خطیب راحت دیدی الوداع! الطاف جمیل ندوی

خطیب رحت دیدی الوداع

وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلا م  کر تا  ہے  آشوب  ر و زگا ر  مجھے

موت ایک ایسی حقیقت جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں؛”مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ“۔ یہ خبر منٹوں میں،وادی کشمیر کے گوشے گوشے میں، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص نے بڑے افسوس کے ساتھ اس خبر کو پڑھا اور سنا اور دوسروں کو بتایا۔
موت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ جب پیارے نبی محمد- صلی اللہ علیہ وسلم -کو موت آکر رہی؛تو پھر دوسرے کی کیا بات! موت تو مہربان رب کے دیدار کا ایک ذریعہ ہے؛اگر آدمی کا انتقال نہ ہو؛تو اپنے رحیم وکریم رب کا دیدار کیسے کرے گا

موت نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ چاہے انسان ہویا حیوان یا پھر چرند وپرند ہو، سب جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ نظام اس دنیا کے پیدا کرنے والے کا ہی بنایا ہوا ہے۔ سچے مالک نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ”کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت“ (سورہ آل عمران، آیت:۱۸۵) ترجمہ:(تم میں) ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے؛ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا

وادی کشمیر کے ضلع اسلام آباد کی جامع مسجد راحت دیدی کے خطیب و امام  مدرسہ جامع الکبیر کے مہتمم مولانا مبارک کے انتقال کی خبر بجلی بن کر گری اہل علم  کے درمیان اہل علم کے قافلہ کے ایک عظیم ساتھی کا یوں بچھڑ جانا انتہائی کربناک ہے پر  کیا کیا جائے تقدیر الہی کے سامنے ہم تو صرف دعا کے علاوہ آنسوؤں  اور آہون کی سوغات ہی دے سکتے ہیں اس کے سوا ہم سب محتاج ہیں

مولانا کا مختصر تعارفی خاکہ

افسوس کہ سمجھا نہ اھل نظر نے ھم کو
ھم وقت کی زنبیل میں ھیروں کی طرح تھے

نام ۔۔مولانا مبارک احمد شیخ ابن غلام محی الدین شیخ
آبائی وطن ۔۔پاریون کولگام مگر کچھ دہائیوں سے مہی پورہ میں سکونت پزیر تھے اور وہی ناکح بھی ہوا تھا

پانچ بچے ہیں ۔۔دو بیٹیاں اور تین بیٹے۔۔۔ابھی تک صرف ایک بیٹی کی شادی ہوئی ہے

۴۸سال کی عمر میں کل رات خالق حقیقی کے در پر حاضر ہوئے

مولانا مرحوم انتہائی درجہ کے سادہ و منکسر المزاج کے مالک تھے شرافت سادگی ان کی زندگی کا جز تھا لوگ اکثر ایک بات کئی بار پوچھتے محال ہے کہ مولانا کے ماتھے پر شکن نمودار ہو بلکہ ہر بار انتہائی ادب و احترام کے ساتھ جواب دیتے ہر کسی سے مشفقانہ رویہ اختیار کرتے  اسی سادہ مزاجی کے سبب ضلع اسلام آباد  کی مقبول شخصیت تھی ہر کوئی ان سے استفادہ کرنے کے لئے کوشاں رہتا اور خوشی و مسرت کے جذبات لے کر رخصت ہوجاتا مولانا اپنی زات میں ایک انجمن اک بزم تھے  جامع مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے جہاں کا ہر نمازی مولانا کی جدائی پر اشک بار آنکھوں سے مولانا کو الوداع کر رہا ہے لوگوں کی کثیر تعداد شریک نماز جنازہ ہوئی اور کچھ ایسے بھی تھے جن کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں

