15/ عظیم شخصیات کے سوانحی نقوش اور ان کی تدریسی و تصنیفی خدمات : پس مرگ زندہ کی روشنی میں شخصیات نمبر کی پہلی قسط /1 ✍? از قلم : عبد الرحمن چمپارنی

15/ عظیم شخصیات کے سوانحی نقوش اور ان کی تدریسی و تصنیفی خدمات : پس مرگ زندہ کی روشنی میں
شخصیات نمبر کی پہلی قسط /1
✍? از قلم : عبد الرحمن چمپارنی
کسی بھی انسان کی رفعت و منزلت ، ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کے لیے اس کے پچھے کسی نہ کسی شخص کا دست شفقت ہوتا ہے ، اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کے پیش نظر کسی نہ کسی عظیم شخصیت کے حالات ، ان کی سیرت و شخصیت ہوتا ہے چناچہ ان کے حالات ،جد و جہد ، جفاکشی ، شو ق وذوق اور صبر وتحمل سے سبق لیا جاتا ہے ، پھرعام طالب علم اسی شوق وذوق ، محنت ولگن ،اور تمام تر دشواریوں کو پشت پناہ کر کے پڑھتا ہے ، اور آگے بڑھتا ہے ، ایک وقت آتاہے کہ وہ قوم کاترجمان اور خادم ہوتا ہے ، انہی چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے اور اکابرین کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے سوانح و سیرت لکھے جاتے ہیں ، شخصیتیں اللہ تعالی کی عظیم نعمتیں ہیں ، چناچہ مفکر اسلام مولانا ابو الحسن میاں ندوی ؒ رقم طراز ہیں :
‘‘ اسلام ابدی اور خدا کا پسندیدہ دین اور امت مسلمہ ا س کا شاداب اور سدا بہار درخت ہے ، یہ خدائی ترکش ہے کہ نہ اس کے تیر ختم ہوتے ہیں ، اور نہ نشانہ خطا ہوتا ہے ، سب سے بڑا ثبوت اس امت میں ایسے مصلحین و مجاہدین ، خدادادصلاحیتوں سے مالامال ، موید من اللہ ، نادرۂ روز گار اور اسلام کے لیے باعث صد افتخار شخصیتیں ہیں ، جو ناسازگار حالات مخالف ماحول اور بیم ورجا کی تیرہ تاریک فضا میں ایک ایسی قوم میں پیدا ہوتی ہے ، جو فکری زوال و اضمحلال، روحانی افلاس ، ارداکے کی کمزوری ، عزم و ہمت کی پستی ، اخلاقی فساد، راحت طلبی ، و عافیت پسندی ، ہر قوت وطاقت کے سامنے سپر اندازی اور اصلاح حال سے مایوسی کا شکار ہوتی ہے ، اس وقت یہ پوری نسل ایک ہی سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے ، ’’
ندوی ، ابوالحسن ، مط’ انڈیا، پرانے چراغ ،ط : ۳ کا کوری آفسیٹ پریس لکھنؤ ( ج؍ ۳ ص؍ ۱۷ )
الغرض یہ کہ شخصیتوں کی وجود کے لیے شخصیات کی سوانح وسیرت کا جاننا از حد ضروی ہے ، بندہ نے دارلعلوم دیوبند کے ایک موقر اور ادیب وقت حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف کردہ کتا ب پس مرگ زندہ کااس لاک ڈاؤ ن میں مطالعہ کیا ، و الحمد اللہ علی ذالک
دوران مطالعہ اکابر ین کی سوانح کو مختصر اور دنہایت ہی مختصر انداز میں رقم کیا ، اب اسے برائے افادہ ٔ عام اسے نشر کر رہا ہے ، اللہ تعالی اسے قبول فرمائے آمین
*حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندیؒ*

آپ کانام : سید محمد میاں آپ ؒ کے والد محترم کا نام : سید منظور میاں تھا ۔
آپ ؒ کی لادت : آپ ؒ ۱۲؍ رجب المرجب ۱۳۲۱ھ ۴؍ اکتوبر ۱۹۰۳ کو دیوبند میں پید ا ہوئے
تعلیم وتعلم کا آغاز : آپ ؒ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے کیا، ۱۹۱۶ء؁ میں دارلعلوم میں درجہ ٔ فارسی میں داخلہ لیا ، اور ۱۹۲۵؁ ء بہ مطابق ۱۳۳۴؁ ھ میں دارلعلوم سے فراغت حاصل کی ، آپ کے دورہ ٔ حدیث شریف کے اساتذہ میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ شیخ الادب مولانا اعز از علی صاحب امروہوی ؒ ، مولانا سید اصغر حسین صاحب دیوبندی ؒ ، مولانا غلام رسول ہزاروی ؒ اساطین روز گارتھے ۔
عہدے اور مناصب
۱۔ آپ ؒ جمعیۃ علمائے ہند کے ناظم تھے۔
۲۔ مدرسہ شاہی مرآدباد کے کن شوری ، اعزازی صدر اور پھرا سکے بعد صدر مہتمم رہے ۔
۳۔ آپ ؒ مدرسہ امینیہ دہلی کا شیخ الحدیث اور مفتی کے عہدے پر فائز تھے ۔
درس و تدریس
آ پ ؒ نے مدرسے حنفیہ شہر آرہ ، مدرسہ شاہی مرادآباد،اور مدرسہ امینیہ دہلی میں دی ہے ۔
اصلاحی تعلق : پ ؒ کا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ سے تھا
آپ کی تصانیف:
آپ ؒ کی تصانیف کئی ایک کتابیں ہیں، اس میں اہم اور مشہور ۔ علمائے ہند کا شاندارماضی ۲۔ علمائے حق۳۔ ہندوستان میں شاہان مغلیہ کے عہد میں ہمارا وطن اور اس کی شرعی حیثیت ۵ ۔ مشکاۃ الآثار ہیں ،
آزادی ہند میں آپ کی جد و جہد : ؒ آزادی وطن کی سرگرمیوں میں سرگرم حصہ لیا اور مرآدباد ،دہلی ، میرٹھ،بریلی ، فیض آباد کی جیلوں میں قید وبندکی مصبتیں برداشت کی ،
قرآن کریم کی حفظ : آپ ؒ نے آزادی ٔ ہند کے حصول میں جیلوں کے کالی کوٹھریوں میں حفظ کیا ۔
مسلمانوں کی ارتدا دسے بچانے کی سعی مشکور
ہنگامہ آزادی کے دوران جہاں جہاں مسلمان ہجرت کر گئے تھا ، وہاں ارتداد کا خطرہ زیادہ ہونے لگا ،لوگ خارج از اسلام ہونے لگے ،آپ ؒ نے وہاں ج ہا کر مکتبیں قائم کی ، اور اپنی تعلیما ت کے ذریعہ اسلام پر قائم رہنے کادرس دیا
آپ کی وفات آپ ؒ چہار شنببہ ۶؍ شوال المکرم ۱۳۹۵ ھ مطابق ۲۴؍ اکتوبر ؍ ۱۹۷۵ ءشام سارھے چار بجے اپنی جان جاں آفریں کے حوالہ کیا ۔
دیکھئے : پس مرگ زندہ : مصنف حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ،
پانچواں ایڈیشن : جمادی الاولی ۱۴۳۸ ھ ۔ فروری ۲۰۱۷ ( ص ؍ ۱۰۵۔۱۰۷ )

Comments are closed.