کشمیر یہ لب بستگی کیسی ؟ نوراللہ نور

کشمیر یہ لب بستگی کیسی ؟
نوراللہ نور
لفظ جنت کا تلفظ ہوتے ہی اس کی رعنائیاں؛ دل آویزیاں؛ پرفریب وادیاں آسایش و آسانیاں؛ حور و قصور کی رنگینیاں اور دل کو گرویدہ کر لینے حسین و پر کشش نظارے کا تخیل و تصور نگاہوں کے پر دے پر جھلملانے لگتا ہے خدا نے ہو بہو اسی طرح ہم ہندوستان کے لوگوں کو ایک بہشت تحفہ میں دے ہے لیکن یہ ارضی جنت اور اس دایمی فردوس میں بہت فرق ہے کیونکہ جنت ارضی تمام صفات کے باوجود ازل سے ہی دو بھائیوں کے درمیان وجہ معارضہ و مناقشہ رہی اور وہ اس کی رعنائی پراس قدر فریفتہ ہے کہ صدیوں سے دست و گریباں ہیں ان کے ذاتی عناد کی وجہ سے وہاں کے مکیں نے کبھی سکون کا منھ تک نہیں دیکھا بہشت کی ساری ساز و سامانیوں کے باوجود اپنی رونق بحال نہیں کرسکا وہاں شیریں اور تشنگی کافور کرنے والے چشمے تو ہیں لیکن وہاں اس سے متصل خون کی ندیاں بھی بہتی ہے وہاں بسنے والے جنت کے مکیں نہیں بلکہ خوف و ہراس کے مکیں ہیں اس حسینگھاٹی پر مزید ظلم یہ ہیکہ لوگ اس کے خوش ذائقہ میوہ جات سے لذت اور تقویت حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس اجاڑ کر پھینکنے کے در پر ہوتے ہیں اور جب وہاں کے لوگ اپنی وجود کی خاطر مخاصمت و مجادلت پر آتے ہیں تو ان کو متشدد اور پتھر باز کہا جاتا ہے ۔
یہ کوئی نیی داستان نہیں ہے بلکہ ایک عرصہ دراز سے اس خطے پر جا ری ظلم و بر بریت ؛ تحکمیت ؛ آمریت ؛ کی حقیقت پزیر کہانی ہے وہاں پر بسنے والے ہمہ شما کے سر پر ہمہ وقت موت منڈلاتی رہتی ہے اور بازاروں میں کفن انکے منتظر رہتے ہیں یہاں مکاں بسنے کے لیے نہیں بلکہ جلنے اور اجڑنے کے لئے تعمیر ہوتے ہیں یہاں دوشیزایں رونق خانہ نہیں بلکہ اپنے جوانوں کی لاش پر نوحہ کرنے کے لئے ہیں کھلی فضا میں سانس لینا ان کا حق نہیں بلکہ قید و بند ان کا مقدر ہے یہاں پر ہیرے موتی کی بہتات ہے گر سلیقہ مندی سے تراشے جاے لیکن ان کی تقدیر میں پتھر ہیں اسکول اور کالج نہیں ۔
کیا انسانوں کی بستی پر یہ وحشیانہ سلوک روا ہے ؟ آخر ایک حسین و جمیل اور ذر خیز خطہ جس نے ملک کے حسن میں اضافہ کردیا جس کی پر لطف فضاؤں نے ایک ارضی جنت کا احساس دلایا ہو اسکے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں روا رکھا گیا ہے ذاتی عناد کی وجہ سے اس خوبصورت گھاٹی کو جہنم کیوں بنایا جارہا ہے؟ اس کے پر فریب فضاؤں میں زغفرانیت کے زہر کی آمیزش کیوں کر کی جارہی ہے ؟ جب سارے انسان انسانیت میں مساوی و یکساں ہیں تو وہاں کے باسیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیسے موزوں ہے ؟ آخر اس درندگی پر لب بستگی اور ہر طرف سناٹا کیوں ہے ؟