مختصر تعلیمی و تبلیغی سفر
ابتدائی تعلیم دارالعلوم سواء السبیل کھانڈی پورہ میں حاصل کی اسکے بعد اپنے شیخ عارف بااللہ  حضرت مولانا حمید اللہ صاحب کھانڈی پورہ کے حکم سے اپنی تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لئے دارالعلوم بلالیہ کی جانب سفر کیا ۔اسکے بعد وہاں کچھ سال رہ کر  وہاں سے عالمیت کرکے اپنے شیخ کے حکم  سے 1996 میں اسلام آباد میں مشہور و معروف مسجد رحت دیدی میں بطور امام کے منصبے پر فائز ہوئے ۔۔اور اپنی وفات تک وہیں دین کی خدمت انجام دے رہے تھے۔۔۔۔جہاں اس وقت کفر وشرک کی بہت زیادہ یلغاریں تھیں۔۔۔جہاں مولانا کو تقریبا ابتدائی 15 سالوں تک شرک و بدعت کے پجاری پریشان کرتے تھے اور مولانا کو بہت ستایا گیا ۔ایک مرتبہ فرمانے لگے بیٹا جس مسجد میں آپ ہو یہاں یہ دینی ماحول بنانے کے لئے مجھے اور (جبار کاک کو ۔۔جو تقریبا 35 سالوں سے اس مسجد کی خدمت انجام دے رہے ہیں)یہاں کے لوگوں نے داڈھی پکڑ کر گسیٹا گیا لیکن ہم برداشت کرتے رہے کیوں کہ شیخ کا حکم تھا۔۔۔۔مولانا اپنے شیخ کو پیار سے( مولوی صوب کہتے تھے)کبھی بھی انکی بات کو انہوں نہیں ٹالا ہوگا ۔۔۔
لیکن اس مسجد میں جہاں صرف شرک بدعت کی محفلیں ہوتی تھی۔۔مولانا کی بے انتہاء محنت کی وجہ سے اللہ کے فضل سے پھر دعوت تبلیغ کا مرکز بن گیا۔۔اور اتنے ہی پر بس نہیں بلکہ 2012 سے مدرسے کی ابتداء بھی اسی مسجد سے ہوئی اور مدرسہ بننے تک ۔۔جو کہ تقریبا ڈھائی سال کی مدت ہے۔۔۔اسی مسجد میں مدرسہ رہا۔۔۔اور میں ناچیز اس مدرسے کا سب سے پہلا طالب علم تھا۔۔۔۔۔
مدرسہ کی تعمیر و تجدید میں جو محنت مولانا نے کی شاید ہی کسی عالم کے حصہ میں ایسی محنت و مشقت آئی ہو ۔۔

ایک طالب علم کے تاثرات  مجھے آج بھی یاد ہے کی جب مدرسے کے لئے زمین خریدی گئی تو اسکی قیمت اس وقت ایک کروڈ تیس لاکھ مقرر ہوئ ۔۔اور وہ رقم 4 مہینے کے اندر اندر ادا کرنی تھی۔۔ورنہ زمین واپس کرنی تھی۔۔۔۔تو مولانا نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے محنت شروع کی اور اپنے ساتھ اپنے قریبی تین ساتھیوں کو ساتھ لیا ۔۔۔اور پورے رات دن محنت کرتے رہے ۔۔اللہ گواہ ہے کہ میں اور جبار کاک ہر دن رات کے بارہ بجے کبھی ایک بجے تک کھانا کھانے کا انتظار کرتے تھے۔۔۔۔اور اللہ کے فضل سے چار مہینے کے اندر اندر مولانا نے پورا قرضہ ادا کردیا لوگوں نے بھی مولانا مرحوم کو مایوس نہیں کیا بلکہ ہر کسی صاحب نے بڑھ چڑھ کر اپنی طرف سے مقدور بھر معاونت کی

اتنی بڑی رقم کا جمع کرنا کوئی اسان کام نہیں تھا ۔۔۔مگر مولانا کے ان چوبیس سالوں کی محنت نے ۔۔ جو مولانا نے جامع مسجد سے شروع کی تھی کا یہ بدلہ ملا مولانا نے اسلام آباد کے لوگوں میں اپنے اخلاق حسنہ ۔۔شریف النفسی اور معتدل شخصیت کی وجہ سے عوام کے دلوں میں رچ  بس گئے تھے اور عوام کے لئے قابل اعتماد شخصیت کے بطور جانے پہچھانے جاتے تھے

