امتحاں ہے تیری غیرت تیری خود داری کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد سیف اللہ رکسول

مبائل : 9939920785

ماضی کا ہی دوسرا نام تاریخ ہے اور تاریخی تفصیلات ہمیں بتاتی ہیں کہ جو قوم یا جماعت اپنے ماضی کی طرف جھانک کر نہیں دیکھتی اور اپنی کوتاہیوں سے سبق حاصل نہیں کرتی اس کا مستقبل ہمیشہ سوالیہ لکیروں کے سائے میں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات تو ایسی حالت میں اس کے لئے آگے کی جانب قدم بڑھانا اسے تباہی کے اس موڑ تک پہونچا دیتا ہے جہاں سے صحیح سلامت لوٹنے کی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں،اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے عادی ہوں تو آپ کو بے شمار واقعات اس حقیقت کے ترجمان مل جائیں گے،ویسے بھی جب ہم تاریخ کے پھٹے پرانے پنوں کی طرف جھانک کر دیکھتے ہیں تو اس کا خلاصہ ہمیں اس نتیجے تک لے جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں جب جب ہم نے ماضی سے دامن بچاکر آگے بڑھنے کی کوشش کی یا اپنی سیاسی وسماجی غلطیوں پر مصلحت کی چادر ڈال کر مستقبل کی جانب کوئی قدم اٹھایا تو کامیابی کی بجائے بے اطمینانی اور تذبذب ہمارا مقدر بن گئی اور اس طرح ہم نے اپنی ترقی وخوشحالی کی تمام امیدوں کا گلا خود گھونٹ دیا، شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے ستر سالوں میں ہم چاہ کر بھی سماجی یا سیاسی سطح پر اس ملک کے اندر اپنی وہ زمین تیار نہ کر سکے جس پر مستقبل کی مضبوط تعمیر کھڑی ہو سکتی ہو،حالانکہ ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کئی طرح کی سیاسی غلطیوں کی تلافی ممکن ہے،ہاری ہوئی جنگیں دوبارہ لڑی اور جیتی جا سکتی ہیں،شکستہ قلعے دوبارہ تعمیر ہو سکتے ہیں،رات کے بھولے ہوئے قافلے صبح کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکتے ہیں،لیکن ایک اجتماعی گناہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کے لئے کوئی کفارہ کافی نہیں ہوتا اور بھٹکے ہوئے قافلوں کے لئے ایک رات ایسی بھی آتی ہے جس کے لئے کوئی صبح نہیں ہوتی،اس حقیقت کی روشنی میں اگر آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ہم نے ماضی میں ایک دو بار نہیں بلکہ قدم قدم پر غلطی کی ہے۔
میرے خیال میں کسی بھی قوم یا جماعت کا اجتماعی گناہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف لڑنے کے حق سے دستبردار ہوجاتی ہے،اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کی بستی میں اس کی عظمت کی لکیریں کمزور سے کمزور تر ہو کر مٹ جاتی ہیں، افسوس یہ ہے کہ ہم اپنی غفلت ونادانی یا مصلحت پسندی کی بنیاد پر آزادی کےبعد سے لے کر آج تک یہ غلطی باربار دہرا چکے ہیں،یہ سچ ہے ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ہم نے ایک آزاد ملک کے جمہوری نظام کی سرپرستی میں اپنے سفر کی شروعات کی تھی اور ہمیں آئین سے تحفظ کی جو ضمانتیں ملی تھیں انہوں نے بھی ہمارے اندر خود اعتمادی کے ناقابل یقین جذبے کو جنم دے کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا تھا،لیکن اس کے بعد ہمیں تاریخ کے منظر نامے سے دھیرے دھیرے دور کردینے کا جو کھیل شروع ہوا اس کی بھیانک تصویروں نے ہمیں وقار واعتبار کی بلندی سے اٹھاکر ذلت ورسوائی کی پستی تک پہونچا دیا،حالانکہ جب اور جس حال میں ضرورت محسوس ہوئی ہم نے اس ملک کی تعمیر وترقی میں پوری جوابدہی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنی حصہ داریاں نبھائیں،ہم نے اپنے وطن کی ترقی کے ہرباب کو روشن رکھنے کے لئے قربانیاں دیں،سرحد سے لے کر تعلیم گاہوں،سرکاری ونیم سرکاری محکموں،کھیتوں کھلیانوں،بازاروں اور سیاست کے دروازے تک ہر جگہ اپنی صلاحیت وقابلیت کے جوہر بکھیرے لیکن نتیجے میں فرقہ پرستوں کی جانب سے ملنے والی بے اعتمادی کی سند ہمارے ہاتھوں میں تھمادی جاتی رہی۔
