علامہ سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو اسجد عقابی

علامہ سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو
اسجد عقابی
علامہ سید سلیمان ندوی عالم اسلام کی ان چنندہ شخصیتوں میں سے ہیں جو بیک وقت مختلف علوم و فنون پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ کتابت و خطابت میں آپ بے مثال ہیں۔ تفسیر و حدیث میں آپ کے نقوش آج بھی تابندہ ہیں۔ علم تاریخ کے خشک صحرا کو آپ کے قلم کی عرق ریزی اور تحقیق و تخریج نے ایسے نخلستان میں تبدیل کیا جہاں تاریخ کے متلاشی تشنہ لبوں کی مکمل سیرابی کیلئے چشمے بہتے ہیں۔ عربی زبان وادب میں اہل زبان کیلئے مشعل راہ رہے ہیں۔ اردو ادب میں لکھے گئے مضامین و مقالات سے میدان ادب کے آزمودہ شہسوار خوشہ چینی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آزادی و حریت کے ایسے راہنما ہیں جن کی جرات کو زمانہ سلام کرتا ہے۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت با سعادت 22 نومبر 1884 کو بہار کے مردم خیز علاقہ پٹنہ سے کچھ میل دوری پر ویسنہ نامی گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید ابوالحسن ہے، آپ کے والد محترم نہایت متقی و پرہیز شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا خاندان پورے علاقہ میں دینی علوم اور زہد و ورع میں ممتاز چلا آرہا تھا۔ آپ ددھیال کی جانب سے حسینی اور ننھیال کی جانب سے زیدی تھے۔ آپ کے خاندان میں دینی علوم کے علاوہ علم طب کا بہت زیادہ رجحان تھا۔ آپ کے والد محترم اور دادا محترم ہر دو اپنے ادوار کے ممتاز حکماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں بیعت و سلوک کی نسبت نے اس خانوادہ کی شرافت و نجابت میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ خاندانی علم و عمل کے اس سنگم کے مجموعہ کو ذات باری نے سلیمان کی شکل میں عالم اسلام کیلئے قیمتی تحفہ بنا کر پیش کردیا تھا۔
ابتدائی تعلیم
آپ نے تعلیم کا باضابطہ آغاز گاؤں کے مکتب سے خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے کیا۔ بعد ازاں میزان و منشعب وغیرہ اپنے برادر اکبر مولانا ابو حبیب سے پڑھی۔ بڑے بھائی سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے اسی اثناء میں اپنے والد محترم کے پاس اسلام پور تشریف لائے، یہاں کچھ دنوں تک تعلیمی سلسلہ جاری رہا لیکن علم کی تشنگی اور آرزو نے اسلام پور سے پٹنہ خانقاہ مجیبیہ میں مولانا محی الدین (سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ) کے در پر پہنچا دیا۔ یہاں آپ نے مکمل ایک سال رہ کر عربی علوم میں مہارت حاصل کی۔ یہاں رہتے ہوئے آپ میں شعری ذوق بھی پروان چڑھا، اور آپ نے بعد کے زمانے میں وقتاً فوقتاً اس ذوق کا اظہار بھی فرمایا ہے۔
ندوہ العلماء کا سفر
1901 میں آپ ندوہ تشریف لائے، یہاں آپ نے زمانہ طالب علمی میں متانت و سنجیدگی، مہر و محبت، تہذیب و شائستگی اور اخلاق و مروت کے وہ نمونے پیش کئے ہیں کہ سات سالہ طالب علمی کے زمانے میں کبھی کسی کو حرف شکایت کا موقع نہیں ملا، البتہ آپ کی ذہنی سطح اور علمی گہرائی و گیرائی نے ہر کسی کا آپ کو محبوب بنا دیا۔ ادبی ذوق آہستہ آہستہ مزید پروان چڑھتا گیا اور زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کے لکھے ہوئے مضامین کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ اردو کے علاوہ عربی مضامین بھی مصری اخبارات کی زینت بننے لگے تھے۔
قلمی جوہر
