کہانی چھ سالہ بربادی کی !!  نوراللہ نور

کہانی چھ سالہ بربادی کی !!

نوراللہ نور

ہم اور ہمارا ملک آزادی کے بعد سے مسلسل مسائل سے دوچار ہے اور راحت کی سانس نہیں لی نسلی امتیاز و افتخار سے ہم دامن نہیں بچا سکے ذات پات ؛ بھید بھاؤ ؛ آستھاوں اور عبادت گاہوں کے نام پر خون ریزی کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا صنعت و حرفت میں کوئی نمایاں مقام نہیں کیونکہ کوئی اچھا لیڈر اور قاید ملا ہی نہیں ۔

 

اور غربت و ناداری ؛ بھکمری و مفلسی سے ہماری برسہا برس کی آشنائی ہے برسوں بعد بھی اس لعنت سے ہم اپنے آپ کو بچا نہیں سکے ہر شہر ہر قریہ ہر گلی میں ایک خستہ حال کاسہ برداشت ضرور مل جائے گا اس زبوں حالی کی بس ایک ہی وجہ ہے کہ یہاں کے سکوں پر بس اجارہ داروں کا تسلط ہے سرمایہ کاری اور بزنس بس ان کے حقوق ہیں ۔

 

مگر ہندوستان کی خوشقسمتی ہے کہ برسوں انتظار کے ان حالات سے نبرد آزما ہونے والا ؛ چھپن انچ سینے والا باہمت مسیحا مل گیا ہر مسائل اور کا حل نکالنے اور عوام کی خدمت کے لیے خود کو آگے کیا اور درپیش مسائل کے سیاہ بادل کو دور کرنے کا عزم کیا بے رنگ زندگی میں اچھے دن کے خواب دکھایا ۔۔

لوگوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اور برسر اقتدار لوگوں کو مسترد کرتے ہوئے عالی جناب کا خیر مقدم کیا ڈھیر ساری امیدیں وابستہ کرلیں اور کچھ تو حد سے تجاوز کرتے ہوئے” پتا شری "بھی مان لیا اس کی توضیح مناسب نہیں اس کا علم ہر ایک کو ہے خیر اپنی عقل و خرد کا جو جیسا استعمال کرے آپ کچھ نہیں کہ سکتے جب موصوف قدم رنجہ ہوے تو لاکھوں امیدوں کے محور تھے اور ایسا ماحول بن گیا کہ اب تو ساری کلفتیں یک لخت دور ہوجائیں گی کاش کہ اگر معاملہ ویسا ہی ہوتا جیسی امید تھی تو ہم ایک دوسرے ہندوستان میں ہوتے مگر ….

آیے تو بڑے جوش و انہماک کے ساتھ تھے مگر بد قسمتی کہیے یا پھر آمرانہ دور کی داغ بیل آتے ہی انہوں نے سب سے پہلا غیر ضروری اور نامناسب فیصلہ لیا جس کی وجہ سے سینکڑوں جانیں تلف ہوگئیں کیونکہ جو فیصلہ لیا تھا اس وقت کے لیے موزوں تھا ہی نہیں مگر لوگوں نے زخموں کی تکلیف سہی اور اچھی دن کی امید وابستہ کیے رہے کیونکہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔

مگر چونکہ ان کی منشاء ملک کی فلاح وبہبود نہیں تھی بلکہ اپنے اہداف تھے جس کے تکمیل کا واحد ذریعہ مسند تھا اور انہوں نے سبز باغ دکھا کر حاصل کیا اپنی روش پر قائم ہے اور پے درپے غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ فیصلوں کی بہتات کردی نسلی تعصب ؛ فرقہ واریت ظلم و استبداد کی وہ فضا قائم کی کہ ایک اچھے ہندوستان کے باقی ماندہ رمق بھی انہوں نے سلب کرلی اور ایسے ایسے زخم دیے کہ برسوں بعد بھی اس کی تکلیف باقی رہے گی ۔۔

انکا خدع و فریب سے پر سب سے پہلا دعویٰ تھا ” سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘” مگر یہ بری طرح فلاپ ہوا کیونکہ ساتھ تو سب کا تھا مگر وکاس صرف کچھ لوگوں کا ہی ہوا اور ان کے آتے ہی مذموم لنچنگ اور بھیڑ کے منصف بننے کا وہ قاعدہ شروع ہوا جس کے نذر ہزاروں جانیں ہوگیا اور ایک ایسا مذموم سلسلہ چل پڑا جس نے بلا تفریق قوم و مزہب ہزاروں کو اپنا شکار بنایا ۔

 

