منظوم خراج عقیدت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ ،پٹنہ

مولانا محمد انوار الحق داؤدقاسمی متخلص نادمؔ مدھورا پوری حال استاذ مدرسہ عبد اللہ بن مسعود حید رآبادتلنگانہ اچھے مدرس اور بہترین شاعر و ادیب ہیں، علوم متداولہ کی تدریس کے ساتھ ادب کی مشاطگی کا فن اور ہنر انہیں آتا ہے، میری ملاقات ان سے دورطالب علمی کی ہے، جب وہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجوپٹی سیتا مڑھی میں پڑھتے تھے اور میں ان دنوں سالانہ اور ششماہی امتحان کے موقع سے بحیثیت ممتحن وہاں مدعو ہوا کرتا تھا، مجھے یاد نہیں ؛لیکن مولانا خود ہی بتاتے ہیں کہ میں نے ان کا امتحان وہاں لیا ہے،اب تو اساتذہ کو بھی لوگ بھول جاتے ہیں ،ممتحن کو کون یاد رکھتا ہے، میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ان لوگوں کا امتحان لیا ہے جو آج ملک و بیرون ملک میں اونچے عہدوں پر فائز ہیں اوردینی ،تدریسی ،ملی اور مذہبی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہیں ملتے ہیں تو محبت سے ملتے ہیں ،استاذ کی طرح اکرام واحترام کرتے ہیں اور میں کیف وسرور میں ڈوب جاتا ہوں، یہاں پر مجھے اس اقرار میں ذرہ برابر تأمل نہیں کہ میرے شاگردوں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے؛جن کا میں نے مختلف مدارس مثلاََ الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنھواں سیتا مڑھی ،مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجوپٹی سیتامڑھی،مدرسہ محمودالعلوم دملہ مدھوبنی وغیرہ میں امتحان لے کر ان کی حوصلہ افزائی کی اور آج وہ زندگی کی شاہ راہ پر اس قدر تیز دوڑ رہے ہیں کہ انہوں نے مجھے پیچھے چھوڑ دیاہے، اس سُبک رو کے بارے میں جب امتحان کا تذکرہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یک بیک میں اونچا ہوگیا ہوں ؛حالانکہ اس اونچائی میں ان طلبہ کی صلاحیتیں بھی شامل ہوتی ہیں؛جنہوں نے میرے سامنے اپنی طالب علمانہ صلاحیتوں کوکبھی رکھا تھا۔
تمہید لمبی ہوگئی، گفتگو مولانا محمد انوار الحق قاسمی کے اس منظوم خراج عقیدت پر کرنی تھی جو انہوں نے حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری ؒ کی وفات حسرت آیات پرعزیزم محمد نظرالہدیٰ قاسمی کی تحریک پر پیش کیا ہے، حضرت کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ شعراء اور نثر نگاروں کے قلم اب تک خون کے آنسو رورہے ہیں، حضرت مفتی صاحب کے انتقال پر بہت سے مرثیے کہے گئے، اس وقت وہ سب کے سب میرے سامنے نہیں کہ ان کا موازنہ کرکے بتاؤں کہ اثر آفرینی کے اعتبار سے کون سب سے بڑھا ہوا ہے اور فنی اعتبار سے کس کا مقام اونچا ہے،اتنی بات ضرور ہے ’’ ہر گُلے را رنگ وبوئے دیگراست‘‘ بلکہ میں تو یہ کہا کرتا ہوں کہ آہ و کراہ کے لئے کسی خاص رنگ و آہنگ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، جدائیگی کا غم جب آہ و کراہ کی صورت میں نکلتا ہے تو اس کا اثر قلب ودماغ پر پڑتاہی ہے،غم میں ہیئت کی پاسداری اور الفاظ کے انتخاب کابھی کِسے یاراہوتا ہے، غم لامتناہی ہوتا ہے اور الفاظ ہمیشہ محدود اور متناہی۔
