ایک شخص جو شہر ویرانہ کر گیا ”      مولانامحمد صابر قاسمی کچھ یادیں کچھ باتیں ,

"ایک شخص جو شہر ویرانہ کر گیا ”

مولانامحمد صابر قاسمی کچھ یادیں کچھ باتیں , وہ لمحہ بھی کتنا مشکل تھا جب میں دن بھر کی مشغولیت سے فارغ ہو کر آرام گاہ میں بیٹھا واٹشاپ میسییز چیک کر رہا تھا کہ دفعتاً میری نظر مولوی مرتضیٰ کی تحریر "انتقال پر ملال "پر پڑی میں مضمحل ہوگیا مارے اضطراب کے دل بے قابو ہو نے لگا میں نے آنکھیں موند لی اور بستر پر لیٹ گیا اور کبھی خود سے کبھی خالق موت وحیات سے دل ہی دل میں شکوہ کر نے لگا خدایا ٹھیک ہے قضا و قدر کے فیصلے اٹل ہیں جسے نہ تو عقل و خرد کی کسوٹی پر کسا جا سکتا ہے اور نہ ہی جذبات محبت کے پیمانے س ناپا جاسکتا ہے اور نہ جس میں ذرہ برابر تقدیم و تاخیر کی گنجائش ہے اور یہی میرا عقیدہ و ایمان بھی ہے مگر ایسا بھی کیا کہ ایک تندرست و توانا جواں سال انسان جسے نہ جنگ وجدل نے مارا نہ کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہوا نہ کسی مہلک بیماری نے گھیرا وہ تو چمک رہا تھا دمک رہا تھا اپنے دلربا نغمے سے چمن کو گلزار بنا رہا تھا اپنی خوشبوؤں سے ہر ذرے کو معطر کر رہا تھا وہ شخص جو خزاں کو چاک کر بہار لانے کا ہنر جانتا تھا اچانک شہر کو ویرانہ کرگیا ؟ ابھی تو کل کی بات ہے ان سے راہ چلتے چلتے ملاقات ہوئی ہے ابھی تو وہ بات جو میرے تعریفی کلمات کے جواب میں انہوں نے کہے ویسے ہی گونج رہی ہے مولانا مسکراتے ہوئے کہنے لگے "ارے آپ بڑے لوگ ہیں ہم جیسوں کی تعریف کر کے بڑے ہونے کا ثبوت پیش کر تے ہیں” اور آگے بڑھ گئے مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے اسی طرح کا جواب انہوں اس دن دیا تھا جب لوک ڈاون کےسبب کئ جمعہ ضائع ہو جانے کے بعد میں جمۃ الودع کی نماز کیلئے ان کی مسجد پہنچا نہایت ہی انکساری سے کہنے لگے "آپ سمجھدار لوگ ہیں مسجد تو بند ہے ضرور حال چال لینے آئے ہونگے ” اسی طرح کی اور کئی باتیں ان کی یاد آرہی ہیں جن سے مولانا مغفور کی اعلی ظرفی انکساری اور بزرگی کا پتہ چلتا ہے وہ سائکل چلاتے ہوئے اکثر اپنے دامن جیب میں ڈال لیا کرتے تھے ایک بار میں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے تفریحا ان سے کہا دامن جیب میں رکھنے کی چیز تو نہیں ہے ؟ فرمانے لگے "دامن بھی خالی جیب بھی خالی اس لئیے جیب کو دامن سے بھر لیا دعاء کیجئے دامن بھی بھر جائے "معمولی لوگوں کو یہ جواب معمولی لگ سکتا ہے مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ یہ غیر معمولی جواب ہے اللہ ان کے دامن کو نور ورحمت سے بھردے مولانا باکمال باعمل عالم دین اور کہنہ مشق حافظ قرآن اور با اثر خطیب تھے ہم نے ان جیسے بہت سے لوگوں کی تقریریں سنی ہیں جو بیک وقت عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی ہیں مگر مولانا مرحوم کی طرح تقریر میں قرآن کے حوالے دیتے ہوئے نہیں سنا مرحوم کے جمعے کے خطبے میں نے خوب سنے ہیں وہ اکثر قرآن کی ایک آیت کے مفہوم معانی اور مطالب کو سمجھانے کیلئے اس سے متعلق وموائید کئی کئی آیات پڑھ جاتے تھے کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ موضوع سے متعلق قرآن کی کوئی آیت نہیں چھوٹنے والی ہے اس قدر مواد سے بھر پور گفتگو فرماتے مگر نہ جھجھکتے نہ بھٹکتے اونہ ٹھہرتے بلکہ ایک ہی انداز میں مسلسل بات کرتے چلے جاتے ایسا لگتا گویا کوئی اسکرین چل رہی ہے جسے وہ پڑھ رہے ہوں ان کی انہیں گوناگوں خوبیوں صلاحیتوں کے باعث ہمیشہ لوگوں کے منظور نظر رہے آپ نے کبھی بھی متنازعہ بات نہیں کی یہی وجہ ہے کہ سبھی مسلک کے لوگ یہاں تک کہ غیر مسلم بھی آپ کی باتیں بہت غور سے سنتے تھے ایک ہندی اخبار نے "جمعہ کا خطبہ ” کے نام سے ایک گوشہ مختص کررکھا تھا جس میں مولانا کے خطبہ کی کچھ حصے چھپا کرتے تھے. آپ ضلع کی ایک مرکزی جامع مسجد باٹا چوک مدہوبنی کے تا عمر امام خطیب رہے اور ضلع بھر کے مسلمانوں کو فیض پہنچایا کم سے کم 50×100کیلومیٹر میں پھیلا ہوا مدہوبنی ضلع کے گاؤں قصبوں میں رہنے والے مسلمان جن کا بھی ہیڈ کوارٹر آنا جانا رہتا ہے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو مولانا کو نہیں جانتا ہو اور ان سے فیضیاب نہ ہوا ہو آج شہر ہی نہیں بلکہ ضلع کے لوگ ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگئے ہیں اللہ ہمیں نعم البدل عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

جمیل احمد قاسمی

اردو مڈل اسکول


منگرونی شیخ ٹولی مدہوبنی

Comments are closed.