انصاف کے لیے بڑے بڑے اداروں کا قیام عمل میں آیا جہاں ہر ایک کی فریاد رسی کی جاتی ہے ظالم اپنے کرتوت کی وجہ سے سزا یافت ہوتے ہیں یہاں ہر ایک کے حقوق کے تحفظ و بقا کے لئے بڑی بڑی تنظیمیں اور بڑی بڑی این جی او ہیں جو انسان سے لیکر تمام حشرات الارض کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور بہت متحرک اور فعال بھی ہیں اتنے چاق و چوبند کے ایک چیونٹی کو بھی خراش آجائے تو چراغ پا ہو جائے لیکن ملک کا وہ خطہ جو ایک صدی سے نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے انہیں نظر نہیں آتا ایک ہاتھی کی موت پر مشتعل ہونے والے کو روز اپنی زندگی سے ہارنے والے کی موت پر شکن بھی نہیں آتا ہے ان کے دربار میں جان بے جان سب کی فریاد رسی ہوتی ہے لیکن ایک طویل مدت سے بنت حوا ان سے فریاد کر رہی ہے اپنی عفت و عصمت کی دہائی دے رہی ہیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی بڑے بڑے اداروں میں مسند نشین منصف کا نام نہاد لبادہ اوڑھے کبھی اس ظلم پر اپنا تبادلۂ خیال نہیں کرتے دنیا کو پیس فل اور امن و امان کی جا بنانے کے لئے کوشاں لوگ اس حسین وادی کے ماتم کدہ ہونے پر لب پر مہریں کیوں لگا رکھی ہے بے ؟ بے زبانوں کے حقوق کے لیے شاہراہوں کو مقفل کرنے والی تنظیمیں اس انسانیت کشی پر کیوں خاموش ہیں ؟ بے جانوں کی موت پر اشکبار ہونے والے انسانیت کے جنازے پر کیوں محض تماشا بین ہے ؟ اداروں کے زعماء جو ہر مسلے پر گفت و شنید کرتے ہیں اور اس کا حل نکالتے ہیں اور آخر اس کا حل کب نکالیں گے ؟ ہر معاملے پر علم بغاوت بلند کرنے والے اس سفاکیت اور درندگی پر لب بستہ کیوں کھڑے ہوکر تماشائی ہیں ۔
انسانیت کے علمبرداروں آپ کے نظروں سے سوشل میڈیا پر گشت کر رہی وہ تصویر ضرور گزری ہوگی جس میں ایک معصوم اپنے اس دادا کے بیدار ہونے کا منتظر ہیں جس کو نکمیفوج نے اپنی تشدد کا نشانہ بنایا آخر اس میں ضعیف کیا گناہ تھا جس کی سزا اس کے معصوم پوتے کو دی گئی کیا اس جنت میں رہنے کی یہی قیمت ہے ؟ اور اگر یہی قیمت ہے تو یہ قیمت کس نے لگائی اور کیوں ؟
دن رات انسانیت کی مالا جپنے والوں آپ اتنے رحم دل اور دریا دل ہو کہ کتا بلی تک کے حقوق کا خیال کرتے ہو ان کے موت پر بے جا تماشہ کرتے ہو لیکن عرصۂ دراز سے جل رہے کشمیر ؛ یتیم ہوتے معصوم بچوں ؛ اور عفت و پاکدامنی کے لئے جد و جہد کر رہی دوشیزاؤں کے حقوق کے سلسلے میں تمہاری زبانیں کیوں گنگ ہوجاتی ہے؟ تم نے اس وحشیانہ رویہ پر ایک لفظ بھی نہیں بولا ؟ ایک بے جان کی موت تم کو بے چین کردیتی ہے لیکن روز اٹھتے جنازوں پر تمہاری حس کہاں چلی جاتی ہے ؟ اس پر تمہیں اذیت کیوں نہیں ہوتی ؟ کیڑے مکوڑے کی موت پر تمہارا دل موم ہوجاتا ہے مگر برسوں سے نذر آتش کشمیر پر تمہارا سنگدل نہیں پسیجتا ؟ کیا وہ لوگ انسانی اقدار و روایات سے پرے ہیں ؟ کیا وہ حقوق انسانی کے حقوق سے خارج ہے یا پھر تمہیں انسان و حیوانوں میں تمیز نہیں کرنے آتی ؟ امن و امان کے کے قیام پر ہزاروں صفحات رنگین کرنے والوں اس خطے کے امن پر کب خامہ فرسائی کروگے ؟ بھائی چارہ کے نام ہمیشہ ہمارے جزبات کو ٹھیس پہنچانے والوں اور سیکولرازم اور جمہوریت اور مساوات کی بات کرنے والوں اس کشمیر پر اپنے لب کی خاموشی کب توڑوگے ؟ یہ انسانیت سوزی پر یہ لب بستگی کیسی ؟ آخر ان کو کب انصاف ملے گا ؟ اور خوبصورت وادی دوبارہ کب سے شاداب ہوگی ؟ ضرور بتانا !!!
Comments are closed.