مسلمانوں میں مواخاۃ(بھائی چارہ کا رشتہ قائم) کرایا، زمین خرید کر عریشہ کی شکل میں مسجد نبوی کا مقدس جھونپڑا بنوایا۔ اور اس مسجد کے ایک حصے صفہ میں باہری غیر مقامی طلباء کی تعلیم کے لئے اقامتی مدرسہ(Residential School)قائم کیا۔
(سیرت ابن ہشام ج 1ص118تا204)
مقامی بچوں کے لئے مختلف گھروں کے علا وہ آ ٹھ مسجدوں میں اجتماعی تعلیم کا غیر اقامتی نظام
(Day schools) شروع فرمایا۔
(السنۃ قبل التدوین ص 299و خطبات بہا ول پور ص314 موضوع عہد نبوی میں نظام تعلیم محمدحمید اللہؒ)
معاصرضروریات کے پیش نظر غزوۂ بدر کے قیدیوں (کافروں) سے یہ طے ہوا کہ: جو ہمارے بچوں کو لکھنا،پڑھنا، اور جوڑنا، گھٹانا سکھا دے؛اس کی طرف سے فدیہ یہی خدمت ہو گی۔ (مسند احمد ج 1ص247)
یہ فدیہ چارہزار دراہم(4000) تھا۔ کان فداء اساری بدراربعۃ الاف۔ (طبقات ابن سعد ج2 ص22،سیرت ابن ھشام ج2 ص26)
(۱؎ ”عصری مدارس اور اسلامی ہدیا ت“ میں ہم نے فدیہ آ ٹھ ہزار دراہم لکھا ہے، اور اسی لحا ظ سے اس کی موجو دہ قیمت بیس لاکھ روپیے ہوتی ہے۔ لیکن وہاں مقدارِ فدیہ لکھنے میں غلطی ہوئی ہے۔میں اپنے مشفق ومکرم برادر بزرگوار حضرت مولانا محمد معظم صاحب قاسمی(دارالعلوم قاسمیہ،ملاڈ،ممبئی)کا ممنون و مشکور ہوں کہ حضرت والا نے اس سلسلے میں حوالہ طلب کیا تھا،حوالہ کی طرف مرا جعت کے بعد اپنی غلطی کی اصلا ح کا مجھے موقع مل گیا۔ فجزا ہ اللہ احسن الجزاء۔ اشرف)
جس کی قیمت اِس وقت2020ء میں دس لا کھ ہندوستانی روپے ہوتی ہے۔یعنی مسافرت اور فاقہ مستی کے عالم میں بھی آج کے دور کے لحاظ سے درجہ اول (1st standard)کے صرف دومضامین(Subjects) زبان(Language) اورریاضی(Mathematics)کے لئے ایک بچے پرایک لاکھ روپیہ خرچ کیا گیا۔ جب کہ اس وقت مسلمانوں کی حالت بہت ہی خستہ تھی۔ شاید ہی کوئی مسلم گھر ہو جو فا قہ مستی کی لذت سے نا آ شنا رہ گیا ہو، خو د شاہ کونینﷺکے گھر ہفتوں چولہا سلگنے کی نو بت نہیں آ تی تھی۔ لیکن ان سخت ترین حالات میں بھی آ پ ﷺنے مالی فدیہ پر تعلیمی فدیہ کو ترجیح دی۔گویا منصہ نبوتؐ سے یہ عملی اعلان ہے کہ علم جیسے گنج شائیگاں کا حصول بہر حال ضروری ہے۔چاہے اس کے لئے پیٹ کا ٹنے اور فا قہ برداشت کرنے کی ہی نوبت کیوں نہ آ جائے۔ حا لات کیسے ہی نا مسا عد ہوں، لیکن بچوں کی تعلیم کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہ کی جائے۔ اس طرح آ پ ﷺ نے مرغن کھانے،خوش پوشاکی، خوبصورت تعمیرات کے بجائے تبلیغ اور تعلیم پر پوری طرح توجہ فرمائی۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ صرف آ ٹھ سال کے قلیل عرصہ میں اسی مکہ میں جہاں سے بالکل بے سہارا ہوکر نکلنا پڑا تھا، فاتح بن کر پوری شان وشوکت کے ساتھ داخل ہوئے۔ اورعرب و عجم کی عظیم سلطنتیں بھی آ پ ﷺ کے سامنے سرنگوں ہو گئیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ مختلف قوموں سے مصالحت ومرافقت کی کوششوں کے ساتھ ہی دعوت وتبلیغ اور دینی ماحول میں معاصرعلوم کی تعلیم و تحصیل کتنی ضروری اور کس قدر مفید ہے۔
تعلیم کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے صرف مذ ہبی تعلیم ہی کو اہمیت دی ہو۔بلکہ اسلام علم کو قدیم وجدید، دینی ودنیا وی خا نوں میں با نٹتا ہی نہیں ہے۔ البتہ علم کونا فع اور غیر نا فع میں ضرور تقسیم کرتا ہے۔ آ پ ﷺ علم نافع کے لئے دعا کر تے اور علم غیر نا فع سے پناہ چاہتے تھے۔
