” خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں ” نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ وبالا

✒️: عین الحق امینی قاسمی

مرشد گرامی قدر امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم بے باک وحوصلہ مندقا ئد ورہنما ہیں اور یہ چیز ان کی خاندانی ہے ،وراثتاً اُن کو ملی ہے ،جب نہرو جی گئے تھے مونگیراور قطب عالم کے سامنے مذہب ا سلام کی تعریف کر اُن کے دل میں جگہ بنانے اور قربت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ،تب ان کے دادا قطب عالم مولانا سید محمد علی مونگیری نے انہیں ان کے منھ پر لاجواب کردیا تھا اور کہا : تو پھر آپ نے ابھی تک اسلا م قبول نہیں کیا ؟گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہ تھا حضرت قطب عالم ؒخفا ہو گئے اور فرمایا کہ آپ نے جو کچھ کہا غلط ہے ،آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں،صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لئے اُنہی کی بولیاں بولا کرتا ہے ۔
اُن کے والد قطب زماں ،امیر شریعت مولانا سید منت للہ صاحب رحمانی نے ایک بار وزیر اعظم ہند چند شیکھر آزاد سے کہا ”جذبات کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ہم کہاں کہاں جذبات کا احترام کریں گے۔ طاقت ور فریق کو کمزور فریق کے جذبات کا زیادہ خیال ہونا چاہئے، کمزور فریق سے جذبات کے احترام کا مطالبہ کرنے کامطلب اسے جبر اور طاقت کے سامنے جھکنے پر مجبورکرنا ہے، ایک مسلمان اپنے خدا کے آگے جھکنے کے سوا اور کسی کے سامنے جھکنا گوارہ نہیں کر سکتا۔“
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی۔
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
بابری مسجد کے سلسلے میں بورڈکا ایک وفد جب وزیر اعظم سے ملا اور بورڈ کے موقف کی وضاحت اور صراحت کی تو درمیان گفتگو وزیر اعظم ہند نے ایک مہمل سا جملہ کہتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ:”ہندوﺅں اور مسلمانوں دونوںنے ایک ہی بھنگ کے کنویں سے پانی پی لیا ہے۔“حضرت امیر شریعت ؒکی ایمانی جراءت، حمیت اور غیرت و بے باکی نے فوراً وزیر اعظم کو نہایت بے خوفی سے تیکھے لہجے میں وزیراعظم کے چہرے کی طرف اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے پوچھا، ”حکومت نے تو بھنگ کے کنویں سے پانی نہیں پیا ہے وہ کیوں اپنے فرض سے غافل ہے؟“
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز ۔
یہی ہے رخت سفر، میر کارواں کے لیے
حکومتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا انہیں خوب آتا تھا اوران کے سامنے ملت کے مسائل رکھنے میں حکومت کا جلوہ کبھی آپ کے لئے آڑے نہیں آسکا ۔
موجودہ سجادہ نشیں ،امیر محترم بھی اُنہیں خاندانی وراثت کے امین ہیں ،باتوں کو دلیل اور سلیقہ سے رکھنے میں منفرد شناخت کے مالک ہیں ،اصلاحی مرحلوں میں بھی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ رکھتے ہیں جس کی طرف ہمارا آپ کا ذہن عموماً نہیں جاتا ۔
تقریروں میں عام مقررین کا انداز چینخ چلاکر وقت کو لپیٹ دینا ہوتا ہے ،چاہے وقت اور حالات ،کی گئی تقریر کے لئے غیر مناسب ہی کیوں نہ ہوں ،مگر حضرت کے یہاں کمال یہ ہے کہ آپ گھن ،گرج سے پاک بالکل سادے انداز میں علم وعمل اور روحانیت بھری گفتگو فرماتے ہیں ، چاہے موضوع جو بھی ہو ،سامعین کوقلبی طورپریہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ حضرت کی بات وقت حالات کے مطابق ہوئی ہے اور انہوں نے بروقت غیر معمولی رہنمائی فرمائی ہے ، مثلاً ایک مرتبہ اصلاح معاشرہ کے ایک جلسے میں آپ تشریف لائے تو منتظمین سے پوچھا کہ پنڈال کے لیے بجلی کس(میٹر) سے لی ہے ؟ ارباب انتظا