وہ مسیحائی کے مدعی ضرور تھے لیکن درحقیقت وہ آمرانہ نظام کو فروغ دینے والے ایجنڈ تھے اور اس کام کو انہوں نے بخوبی انجام دیا اور وہ قضیہ جس کا حل ان کے اسلاف نہ کرسکے زمام اقتدار کی قوت سے لمحہ بھر میں اس کو حل کردیا اور فرضی دعووں ؛ زر خرید ضمیر فروش ججوں کے ذریعہ بابری کو ایودھیا کی ملکیت ثابت کردی ۔۔

جب ان کے منصوبے بنا کسی خلل اور بندش بر آور ہونے لگے تو وہ اپنے اصلی رنگ و روپ دکھانے شروع کردیا جو درحقیقت برسوں پہلے ہی ظاہر ہوچکا تھا بھید بھاؤ کی وہ مسموم فضا بنائی کہ جس میں بہت سی جانیں گھٹ گئی اور ایک متنازعہ بل کے ذریعہ نہ صرف ایک طبقے کے لوگوں کے تشخص پر حملہ کیا بلکہ ہندو مسلم کارڈ کھیل کر دوست کو دوست کے خلاف بر سر پیکار کردیا ۔۔

یہ سب کارنامے تو ملک کو جہنم میں دھکیلنے کےلیے کافی تھی لیکن ان کو صبر نہیں ہوا تو وہ ان ڈراموں کے پس پشت اپنے قریبی دوستوں کے منفعت کے لیے اور ان کی تجارت کو چمکانے کے لیے ملک کی امانتوں کو فروخت کرنا شروع کردیا اور سب سے پہلے عظیم عمارت اور بزرگوں کی یاد گار عمارت لال قلعہ کو رہن رکھ دیا اور اس کے بعد تو ان کا حوصلہ مزید بڑھ گیا اور یکے بعد دیگرے چیزوں کو فروخت کا ایک سلسلہ چل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے جو بھی رمق باقی تھی سب کو داؤ پر لگا دیا اور ملک کو کنگال و قلاش بنا کر چھوڑ دیا یوں ہی نفرتوں بھید بھاؤ اونچ نیچ ؛ خساروں اور ناکامیوں کے ساتھ پانچ سال مکمل ہوگئے لیکن ملک اب بھی وہیں پر تھا جہاں سے مودی جی سفر کا آغاز کیا تھا ۔۔

جب پانچ سال کی تکمیل ہوئی اور اور انتخابات کا وقت آیا تو راحت ہوی کہ ان جعلی ناخداووں اور ڈھونگی حکمرانوں سے نجات ملے گی مگر حیف ایسا کچھ نہیں ہوا یہاں کی عوام نے ایک بار پھر پانچ سو اپنے پانچ سال کا سودا کر لیا اور ان لٹیروں نے پھر سے کرسی سنبھال لی دوسرے ٹرم میں بھی کچھ خاص تبدیلی نہیں ہے بلکہ وہ اب بھی وہ اپنی کج روی پر دایم ہے ۔

ابھی ان مصیبتوں کا ازالہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک نئی آفت نے ہمیں آدبوچا موذی وبا نے ہر طرف موت کا سایہ دراز کردیا اور تاہنوز جاری ہے ایسے وقت بھی ان لٹیروں کو مافات کی تلافی کا موقع تھا اور عوام کو اپنے زخموں کے حساب لینے کا موقع تھا مگر یہ سارے مواقع تالی اور تھالی کے شور میں ہوا ہوگیے اور دیا موم بتی کا وہ ڈرامہ رچا کہ لوگ اپنی تاریک مستقبل سے بے خبر ہوگیے اور راحت پیکیج آیا تو ضرور مگر کدھر گیا اور کس کو ملا کچھ پتہ نہیں ۔۔

چھ سال میں ملک توانائی تو حاصل نہ کرسکا مگر کمزور ضرور ہوگیا معاشی ؛ اقتصادی ؛ تجارتی انحطاط کی ایسی ہوا چلی ہیکہ پردھان منتری جی لاغر ہوگیے اور اتنے لاغر ہوئے کہ دوسرا ملک دراندازی کرکے ہمارے سپاہیوں کو شہید کر کے چلا جاتاہے اور موصوف صرف مصنوعات کے بایکاٹ کے علاوہ ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے پڑوسی ملک نیپال جس کو ہم اعدادوشمار میں بھی نہیں لاتے وہ ہمیں آنکھ دکھا رہا ہے ہم اس قدر کھوکھلے ہیں اور ہماری ساکھ کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ ہم نہ آگے بڑھ سکتے اور نہ پیچھے ہٹنے کی راہ ہے یہ تو ان کی ناکامیوں اور بربادیوں کی ایک جھلکی ہے اور بھی مزید کارنامے ہیں جن کو ذکر کرکے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اس لیے بس …..

Comments are closed.