آپ کی ذات والا صفات کے قلمی جوہر کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا دامن تنگ ہے۔ جس شخصیت نے ساری عمر قلم کے سایہ تلے گزار دی، جس کے لکھے ہوئے مضامین کو سند کی حیثیت حاصل ہے۔ جن کے الفاظ کو لغات اردو میں معیار ادب قرار دیا جاتا ہے، جس کی تحریروں پر مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت عش عش کر اٹھے، جس کے (خیام) پر لکھے گئے تحقیقی مقالہ پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ اب کوئی اس باب میں لکھ کر مزید اضافہ نہیں کرسکتا ہے۔ جس ذات گرامی نے کم و بیش چالیس سالوں تک دارا المصنفین اعظم گڑھ کو علم و تحقیق کے باب میں بام عروج تک پہنچایا، جس نے (معارف) کو علوم و فنون کا معارف بنایا، جس نے سیرہ النبی جیسی کتاب کی تکمیل فرمائی۔ جس نے ( سیرت عائشہ) لکھ کر امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا ہے۔ ایسی شخصیت کے قلمی جوہر کے متعلق کچھ لکھنا اور بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ آپ کے قلمی و علمی سفر کی مختصر روداد یہ ہے۔
آپ کا پہلا مضمون بعنوان ( وقت) مخزن لاہور میں 1903 میں شائع ہوا، یہ آپ کی پہلی کاوش تھی جو مدرسہ کے احاطہ سے باہر آئی اور لوگوں کو مستقبل میں ایک بہترین قلم کار کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ آپ کا دوسرا مضمون ( علم اور اسلام) کے عنوان سے علی گڑھ کے ماہانہ مجلہ میں شائع ہوا۔ بعد ازاں ملک کے مختلف معتبر مجلوں اور اخبارات میں آپ کے قیمتی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا جو اخیر عمر تک جاری رہا۔ اسی زمانہ میں حالی جیسے صاحب قلم نے آپ کی تحریر کیلئے توصیفی نوٹ لکھے ہیں۔ آپ کے بعض بیش قیمتی مضامین و مقالات نظر ثانی کے بعد کتاب کی شکل میں آج بھی امت مسلمہ کیلئے علمی خزینہ کی حیثیت سے موجود ہے۔
مولانا محمد علی مونگیری کا اعتماد
آپ کے طالب علمی کا زمانہ وہ خوشگوار دور تھا، جس میں ندوہ ہر چہار جانب سے اہل علم و فضل کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اور اس قافلہ کے روح رواں بانی ندوہ حضرت مولانا احمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بابرکت تھی۔ ایک جانب امام محمد قاسم نانوتوی کا لگایا ہوا پودا سر سبز و شاداب درخت کی شکل میں امت مسلمہ کی قیادت کیلئے جانباز و سرخیل فراہم کررہا تھا تو دوسری جانب ندوہ العلماء نے اس میں چار چاند لگانے کیلئے افکار و نظریات کے ماہرین کی جماعت تیار کی۔
مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت ندوہ کے معتمد تھے اور شاہ سلیمان پھلواری اس کے رکن تھے۔ آپ دونوں حضرات سید صاحب کی ذکاوت و ذہانت سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے اس قیمتی نگینہ کو وقت سے پہلے ہی پہچان لیا تھا۔ حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اس وقفہ میں جب بھی ندوہ تشریف لاتے سید صاحب حصولِ فیض کیلئے پابندی سے حاضر خدمت ہوا کرتے تھے۔ 1903 میں نواب محسن الملک ندوہ تشریف لائے اور یہاں آپ نے طلباء کا امتحان لیا۔ اس امتحان میں سید سلیمان ندوی کی پہلی پوزیشن تھی۔ آپ نے نواب محسن الملک کی تعریف میں ایک قصیدہ بھی پڑھا جسے سن کر شاہ سلیمان پھلواری نے فرمایا کہ ان شاءاللہ سرزمین بہار میں ہمیشہ ایک سلیمان دین اسلام کی خدمت کیلئے موجود رہے گا۔
مولانا شبلی نعمانی کے زیر سایہ
1905 میں علامہ شبلی نعمانی حیدرآباد چھوڑ کر ندوہ معتمد تعلیم کی حیثیت سے تشریف لائے۔ علامہ شبلی نعمانی کے علم و فضل کا غلغلہ پورے ملک میں تھا۔ ان کی انشاء پردازی کے جوہر علی گڑھ یونیورسٹی کے ایام سے ہی عوام و خواص کے اذہان میں پیوست ہوگئے تھے۔ ایسی شخصیت کو ندوہ میں لایا گیا تو طلباء نے خوشی میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا۔ آپ کی تعریف و توصیف اور علم و ادب کے کارنامے بیان کئے گئے۔ نثر و نظم دونوں کے ذریعہ آپ کو تحفہ پیش کیا گیا۔ سید سلیمان ندوی نے اپنی خوشی کا اظہار فارسی زبان میں قصیدہ کے ذریعہ کیا۔ ( یہ قصیدہ حیات شبلی میں موجود ہے)
