یہ سردی مہری ہمارا نشیمن نہ پھونک دے نوراللہ نور

یہ سردی مہری ہمارا نشیمن نہ پھونک دے
نوراللہ نور
یہ فطری امر ہے کہ انسان خود پر اور اپنوں پر آنے والی معمولی خراش کو بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے ہلکی سی چبھن اسے بے چین کر دیتی ہے اور اللہ رب العزت نے خصوصا اس جزبہ کو مسلمانوں کے دلوں میں ” اخوان فی الدین ” کے زریں سلسلے کے ذریعے اس کو موجزن کردیا ہے اور ان کی فطرت میں یہ نعمت ودیعت رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں میل فاصلے پر ایک بہن کی ردا چاک ہوتی ہے تو کوسوں دور بھای بے چین ہوجاتا تھا اور اس کی ایک آواز پر نافرمان خدا پر جنونی بن کر ٹوٹ پڑتا تھا اور اس ایک بہن کی خاطر اس نے شاہ وقت کی زندگی اجیرن کر دی تھی ..
المسلم اخو المسلم کے مبارک سبق کے ذریعہ روے زمین کے ہر خطے پر ہم نے حکمرانی کی اس نعمت کی وجہ سے برسوں ہم نے زمام اقتدار سنبھالی اور بے شمار سلطنت ہمارے زیر نگیں تھے مگر زمانہ تغیر پذیر ہے ساکت نہیں رہتا بلکہ گردش کرتا رہتا ہے زمانے نے کروٹ لی اور رفتار زمانہ کی تیزگامی میں ہم بھی بہ پڑے اپنی ثقافت و روایات سے انحراف کر بیٹھے اور اخوت و محبت کے دیے ہوئے سبق کو فراموش کر دیا اور یک آن میں ہی سارا نظارہ بدل گیا وقت کا حاکم توانگر و ناتواں دوسرے کے رحم و کرم پر جینے لگا کیونکہ آنے والوں نے گزشتہ لوگوں کے چراغاں کیے ہوئے لو کو دوام نہیں دے سکے اور اس کی بقا سے بے خبر اپنی دنیا میں مست ہو گیے ۔
جب تک رب کی ودیعت کر دہ قندیل ایمانی ہمارے دلوں میں مجلی اور منور رہی اور اس شمع کی حفاظت کی تو ہم سر خرو اور بلند رہے مگر ہماری رب کی کی نعمت سے انحراف اور اخوت کے سبق کی بیزاری کی وجہ سے تنزلی اور انحطاط ہم میں راہ نکال لی وقت کا فرمانروا گداگر اور زنداں کے نظر ہوگیا سجدہ گاہوں ؛ عبادت خانوں ؛ شعایر اسلام پر اسلام دشمن کا تسلط ہوگیا اور حد تو یہ ہیکہ ہماری بے حسی اور بے غیرتی کی وجہ سے ہمارا قبلہ اول ہنوز شیطانی آلہ کاروں کے چنگل میں ہے اور ہماری بیداری کی راہ تک رہا ہے ۔۔
ہم نے سکوت اور بے راہ روی کی وجہ سے اپنا وقار؛ اپنا تشخص سب نیلام کر دیا ہے اور اتنے بے حس ہوگیے ہیں کہ کہ اپنوں کی لٹتی عصمت پر ہمارا خون ہی نہیں کھولتا قبلہ اول ہماری بے التفاتی وعدم توجہی کی وجہ سے صلیبیوں اور صیہونیوں کا مسکن بن گیا ہے صدیوں سے ہمیں ندا لگا رہا ہے اور ہماری خاموشی پر رب کے حضور نالاں ہے روز مسماری اور تہ نشینی کا خوف اس کے گردو پیش منڈلا تے رہتا ہے اور ہم ابھی بھی خواب غفلت میں مست و مگن ہیں خیر یہ تو خدا کا گھر ہے وہی اس کی نگہبانی کرے گا مگر وہ سر زمین اب تک ہمیں جنجھوڑ رہی ہے اور حالت زار پر اشکبار ہے امت کی بہنیں اب بھی کسی طارق کی راہ تک رہی ہے وہاں کے معصوم ؛ جوان ؛ بوڑھے کسی عمر کی آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہاں کی خون سے سرخ زمیں بلا رہی ہیں اور اقوام متحدہ میں بیٹھے افراد سے اپنی بازیابی کی درخواست کر رہی ہے ۔۔
ہمارا یہ جمود و تعطل ہمیں دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور پستی و حرماں نصیبیوں کا وجہ بھی بن رہا ہے ان کی آواز کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہی امت مسلمہ ہے ان کے بازو ہم ہی امت واحدہ ہیں ان کی بازیابی اور ان کی عفت و عصمت اور ان کے ایمان اور قبلہ کے تحفظ کے لئے اپنی تساہلی کی بندش کو توڑ کر پیش قدمی دکھانی ہے ہم نے ہر مسلہ کا حل اپنے رب کی مدد سے ازخود نکالا ہے ہمیں اس کے بارے میں بھی اپنے سکوت کو توڑنا ہوگا صرف ٹرینڈ چلا کر اس کا حل نہیں ہوگا بلکہ سر برآوردہ حضرت اس معاملے کو اپنی ہاتھ لیں اور اس قضیہ کا کؤی حل نکالیں کیون کہ ہم نے بے اعتنائی اور بے رغبتی سے اپنی ساکھ خود خراب کی ہے سب ہماری ہی کارستانیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے خون سے سر سبز شاداب کشمیر سرخ ہوا اور فلسطین میں ہنوز جاری ہے ہمیں اس خاموشی اور لب بستگی سے اپنا دامن بچانا ہوگا اور جمود و تعطل کے حصار سے باہر آنا ہوگا ورنہ یہ سردی مہری ہمارا نشیمن ضرور پھونک دی اور ہم بھی صفحہ ہستی سے ناپید ہو جایں گے ۔
Comments are closed.