کشمیر کے معروف کالم نگار

مولانا الطاف حسین ندوی کشمیری کے تاثرات
مولانا مبارک صاحب رحمۃ اللہ علیہ انتہائی نرم مزاج مبلغ اور بہت ہی ملنسار ہمدرد داعی دین تھے ۔ میں نے مکتبہ فکر دیوبند سے وابستہ کشمیری مبلغین اورعلماء میں ایسا نرم خو شخص نہیں دیکھا ہے ۔مولاناچراغ الدین رحمۃ اللہ علیہ اور مفتی عبدالغنی ازہری صاحب مدظلہ العالی کے بعد یہ وہ پہلے دیوبندی عالم اور مبلغ ہیں جنہوں نے کامیابی کے ساتھ اسلام آباد قصبہ میں نہ صرف کامیاب دینی ادارہ  قائم کیا بلکہ تبلیغی جماعت کے لیے بھی رحت دیدی مسجد میں مرکز قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔تائید الٰہی سے انکار نہیں مگر ان کامیابیوں میں مولانا کی ذاتی لگن خلوص و محبت اورجہد مسلسل سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مبارک صاحب نے امامت خطابت اور کامیاب عامل کے طور پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو دین کے لئے وقف کیا اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے یہ فروعی اور مسلکی وفکری اختلافات کو اہمیت نہیں دیتے تھے جس سے یہ مشن میں کامیاب ہوئے اور انہیں اس بات کایقین تھاکہ کشمیری مسلمان چند مہینوں یا سالوں تک بڑے سے بڑے اختلاف کرنے والے عالم کو برداشت ضرورکرلیتے ہیں مگر بلاآخر اس طرح نظراندازکردیتے ہیں کہ خود وہ بھی دنگ رہ جاتاہے اس لئے کہ مسلکی اورفکری اختلافات کو جس جلتے معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے وہ کشمیریوں کی فطرت سے بہت بعید ہے

ان کے چھوٹے بھائی مکرمی منیب صاحب کے تاثرات

میرا بھائی والد کی طرح میرے لئے فکر مند رہتا تھا جب بھی بازار جاتے اپنے بچوںکی ضروریات کے لئے تو مجھ سے ضرور پوچھتے کہ کچھ چاہئے میں ہاں یا نا کرتا پر کچھ نہ کچھ آکر میرے ہاتھ میں تھمادیتے
جب مولانا مرحوم عمرے کی سعادت کے لئے رخت سفر باندھ رہے تھے میں تھوڑا سا ملول لگ رہا تھا تو مولانا نے میرے پاس آکر میرا کاندھا تھپ تھپایا اور بولے منیب کوئی بات نہیں ہے میرے بعد تم بھی جاؤ گئے گر اللہ نے چاہا  جب عمرہ کرکے واپس آئے تو کچھ دن بعد میں نے یوں ہی کہا بھائی جان میں کب جاؤں گا آپ نے بتایا تھا تو کہا بس میں نے انتظام کرلیا ہے جلد ہی پاسپورٹ آجائے گا میں اپنے اس والد جیسے بھائی کو دیکھتا ہی رہ گیا کہ مجھے خبر ہی نہیں مگر بھائی نے انتظام بھی کرلیا ہے روانگی کے وقت میرے والد صاحب نے کچھ رقم دی تو بھائی نے ڈانٹا والد صاحب سے کیوں لی رقم میں دوں گا انہیں واپس کردو
میں دوران تعلیم ریاست سے باہر تھا میرے نکاح کی بات چلی گھر آکر شش و پنچ میں تھا کہ کیا کروں بھائی سے بات کی کہ کچھ خریداری کرنی ہے بازار سے بھائی نے جواب دیا کہ میں نے کرلی ہے دیکھ لو پسند آئے تو بہتر نہیں تو میں پھر سے انتظام کرتا ہوں ان ضروریات کا جو آپ کی پسند کی نہیں ہوں گئی  میں بھائی سے نہیں بلکہ اپنے محسن اپنے مربی اپنے دوست سے محروم ہوا ہوں ان کی جدائی کا غم  اٹھائے زندگی گزارنا انتہائی کٹھن اور صبر آزما  ہے

