*ڈاکٹر کفیل خان سمیت کئی ایک مسلم نوجوان پس دیوارزنداں : اور قائدین کی خاموشی بے معنی! پہلی قسط

ڈاکٹر کفیل خان سمیت کئی ایک مسلم نوجوان پس دیوارزنداں : اور قائدین کی خاموشی بے معنی

 

*پہلی قسط /١*

 

✍?ازقلم : عبد الرحمن چمپارنی ؔ

ڈاکٹر کسی بھی قوم سے ہو وہ قوم وسماج کا مسیحا اور خادم ہوتا ہے ، بیماری کی وجہ سے حیات وممات کے کشمکش میں زندگی گذارنے والے انسان کا علاج ومعالجہ کرکے زندگی بخشنے والا وہ ڈاکٹر ہی ہوتا ہے ، ڈاکٹر کو ہر قوم اور ہر سماج کی ضرروت پڑتی ہے ، امیر ، غریب ، عالم ، جاہل ، کسان ،انجنیئر ، مومن ،مشرک ، یہودی ، نصرانی ،عیسائی ، پارسی ،غرض ہر فرد بشر کو اس کی ضرورت ہوتی ہے ، ا س لیے سب ڈاکٹر کی عزت و احترام کرتے ہیں ، ادب اور وقار سے پیش آتے ہیں ، یہ سبھی کے لیے ضروری بھی ہے کہ ایک ڈاکٹر جو ہماری خدمت کر رہا ہے ، اور ہمارا سیوا کو اپنی نوکری ، خدمت اور فریضہ گردان رہا ہے ، اس سے اچھے طریقے سے پیش آیا جائے ، اور یہ زندہ قوم اور محسن کی احسانات کو یاد کرنے والی قوم کہلاتی ہے ، لیکن ہندوستان میں چند سالوں سے کچھ ایسے بھی لو گوں کی چہرہ نمو دار ہورہی ہے ، کہ جنہیں بھی ڈاکٹروں کی تو ضرورت پڑتی ہے ، علاج و معالجہ تو ان ہی سے کراتے ہیں ، لیکن یہ لوگ بے حس ، بے ضمیر ،احسان فراموش ہیں ، انہیں اپنے منصب اور عہدے کا غرور اور گھمنڈ ہے ، یہ وہی لوگ ہیں ، جو ہر چیز میں بھید بھاؤ ، چھوا چھوت اور ہندو مسلم سے کام لے رہے ہیں ، وہ متعصب پسند ، متعصب رویہ لوگ ہیں ، جن کا مقصد ہی تعصب پسندی کو پروان چڑھانا اور آپسی بھائی چارہ ، ہم آہنگی ، اور اخوت و بھائی چارگی کو ختم کرنا ہے ، ایسے شرپسند عناصرچند ہی لوگ ہیں ، جنہیں عوام الناس حکومت اور ارکان حکومت حالیہ سے تعبیر کر رہی ہے، یہ ظاہری اعتبار سے ہر ایک کی امن و امان ، اور تحفظ کی باتیں کرتے ہیں ، چنا چہ کبھی گئوکی حفاظت کے لیے اس کی ذبح پر پابندی عائد کر کے مسلمانوں کے عظیم تہوار قربانی کرنے میں رخنہ اندازی کرتے ہیں ، یہ وہی لوگ ہیں ، کہ جب تین مہینے قبل مرآدباد اور اندور میں کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لئے جارہے ڈاکٹروں پر بعض نادان اور جاہل لوگ جنہیں پہلے سے ہراساں کیا جاچکا ہوتا ہے ، وہ ڈاکٹروں پر اپنی دماغی توازن کو کھوکر ڈاکٹروں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں ، تو اس وقت ہر چیز کے رکھوالے کہلانے والے اور پس پر دہ ظلم و جبر کی بازار گرم کرنے والے ظالم و جابر لوگ ڈاکٹروں کی حفاظت کی باتیں کرتے ہیں ، لیکن افسوس ! تماچا ہو ان کے دوہرے رویہ اور دمنافقانہ چہرہ پریہی لوگ اپنی کمیوں، کوتاہیوں اور لا پرواہیوں کو چھپانے کے لیے گودی میڈیا کے سامنے ہر چیز کی تحفظ کے لیے انٹرویو دیتے رہتے ہیں ، اور علانات پر ا علانا ت کر کر عوام الناس کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں ، اور جس کی تحفظ کی بات کرتے ہیں ، اسی عوام ، ڈاکٹر وں اور قوم کے خادموں کو جیل میں ڈلوادیتے ہیں اور اپنی غلطیوں اور خامیوں پر پردہ ڈالنے کی ممکنہ کوشش کرتے ہیں ، یہ وہی لوگ ہیں جو مردہ ہتھنی پر شو ر شرابہ مچاتے ہیں اور قاتل کو مسلمان ٹہرانا چاہتے ہیں ، مگر حاملہ عورت کو سلاخوں کے پچھے کر دیتے ہیں ،اس تمہید سے بغیر تفکیر وسوچ کہ واضح ہو جاتا ہے کہ معصوم ، بے قصور ، مسیحائے قوم ڈاکٹر کفیل خان ہیں اور مجرم خود حکومت