یاد کیجئے تو اس دوران سیاست نے نئی کڑوٹ لئے،وقفہ وقفہ سے انتخابات ہوتے رہے، سرکاریں بنتی اور ٹوٹتی رہیں لیکن ہمیں اس قدر چالاکی کے ساتھ منظرنامے سے غائب کر دیا گیا کہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے،زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف بہار کو ہی دیکھ لیں تو آزادی کے بعد یہاں 1951- 1957- 1962- 1967- 1969- 1972- 1977- 1980- 1985- 1990- 1995- 2000- 2005- 2010 اور 2015 میں کل سولہ مرتبہ اسمبلی الیکشن ہوئے اور اس طویل سفر کے دوران جناب کرشنا سنگھ،دیپ نارائن سنگھ،ونودآنند جھا،کے بی سہائے،مہامیا پرساد سنگھ،ستیش پرساد سنگھ،بی پی منڈل یادو،بھولا پاسوان شاستری،ہری سنگھ،داروغہ پرساد رائے،کیدار پانڈے،عبدالغفور صاحب،جگناتھ مشرا،کرپوری ٹھاکر،رام سندر داس،چند شیکھر سنگھ،بندیشوری دوبے,بھاگوت جھا آزاد،ستیندر نارئن سنگھ، لالو پرشاد یادو،رابڑی دیوی،جیتن رام مانجھی،نتیش کمار جیسے وزرائے اعلی نے وقفے وقفے سے اپنی ذمہ داریاں نبھاکر بہار کے قدم کو آگے بڑھنے کا سنہرا موقع میسر کیا لیکن جب آپ اس طویل فہرست پر نظر ڈالیں گے تو سوائے عبدالغفور صاحب ( جو 2 جولائی 1973 سے 11 اپریل 1975 تک بہار کے تیرہویں وزیر اعلی کی حیثیت سے اپنے عہدے پر رہے) کے علاوہ کوئی اور دوسرا مسلم نام دکھائی نہیں دے گا،جب کہ حکومتوں کے بنانے کے لئے ہم نے تاریخ کے ہر دور میں اس طرح کلیدی رول اداکیا کہ ہماری پہچان گیم میکر کے طور پر ہوتی رہی،مگر ہماری وفاداری کے چرچے تک کسی نے نہیں کئے،برسوں ہمارا رشتہ کانگریس سے رہا،اس کے بعد کئی الٹ پھیر کے ساتھ ہی ہم نے بلا کسی شرط ومعاہدے کے خود کو آرجے ڈی کا فکری غلام بنا کر برسوں اس کا جھولا ڈھویا پھر پلک جھپکتے ہماری وفاداریاں نتیش کمار کی پارٹی سے وابستہ ہوگئیں مگر جب آپ ان سب کے بیچ نتائج پر غور کریں تو شاید آپ کو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا،اب ایسا کیوں ہوا یہ سوال سے زیادہ غور وفکر کا موضوع ہے،کیونکہ ہم نے ہر انتخاب کے موقع پر کسی نا کسی پارٹی کا عملی غلام بن کر خود کو اس کی مرضی کے تابع کر لیا نہ کبھی ان سے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے مطابق ٹھوس منصوبہ بندی کی اور نہ ہی اپنے حقوق ومطالبات کے لئے ان پر ایسے دباو بنائے جو انہیں ہماری طاقت وحیثیت کا احساس دلا سکے۔
اسی منظر نامے کے بیچ ایک بار پھر بہار کا اسمبلی الیکشن ہمارے سروں پر سوار ہے اب بھی وہی پارٹیاں ہیں اور ان کے وہی تیور ہیں جو آج سے پہلے تھے کچھ نئی پارٹیوں کے سامنے آنے سے منظر نامہ تھوڑا بدلا بدلا سا ہے مگر سوچنے اور عمل کرنے کا انداز وہی پرانا ہے،پہلے کی طرح اب بھی وعدوں اور ارادوں کے پٹارے کھولے جا رہے ہیں نئی نئی اسکیموں کے حوالے دے کر عوام کےطمزاج پر حاوی ہونے کی کوشش کی جارہی ہے،پرانی کوتاہئوں کو دور کرکے ہمیں سیاسی صف بندی میں حصہ دار بنانے کی بجائے اونچے اونچے سپنے دکھاکر ہمیں اپنا قائل کرنے کا حربہ اپنایا جارہا ہے،ہماری معاشی وتعلیمی پسماندگی پر بات کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے برخلاف ہماری بے بسی کا مزاق بنانے پر زیادہ توجہ دینے کی حکمت عملی اپنا کر ہمارے دلوں میں اترنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے،غرض یہ کہ پرانا شکاری اب نئے جال اٹھائے ہمارے سامنے ہیں،ظاہر ہے ایسی صورت حال میں اگر ہم اپنے ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کے لئے کسی کے بھی بہکاوے کا شکار ہو گئے اور ہم نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے اپنے جال کو موڑ کر رکھ دیا تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دن پہلے سے زیادہ خطرناک اور صبر آزما ہو ۔
کیونکہ ہماری تعلیمی ومعاشی بدحالی کے علاوہ وہ تمام منظرنامے ہماری جانب دیکھ کر ہمیں سنبھلنے کا موقع دے رہے ہیں جنہیں ہمارا مقدر بناکر ہماری بے بسی کا مزاق بنایا جاتا رہا ہے،جہاں ایک طرف موب لینچنگ کے ذریعہ موت کی نیند سلا دیئے گئے درجنوں معصوم،کالے قانون کے خلاف مہینوں اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر پڑی رہنے والی مائیں، بہنیں،روزگار کے لئے دردر بھٹکتے ہماری قوم کے نوجوان ہمیں بہت کچھ سوچ کر آگے بڑھنے کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف فرقہ پرست جماعتوں کی سازشیں بھی ہمیں پل پل بدلتے حالات سے آگاہ رہنے کا ہنر سکھا رہی ہیں،ایسی صورت حال میں ہماری سنجیدہ فکر اور اتحادی فیصلہ ہی کسی خوشگوار نتیجے کو جنم دے گا ورنہ اگر ہم نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کسی جلد بازی یا بے شعوری کا شکار ہوکر اپنے ووٹ منتشر کر دیئے یا کھنکتے سکوں کی پوجا کی تو پھر اس کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،بس یہ سمجھ لیجئے کہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں آپ کی غیرت وخود داری کا بڑا امتحان ہونے والا ہے۔

Comments are closed.