آئے عشّاق، گئے  وعدہٴ  فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
برادر طلحہ ندوی کی زبانی منظر جنازہ
جنازہ کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ  2:30 بجے ہوگا ،اس لئے میں نے جمعہ کی تیاری میں مشغول ہونا چاہا مگر دل اچاٹ، کئی بار کتاب کھولی ایک دو منٹ پڑھتا تھا، دل نہ لگنے کی وجہ سے دوبارہ بند کرتا تھا ، بعد میں 12:30بجے نماز جنازہ کا وقت مقرر ہوا ،تو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ میں شرکت کے لئے رخت سفر باندھا ، ہچکیاں ہم سفر تھیں ،کرونا وائرس کے باعث تمام بڑے راستے مسدود تھے ، ایس ٹی ایف اور پولیس جنازے میں شرکت سے روکتے تھے مگر ہجوم عاشقان پیدل  کھیتوں اور باغوں کے تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے مہی پورہ کولگام پہنچتے تھے ،تین جگہ ہمیں بھی روکا گیا بالآخر ایک تنگ گلی سے ہم بھی جنازہ گاہ میں پہنچے۔

اللہ اکبر ____کیا منظر تھا ،
کیا آپ نے کبھی کسی شہید کا جنازہ پڑھا ؟
اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو پھر آپ کو سمجھنا مشکل نہ ہوگا ______
دور دور تک سر ہی سر نظر آتے تھے ، ہر ایک کی آنکھیں نم اور چہرے پر غم کے بادل ، ان اداس چہروں کے بیچ جب ہم پہنچے تو عین اسی وقت حضرت رحمہ اللہ کا جنازہ پہنچ گیا ،نعرہ تکبیر کی آواز فضا میں گونجی__واہ واہ __ جس نے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا تھا ،منبر ومحراب میں ، جلسوں اور جلوسوں میں ،خلوت اور جلوت میں ،آج اس کے جنازہ پر بھی اسی رب واحد کا نام  بلند ہوا ۔۔۔۔ سبحان اللہ
مفتی غلام محی الدین صاحب مدظلہ نے اعلان کیا کہ عارف باللہ   مفتی عبدالرشید صاحب تشریف لارہے ہیں جب تک ان کی تشریف آوری ہوگی ، تب تک وہ مختصر خطاب کریں ، بعد اذاں حضرت مولانا ارشد صاحب ندوی حفظہ اللہ سے  خطاب کی فرمائش،  حضرت ندوی صاحب نے جوں ہی مائیک ہاتھ میں لی ان پر گریہ طاری ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام لوگوں پر گریہ طاری ہوا ، کچھ دیر بیان فرمایا ، مفتی عبدالرشید صاحب بھی تشریف لا چکے تھے انہوں نے بھی دو تین منٹ خطاب فرمایا ،اس کے بعد ان ہی (حضرت مفتی عبدالرشید صاحب) کی اقتدا میں ہزاروں لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی ، جنازہ گاہ میں رونے کی آوازیں تھیں ، ہچکیاں تھیں ،سب غم کے پہاڑ کے نیچے دبا ہوا محسوس کرتے تھے ،
بالآخر حضرت مولانا مبارک صاحب رحمہ اللہ کو ہزاروں عاشقوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا

حق تعالی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا اللہ تعالی  ان کا نعم البدل عطا فرمائے اہل وادی کے ساتھ ساتھ ضلع اسلام آباد کو

الطاف جمیل ندوی 

Comments are closed.