(ترمذی،کتاب الدعوات، برقم الحدیث3482، ابواوود،کتاب الا ستعاذہ، برقم الحدیث1549)
اس اصول پر غور فر مائیے تو اکثر عصری علوم وفنون مثلاً طب، انجینئرنگ، قانون، ادب وصحا فت، تجا رت و معا شیات وغیرہ نا فع کی فہرست میں آتے ہیں۔یہ اور ان جیسے تمام علوم اسلام میں مطلوب ہیں اور ان کی حیثیت فر ض کفایہ کی ہے۔ اسلام نے کبھی علم و تحقیق سے عداوت نہیں رکھی؛بلکہ حکمت و دانائی کی بات کو مومن کی متاع گم گشتہ قرار دے کر(الترمذی، برقم الحدیث 2687) کا ئنات کی مخفی حقیقتوں میں غور و فکر اور تدبر کی لو گوں کولگا تا ر دعوت دیتا رہا ہے۔
قر آن نے اپنی سب سے پہلی ہدایت میں پڑھا ئی کے ساتھ اللہ کی عظمت وبزرگی اور خدائی احکام کی تعلیم کو لا زم قراردیا۔ قر آ ن کی اس ہدا یت اور خا تم الا نبیاؐ کی سنت کے مطا بق مسلمانوں نے انسا نیت کی خدمت کے لئے ہر علوم میں کمال حا صل کیا۔ حتی کہ حا ل ہی میں ما نچسٹر(Manchestor)سے ایک تحقیقی کتاب (1001 INVENTION:THE MUSLIM HERITAGE)شائع ہو ئی ہے۔ جس میں ثا بت کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں روز مرہ استعمال ہو نے والی ایک ہزار ایک اشیاء مسلمان سا ئنس دا نوں کی ایجا د ہیں۔
(پر فیسر انیس چشتی، رو زنامہ اردو ٹا ئمز ممبئی مو رخہ22ما رچ2007ء)
میدانِ عمل کے لحاظ سے اسلام خواتین کی تعلیم کا بھی بندوبست کرنے کی تا کید اور عملی نمو نہ پیش کرتا ہے۔ (بخا ری حدیث نمبر97،101،2406،3011، مسلم کتاب الایمان،ج 1ص20، مرقات ملا علی قاری، ج 1ص 79،دارمی برقم الحدیث3430)
زمانۂ نبوت میں خواتین کی تعلیم کے لیے دوسری خوا تین کی خدما ت حا صل کی گئیں۔ مثلا ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ کی تعلیم کے لیے سیدہ شفا بنت عبداللہ کی خدما ت حا صل کی گئیں۔حضور انور ﷺنے انہیں فرمایا کہ
:”جس طرح تم نے (معالجہ کے لیے)حفصہؓ کو جھاڑ پھونک کا طریقہ سکھا یا، انہیں لکھنا پڑھنا بھی سکھا دو۔“ (ابو داو،د کتاب الطب جلد2 ص97)
حضرت مو لا نا علی میاں ؒ نے ایک یو رپی ملک سے حضرت مو لانا محمد رابع ندوی دامت بر کاتہم کو ایک مکتوب میں یو رپی ملکوں میں معا صر علوم کے لئے غیرمخلوط اسلامی اقا متی ادارے قائم کرنے کا خیال ظاہر فر مایا تھااور امید ظاہر کی تھی کہ ہما رے ملکوں کو ایسے ہی اداروں سے مقتدا ء اور پیشوا مل سکتے ہیں۔ اگر اس طرح ہما رے ادا رے نہیں ہو ں گے تو پھر یہاں سے ملحد اور اسلام مخالف قا ئدین ہمار ے ملکوں کو ملیں گے۔ 1974ء کو اجین (ایم پی) میں وکیلوں کی ایک مجلس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا تھا۔ کہ تعلیمی معیا ر کی بلندی کے لحاظ سے یو رپی ملکوں کی طرح ہما رے اپنے اسلامی ادارے ہو نے چا ہئے۔ جو کسی بھی حا ل میں کنڈر گارڈن اور مشنری اسکولوں سے کم نہ ہوں۔ (خطبات1974ء اجین، مدھیہ پردیش، تحفۂ انسا نیت ص87)

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خا دم الا فتاء:مہد پور،
ضلع اجین ایم پی

19جون2020ء مطابق 26شوال المکرم 1441ھ
[email protected]

Comments are closed.