*ڈاکٹر کفیل خان پر ظلم کی کہانی خود ان کی زبانی*

ڈاکٹر کفیل خان کو کیوں جیل میں ڈالا گیا اور کس طرح ان پر ابھی تک ظلم و ستم کے بادل منڈلا رہا ہے ، خود ڈاکٹر کفیل کے زبانی سماعت فرئیے ، جسے ڈاکٹر کفیل خان نے ۲۰۱۷ ؁ ء میں محکمہ جاتی میں کلین چیٹ ملنے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا :

‘‘ ۱۰؍ اگست ۲۰۱۷ ؁ ء شام تقریباً ۳۰ : ۷ بجے آر ڈی کالج میں آکسیجن کی سپلائی نہ ہونے سے بچوں کی اموات کا معاملہ میری ا طلاع میں آیا ، جس کے بعد میں نے اور میری ٹیم نے فوری طور پر ۵۰۰؍ آ کسیجن کا بندوبست اپنے اخراجات سے کیا اور ۵۴؍ گھنٹوں کی اس جدو جہد میں ہم ۴۰۰؍ میں ۳۳۰ ؍ بچوں کو بچانے میں کامیاب ہوئے جب کہ ۷۰؍ بچے دم توڑ چکے تھے ’’

مزید کہتے ہیں کہ :

‘‘ میں صرف جونیئر ڈاکٹر تھا ، لیکن یوگی حکومت نے خود کو بچانے کے لیے مجھے کالج وائس پرنسپل سپر ینڈنٹ آفسر ڈپارٹمنٹ ہیڈ تک بناد یا ، ڈاکٹر کفیل نے کہا ، کہ موجودہ دور میں سماج کے اور مذہبی منافرت کا اس قدر زہر بھر دیا گیا ہے ، سماج کے رہنے والےاچھے لوگوں کی اچھایئاں تک دیکھ نہیں پاتے ، میں نے بچوں کی جانوں کی حفاظت کے دوران یہ قطعی نہیں سوچا کہ یہ ہندو کا بچہ یا مسلمان کا بچہ ہے ،اور نہ ہی گزشتہ سالوں میں یوگی حکومت سے یہ شکایت کی ہے ، مجھے مسلمان ہونے کے ناطے پریشان کیا جارہا ہے ، ڈاکٹر کفیل نے کہا : کہ مجھے کلین چیٹ مل گئی ہے ، لیکن اس دوران جو میرے ساتھ زیادتیاں ہوئی ، میرے بھائی پر گولیاں چلائی گئیں ، اور میرے اہل خانہ کو بلاوجہ پریشان کیا گیا ، اور جیل میں میرا استحصال کیا گیا ، انہوں نے کہا محکمہ جاتی جانچ میں کلین چیٹ کے ملنے کے بعد بھی یوگی حکومت اب یہ کہہ رہی کہ اب بھی میں سبھی الزامات سے بری نہیں ہوا ہو ں ، اس لیے حکومت نے مجھ پر پرائیویٹ ٹریننگ نہیں لینے کا الزام لگایا ہے ، جو بے بنیاد ہے کیوں کہ میں نے سرکاری ملازم بننے سے قبل پرائیویٹ ٹریننگ لی تھی، اور بی آرڈی میڈیکل کالج میں کسی قسم کی کوئی پرائیویٹ ٹریننگ نہیں لی ہے ، جس کا ذکر خود محکمہ جاتی جانچ نے اپنی رپورٹ میں بھی کیا ہے ’’

دیکھئے : انقلاب ،اخبار ، نئی دھلی( میرٹھ ) سنڈے میگزین ، ۲۹؍ ستمبر ۲۰۱۹ ء

اس ظلم کی کہانی کفیل کی زبان کو بار بار پڑھیے اور سوچیے کہ اگر اس جگہ میں ہوتا ، تو مجھ پر کیا گذرتا ، میرے والدین اور بیوی و بچے کس طرح تڑپ رہے ہوتے اور بھائی و بہن کس طرح میرے اوپر ےہونے والے ظلم کو مظلوم تصور کرکے برداشت کر رہے ہوتے ،

جاری

Comments are closed.