آہ ! اسم با مسمی مولانا صابر صاحب قاسمی رحمتہ اللہ علیہ! شریک غم ابو ہادیہ قاسمی

آہ ! اسم با مسمی مولانا صابر صاحب قاسمی رحمتہ اللہ علیہ!

 

*شریک غم! ابو ہادیہ قاسمی*

_________________________________

*حضرت مولانا صابر صاحب قاسمی امام و خطیب جامع مسجد باٹا چوک مدھوبنی!* آج بعد نماز ظہر معمولی علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے، *اناللہ واناالیہ راجعون!* یہ خبر مدھوبنی اور بالخصوص بھوارہ والوں کےلئے صاعقہ بن کر گزری ہے۔کیونکہ کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ مولانا کی طبیعت علیل ہے،تین چار دن سے بخار کا آنا جانا تھا لیکن اسکے باوجود دو دن قبل خودہی جمعہ کا خطبہ دیا اور امامت فرمائی۔

کل صبح کی بات ہے،میں مولانا کی عیادت کے لئے حاضر ہوا، تو مجھ سے فرمانے لگے بخار تو اب ٹھیک ہے لیکن کمزوری بہت زیادہ ہے،تھڑی گفت و شنید کے بعد میں رخصت ہوگیا۔ پھر شام کو مولانا کے برادر قاری ساجد صاحب سے معلوم ہوا کہ طبیعت بہتری طرف ہے۔ لیکن آج بعد نماز ظہر جب اچانک موت کی خبر سنی تو میرے لئے یقین کرنا بہت مشکل تھا،میں بھاگتا ہوا مولانا کے گھر پہنچا اور ہانپتا کانپتا سوال کیا کہ ابھی سانس باقی ہےنہ؟ بہت سے ذمہ دار حضرات موجود تھے سبھونے مایوسی کے ساتھ نفی میں جواب دیا، میں *انا للہ وانا الیہ راجعون* پڑھکر( فرمان خداوندی) *کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ؛* کہ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور *فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ،* کہ جب موت کا مقررہ وقت آجائے گا تو وہ نہ اس سے ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکیں گے اورنہ آگے بڑھ سکیں گے۔ان آیات ربانی! کے ذریعے اپنے دل کو تسلی دیا۔

موت برحق ہے! ایک دن سب کو مرنا ہے، لیکن کچھ لوگ مرنے کے بعد بھی انمول یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ مولانا صابر صاحب قاسمی انہیں میں سے ایک تھے، مولانا! انتہائی عابد و متقی اور صاحب قرآن انسان تھے، چاشت،اشراق اور اوابین برسوں سے پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے، تلاوت قرآن مولانا کا مشغلہ تھا،مولانا کی شخصیت واقعی اسم با مسمی تھی۔کئی مواقع پر مشاہدہ ہوا کہ مولانا صبر و شکر کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ مولانا! فراغت کے بعد سےہی تقریباً ٣٠/سالوں سے معمولی تنخواہ پر باٹا چوک کی مسجد میں بشباشت کے ساتھ امامت و خطابت کا کام بحسن خوبی انجام دےرہےتھے۔ مولانا ! انتہائی خلیق،خوش مزاج،اور ملن سار انسان تھے۔ مولانامرحوم ! کہ سامنے میری حیثیت ایک عزیز کا ہی تھا لیکن اسکے باوجود جب کبھی باٹا چوک کی مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوتا تو بڑے خندہ پیشانی سے استقبال فرماتے،والدین کے احوال معلوم کرتے، دعاؤں سے نوازتے

اے کاش! آپ اتنی جلدی الوداع نہ کہتے! لیکن اللہ کے فیصلے پر آپ اس دار فانی کو الوداع کہ چکے ہیں، اب اہل ایمان کا شیوا ہے کہ رب اس فیصلہ پر راضی رہے، پر ایک بات ضرور ہے کہ آپ اپنے اچھائی،نیک نامی کی وجہ سے ہمیشہ یادوں میں،باتوں میں زندہ رہیں گے ان شاءاللہ۔

مولانا مرحوم! اپنے پیچھے اپنی زوجہ کے علاوہ دو لڑکا حافظ منت اللہ اور حافظ نجیب اللہ اور دو لڑکی کو چھوڑ چلے ہیں، اللہ ان سب کے حامی و مددگار ہو، اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ پاک مولانا مرحوم! کی بال بال مغفرت فرمائے،جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے، اور تمام رشتے داروں کو اس عظیم نقصان پر صبر جمیل عطاء کرے،نیز باری تعالیٰ اپنے لا محدود خزانہ سے مولانا کی بیوا اور بچوں کے لئے بہتر کفالت کا انتظام فرمائے۔

*اللھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فی جنت الفردوس۔آمین یارب العالمین*?

 

6/7/2020

Comments are closed.