علامہ شبلی نعمانی نے چند دنوں میں سید صاحب کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور پھر ہمیشہ کیلئے اپنی سر پرستی میں رکھ لیا۔ پھر یہ ساتھ ایسا ہوا کہ دنیا کو شبلی کے افکار و خیالات سے جتنا سید صاحب نے اپنی تحریروں سے واقف کرایا ہے وہ کسی اور کے نصیبہ کا حصہ نہیں بن سکا۔ علامہ شبلی نعمانی کی معیت میں سید صاحب کو اردو فارسی کے علاوہ عربی زبان و ادب کے لٹریچر اور اخبارات وافر مقدار میں مہیا ہونے لگے۔ اس فراوانی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ نے جدید عربی میں مہارت تامہ حاصل کی اور آپ کے عربی زبان میں لکھے گئے تحقیقی مضامین رسائل میں وقفہ وقفہ سے شائع ہوتے رہے تھے۔
1907 میں فارغ التحصیل طلباء کی دستار بندی کیلئے جلسہ منعقد ہوا۔ سید سلیمان ندوی نے اردو زبان میں تقریر پیش کی۔ اسی درمیان سامعین میں سے کسی نے کہا کہ اگر عربی زبان میں تقریر کریں تو ہم سمجھیں گے۔ سید صاحب نے فوراً عربی زبان میں تقریر شروع کی اور یکلخت عوام کے حواس پر چھاگئے۔ تقریر مکمل ہونے پر علامہ شبلی نعمانی نے کہا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ پہلے سے تیار شدہ تقریر تھی۔ اگر کوئی اب بھی امتحان لینا چاہتا ہے تو اسے اجازت ہے۔ سامعین میں موجود خواجہ غلام الثقلین نے خود سے ایک موضوع منتخب کرکے تقریر کیلئے کہا۔ ندوہ کے عظیم سپوت اور علم و فضل کے پیکر سید سلیمان ندوی کی صلاحیتوں کا لوہا اس وقت ہر کسی نے قبول کیا۔ آپ نے برملا تقریر کی اور خوب کی۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر علامہ شبلی نعمانی نے اپنا عمامہ اتار کر اپنے ہونہار طالب علم کے سر پر باندھ دیا۔
ندوہ سے وابستگی
1907 میں ندوہ سے فراغت کے بعد علامہ شبلی نعمانی نے آپ کو مجلہ ( الندوہ) کا نائب رئیس التحریر منتخب فرمایا اور یہیں سے آپ نے عملی زندگی کی شروعات کی۔ اس زمانہ میں آپ نے بے شمار تحقیقی مضامین لکھے، انہیں ایام میں آپ نے ( خواتین اسلام کی شجاعت) کے موضوع پر مقالہ لکھا جو اب کتابی شکل میں موجود ہے۔
1908 میں آپ کی مصروفیت میں اضافہ ہوگیا اور آپ باضابطہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ یہاں آپ نے درس و تدریس کے ذریعہ طلباء کی علمی تشنگی کو سیرابی عطا کی۔ خصوصاً عربی زبان و ادب کی کتابیں آپ سے وابستہ تھی، نوجوانی کا عالم تھا اور عربی زبان میں مہارت، طلباء میں زبان و ادب کے تئیں ایک نیا جوش پیدا کیا اور ایسا ماحول قائم کیا جو عرصہ دراز تک باقی رہا۔ لیکن ان ایام میں بھی آپ کے قلم میں خشکی نہیں آئی بلکہ روز بروز اس کی چاشنی اور رفتار بڑھتی جارہی تھی۔
1910 میں عربی زبان کیلئے لغات جدیدہ کی تدوین کا کام آپ کے سپرد کیا گیا۔ تمام امور کی انجام دہی کے ساتھ آپ اس کام کو بھی انجام دیتے رہے اور بالاخر دو سال کی عرق ریزی کے بعد بہترین لغات طلباء کیلئے تیار ہوکر منظر عام پر آگئی۔
1910 میں علامہ شبلی نعمانی نے سیرہ النبی کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے لٹریری اسسٹنٹ سید صاحب مقرر کئے گئے۔ بعد کے زمانہ میں علامہ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد آپ نے اس کار خیر کی تکمیل فرمائی۔
الہلال شمارہ میں شمولیت
1912 میں جب عالمی طور پر مسلمانوں پر ہر چہار جانب سے یلغار کی کوشش جاری تھی اور ملک ہندوستان میں آزادی کے ولولے سینوں میں پھوٹ رہے تھے، ایسے وقت میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ( الہلال) شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ علامہ شبلی نعمانی خود بھی آزادی کے پرزور حامی تھے اور آپ کا اثر آپ کے شاگرد پر ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ 1913 میں سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ( الہلال) میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور یہاں سے آپ کی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔
( جاری)
Comments are closed.