نے دبی زبان کے ساتھ بتایا کہ سامنے کھم بے سے بجلی لی گئی ہے ،حضرت نے فرمایاصاف کیوں نہیں کہتے کہ چوری کی بجلی استعمال کی جارہی ہے۔ کیا ایسے اسٹیج سے آپ چاہتے ہیں کہ میں اصلاح معاشرہ کے موضوع پر تقریر کروں ؟ لوگ ایک دوسرے کی نظر سے چھپنے لگے،کسی نے کہہ دیاکہ غیر مسلم بھی اپنے مذہبی پروگرام میں بجلی کا نظم اسی طرح کرتے ہیں اور عام طور پراس موقع سے ایسا ہی ہوتاہے، حضرت نے فرمایا: قرآن کریم میں اللہ نے آپ کو ” خیر امت“ کہا ہے،آپ کو نمونہ بناکر بھیجا ہے، غیر مسلم اس آیت کے مخاطب نہیں ہیں۔ ا سی طرح آپ کی تقریر صرف خانہ پوری کے جذبے سے نہیں ہوتی ،بلکہ اپنے بیانوں میں بعض ایسے سماجی اور معاشرتی مسائل کو بھی اٹھاتے ہیں جس میں بعض لوگ برسہا برس الجھ کر اپنی زندگی تباہ کر چکے ہوتے ہیں، مثلاً زمین کے مسئلے،نکاح ،طلاق سے پیدہ شدہ گھریلو مسئلے اورخاندانی جھگڑے وغیرہ کو آپ نہایت دلچسپی سے سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،اس عاجز نے حضرت کے حوالے سے بہار کے متعدد اضلاع کی رپورٹ پڑھی ہے ،بلکہ خود بیگوسراے کا ایک بھیانک واقعہ جس میں یہ عاجز بھی چند منتخب احباب کے ساتھ گھنٹوں جاری صلح کی ایک مجلس میں شریک رہا اور حضرت صاحب فون سے مسلسل ہدایت فرماتے رہے۔امیر شریعت دامت برکاتہم لوگوں کا ذہن اس طرح بناتے ہیں کہ وہ سچ مچ اپنے بھائی کے نقصان کو اپنا ذاتی نقصان سمجھنے لگتا ہے اور اپنے قدیم سے قدیم دشمن تک سے برملا گلے مل کر نہ صرف معافی کا خواستگار ہوتا ہے بلکہ اپنا نقصان سہہ کر بھی بھائی کو خوش کرنے اور اسے راضی کرنے پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے ،اس طرح سے وہ اللہ کی نگاہ میں بھی اور اپنے علاقے میں بھی معزز کہلانے کا حقدار بن جاتا ہے
ان کےسامنے چاہے کوئی بھی ہو وہ صاف صاف بات کرنا جانتے ہیں،نہ چبا چبا کر گفتگو کے عادی ہیں اور نا ہی تیز رفتا ر ایسی تقریر کہ کچھ توسمجھنے سے رہے اور جوسمجھ لےوہ آدھی غلط سمجھے۔
ذرادمداربلکہ رعبدار لہجے میں گفتگو سے سیاسی گلیاروں میں بھی آپ کی الگ ہی شناخت ہے ،بہت سی دفعہ میڈیا والوں کی بھی اچھی خاصی کھینچائی ہوجاتی کبھی کبھی تو حساس موضوع پر میڈیا ئی لوگ بھی سبھوں سے الگ آپ کا انٹر ویو کرتے ہیں اور اپنے انٹر ویو میںاپنی بات آپ کی زبا ن سے کہلوانا چاہتے ہیں ،مگر حاضر جوابی کی قوت سے وہ لوگ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اور اگر مگر کے ساتھ اپنی ساکھ بچانے اور صحافت کو داؤ پرلگاتے نظر آتے ہیں۔ ایک مرتبہ اپنے کسی بیان میں آپ نے کہا کہ کلمہ طیبہ بہت چھوٹا سا کلمہ ہے ،مگر اس کے پڑھ لینے سے آدمی جنتی اور نہ پڑھنے سے جہنمی ہوجا تا ہے ، میڈیا کے بعض لوگوں کی عادت ہے بال کی کھا نکالنا ،چنانچہ اس نے حضرت سے اس موضوع پرمزید وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ آپ حضرات تو ذہین ہوتے ہیں ،میں نہیں سمجھتا ہوں کہ آپ کی سمجھ سے اوپر کی کوئی بات میں نے کہہ دی ہے۔حضرت نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اتنا چھوٹا سا آئیڈینٹی کارڈ ،نہیں ہوتا ہے تو آپ لوگ بنگلہ دیش دھکیلنے کی ابھیان چلادیتے ہیں کہ یہ اس ملک کا باشندہ نہیں ہے ،جب اتنے سے کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ملک بدر کیا جاسکتا ہے تو اتنا ساکلمہ نہ ہونے کی وجہ سے جہنم میں دھکیلا جانا کوئی نامناسب بات تو نہیں ہے۔