مولانا محمد انوارالحق داؤدقاسمی نے حضرت مفتی سعید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر لکھے گئے اشعار کو ’’منظوم خراج عقیدت ‘‘قرار دیا ہے، یہ اصلاََ حضرت کی صرف پچیس (۲۵)اشعارپر مشتمل منظوم سوانح ہے، جس میں انہوں نے حضرت کی پوری زندگی ،ان کے اساتذہ ،ان کے تدریسی میدان عمل ،ان کی علمی خصوصیات ،ان کی فکری ،فنی اپروچ ،فکردیوبند کی آبیاری، اہل سنت کی ترجمانی،علوم قاسم کی پاسبانی ،اداے دلبری ،نوائے خوش تری ،فن تحقیق کی شناوری ،رموز واسرار دین کی دیدہ وری،ان کی حدیث فہمی ،ان کے فیض علمی اور علم ولی اللٰہی کی عقدہ کشائی سبھی کچھ کو مختصر میںدریا بکوزہ کے مصداق سمودیاہے،انہوں نے سعید ملت کی داستان حیات اور حسین یادوں کے بیتے لمحات کی روداد سنا کر تسکین قلب وجان کا سامان پیدا کیا ہے، منظوم سوانح میں ناموں کی کھتونی کی وجہ سے شاعری کبھی کبھی اوزان کی پابندی کے ساتھ تُک بندی بن جاتی ہے، جس میں فکر کی ندرت اور تخیل کی رفعت کی تلاش بے سود ہوتی ہے، مجھے خوشی ہے کہ مولانا انوارالحق داؤد نے ناموں کے نظم کرنے کے ساتھ رفعت تخیل کابھی خیال رکھا ہے، اس طرح اس منظوم خراج عقیدت میں شاعری کے محاسن بھی ہیں اور حقیقت کابیان بھی،ہندوستان میں منظوم سوانح اور مقالہ کی بنیاد میرے علم کی حد تک پرو فیسر ڈاکٹر حافظ عبدالمنان طرزی دربھنگہ نے ڈالی تھی، ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں اسی انداز واسلوب میں ہیں ،اور مقبول ہیں’’رفتگاںقائماں‘‘ سے انہوں نے جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اس قدر دراز ہو گیاکہ اب ان کی ساری کتابوں کا نام یاد رکھنا بھی مشکل ہو تاہے،میرا خیال ہے کہ مولانامحمد انوارالحق داؤد کایہ خراج عقیدت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ان کی قائم کردہ روایات
کوتسلسل بخش رہا ہے،بعض جگہوں پر اشعار میں تعبیر کا سقم کھٹکتا ہے،جیسے ایک مصرعہ ہے ’’حسین یادوں کے بیتے لمحے سنا کر تسکین پا رہا ہوں ‘‘بیتے لمحے سنانے کی تعبیرغیر مستعمل ہے ،بیتے لمحے آنی ہیں ،وہ ہماری دسترس سے باہر ہیں،اس لئے بیتے لمحوںکا تذکرہ کیا جاسکتا ہے اس کی روداد سنائی جا سکتی ہے،بیتے لمحے سنانے کی بات صحیح نہیں ہے،اسی طرح ایک مصرعہ ہے ’’ہر ایک کی خوبی جھلک رہی تھی سعید احمد کی زندگی پر‘‘ زندگی پر خوبیوں کے جھلکنے کے بجائے زندگی میں خوبیوں کا جھلکنا یعنی پایا جانا زیادہ فصیح ہے،یعنی ’’پر ‘‘کے بجائے ’’مِیں‘‘ کا استعمال میرے خیال میں ہونا چاہئے تھا،’’پر‘‘سطح کو بتاتا ہے اور ’’میں‘‘داخلی امور کو ،داخلیت ،سطحیت کے مقابل ہر اعتبار سے فائق ہے،اس لئے مقام مدح میں داخلیت کو واضح کرنے والے الفاظ زیادہ اچھی ترجمانی کر سکتے ہیں،ایسے موقع سے شعراء ضرورت شعری کا حوالہ دیا کرتے ہیں ،میرے نزدیک یہ شاعر کا عجز ہے ،جس کے لئے یہ حسین الفاط وضع کر لئے گئے ہیں،مولانا محمد انوارلحق داوٗد کی شاعری میں عجز بیان نہیں ہے ،ان کے اشعار ان کی قادرالکلامی ،برجستگی ،ذہن رسا ، تخیل کی رفعت اور فکر کی ندرت کی بین دلیل ہیں،پھر یہ محاورتی جھول کیوں آیا؟اس کی وجہ توجہ کی کمی ہے جو جذبات کی فراوانی اور خیالات کی برجستگی میں کہیں کھو کر رہ گئی ہے، میں اس اہم منظوم خراج عقیدت پر موصوف کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کی ترقئی درجات کے لیے دعاگوہوں،اللہ کرے ان کا یہ ادبی سفر دوسری مشغولیات کے ساتھ جاری رہ سکے۔

Comments are closed.