زندگی میں میں نہ جانے کتنی بار پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے سوالوں کا جواب دینے کی نوبت آئی ہوگی ،جب آپ پریس کانفرنس میں بولتے ہیں تو الکٹرانک میڈیا اس طرح گوش بردار ہوکر آپ کے ایک ایک جملے کو لیتا ہے جیسے ملک کا وزیر اعظم ” من کی بات “کررہا ہو۔ایک دفعہ غالباًپریس کلب نیو دہلی میں بابری مسجد کے کسی شق پر،پر یس کانفرنس کی مجلس جمی تھی ،جس میں تما م مسلم تنظیموں کے رہنما موجود تھے ،آپ نے اپنی باتوں کے درمیان میڈیا کی دوغلی پالیسی پر سخت برہم ہوئے اور ذرا زور دار لہجے میں اطمینان سے کہا ” لا ت جو توں کی ضرورت ہے“ اتنا سننا تھا کہ اُن میڈیائی وں پر جیسے بجلی گر گئی ہو ،اس روز تمام چینلوں پر پریس کانفرنس کی باتوں کو نظر انداز کربس صرف ایک یہی جملہ سارا دن چلتا رہا کہ ” مولانا محمد ولی رحمانی نے بھرے مجمع میں لات جوتوں کی بات کہی ہے اور لات جوتوں تک کی بات کہہ دی ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری نے آج ہی ایک پریس کانفرنس میں یہ بات کہی ہے کہ لات جوتوں کی ضرورت ہے “ وغیرہ وغیرہ ۔میڈیا کی پوری لابی بری طرح بوکھلاگئی تھی ،بلکہ بعض ا ینکروں کو تو یہاں تک کہتے سنا گیا کہ اُن پر ہتک عزت کا مقدمہ بنتا ہے ۔ مگر مولانا رحمانی پر کوئی فرق نہیں پڑا بات آئی گئی ہوگئی،وہ اسی طرح آج بھی بڑے بڑے منسٹروں کو اپنی بات سے قائل کرلینے کے عادی ہیں ،غالباً 94/ 95ءکی بات ہے، ایک موقع پر جب سنٹرل گورمنٹ کی طرف سے نیا وقف ایکٹ بنانے کی کوشش ہورہی تھی تب سیتا رام کیسری کیبنٹ وزیر تھے،انہوں نے ایک دفعہ مولانا رحمانی سے سوال کیا کہ آخر مسلم تنظیموں کو حکومت پر اعتماد کیوں نہیں ہے ؟حضرت نے عرض کیا : ”کوئی گدھا مسلمان ہی آپ کی حکومت پر اعتماد کرسکتا ہے ،جب آپ وقف ایکٹ مسلم تنظیموں کی مدد سے نہیں بنا سکتے جو سوفیصد
مسلمانوں کے فائدے اور مسلمانوں کی اجتماعی جائداد کا مذہبی معاملہ ہے ، تو پھر آپ کیوں امید کرتے ہیں کہ آپ کی حکومت کے عام معاملات پر کوئی سمجھدار مسلمان عمل کرے “ اسی طرح سے دیگر بہت سی قانونی اور سماجی باتوں کے بعد کیسری جی نے اپنے انداز میں کہا تمری بات میں دم ہے اور اپنے آئی ایس افسر سے کہا :دیکھو یہ سو وکیل کا ایک وکیل ہے ،اس سے سکنا مشکل ہے۔
ابھی کل کی بات ہے جب ملک میں سی اے اے اور این آر سی کی شاہین باغ تحریک چل رہی تھی ،تب قومی سلامتی کے مشیر اور مرکزی وزیر اجیت ڈوبھال نے اپنی رہائش پر ایک پروگرام سد بھاؤنا کے نام پر رکھا تھا،جس میں مختلف رہنماؤں کو انہوں نے جمع کیا ،بہت سے لوگ گئے بھی تھے،انہیں کھلایا پلایا اور جو کہلوانا تھا کہلوایا ،مگر جب اس نے حضرت رحمانی کو اس میں شرکت کے لئے فون کیا تو آپ نے کیا جواب دیا ،جناب نصر اللہ خان مالیگاؤں کی رپورٹ بھی پڑھ جائیے:
”سدبھاونا کے عنوان پر بلائی جانے والی میٹنگ میں شرکت سے انکار۔مولانا محمد ولی رحمانی نے حکومت کو دکھایا آئینہ*
سدبھاونا کہ نام پر مرکزی حکومت کے ذمہ داران اور آر ایس ایس کے نمائندوں کی سر کردہ مسلم رہنماو¿ں اوردانشوران قوم و ملت سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے اور یک طرفہ طریقے پر صرف مسلمانوں سے امن و امان کو قائم رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے،اسی درمیان گزشتہ کل امیر شریعت حضرت مولانامحمد ولی رحمانی صاحب سے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی طرف سے ٹیلیفون پر گفتگو کی گئی اور سد بھاو¿نا کے نام پربلائی گئی میٹنگ میں شرکت اور کھانے کی دعوت بھی دی گئی، جس پر حضرت مولانامحمد ولی رحمانی نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے شرکت کرنے سے انکار کیا، البتہ ا نہوں نے پوری جرات مندی سے سدبھاونا کے نام پر کی جانے والی کوششوں کے تناظر میں حکومت کے ذمہ داران کو آئینہ دکھایا اور کہا کہ میں میٹنگ میں تو شرکت نہیں کرپاوں گا،لیکن ایک طرف سد بھاو¿نا کے نام پر سرکردہ مسلم رہنماوں سے ملاقات کی جارہی ہے اور انہیں میٹنگوں میں شریک کیاجارہا ہے اور دوسری طرف خود اجیت ڈوبھال صاحب کے مشورہ پر سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، جس میں مذہب کے نام پر بھید بھاؤ کی گئی ہے،سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل میں یہ بات لکھی ہے کہ جوہندو ،سکھ،پارسی،عیسائی،اوربدھسٹ ملک میں آئے ہیں،انہیں ضروری کارروائی کے بعد ملک کی شہریت دی جائےگی،اس فہرست میں مسلمانوں کا نام موجود نہیں ہے ،کیا مذہب کے نام پر یہ کھلا ہوا بھید بھاو¿نہیں ہے؟اور جب گورنمنٹ خود مذہب کے نام پر بھید بھاو کرہی ہے تو پھر سد بھاونا پر میٹنگ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کا یہ اقدام و عمل اور گورنمنٹ سے یہ جراتمندانہ سوال حوصلہ افزا اور خوش آئند ہے،اور اس سے ان لوگوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے جو حکومت کے سد بھاونا مشن کے نام پر استعمال ہورہے ہیں،اور ملت کے بنیادی معاملات و مسائل پر سوال اٹھانے کے بجائے حکومت کے اشارے کے مطابق قدم آگے بڑھا رہے ہیں ۔
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صدسالہ اجلاس کے موقع پر آپ نے کہا :یاد رکھئے ! ہمیں اپنا حق لینا ہوگا ،بلکہ اس ملک میں ہمیں اپنا حق چھیننا ہوگا ،اور اس کے لئے ہمیں جان ومال کی قربانی پیش کرنی ہوگی ،کامیابی اور سرفرازی ہمیں تحفے میں نہیں ملنے والی ہے ،جہاں پیمانہ الگ الگ ہو ں وہاں جہد مسلسل اور جرئت رندانہ کے بغیر کام نہیں چلا کرتا ،ابھی کل کی بات ہے ،ایک افسر نے مجھ سے کہا ،مولانا صاحب! ہم زمین کے لئے گولی تو نہیں چلا سکتے ،میں نے کہا بات تو بالکل صحیح ہے آپ کی ،آپ کی گولیاں تو بھجن پورہ کے مسلمانوں کے لئے ہیں ،آپ کی گولیاں تو نوادہ کی مسجد کے لئے ہیں، زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے لئے نہیں ،گولیاں کھانا تو پیدائشی حق ہمارا ہے ،ان کا نہیں جو قانون توڑتے ہیں ۔
حضرت مولانا محمد ولی رحمانی اس عظیم خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جس نے مختلف نازک مرحلوں میں ملت اسلامیہ کی بروقت رہنمائی کی خدمت انجام دی ہے،اورحکومتوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے دباؤ کو قبول کئے بغیر حق بات کا ہمیشہ اظہار کیا ہے۔ان کے حالیہ اقدام نے ایک مرتبہ پھر ان کے عظیم خانوادے کی گزری ہوئی روایات کو زندہ اور تابندہ کیا ہے۔
*معہد عائشہ الصدیقہ ،رحمانی نگر ،کھاتوپور،بیگوسرائے
…………………………………………..

Comments are closed.