آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
کورونا میت کی تابوت میں تدفین
سوال: کورونا سے مرنے والے کی تدفین میں کافی احتیاط برتی جاتی ہے، بعض ہسپتالوں میں کفن میں لپیٹے ہونے لاش دینے کے بجائے تابوت میں پیک کر کے لاش دی جاتی ہے، اور ڈاکٹر ورثاء سے کہتے ہیں کہ اسی طرح تابوت کو دفن کر دیا جائے تو کیا تابوت سمیٹ لاش کو دفن کیا جا سکتا ہے، جب کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے؟ ( محمد محسن، عادل آباد)
جواب: عام حالات میں لاش کو تابوت میں رکھ کر دفن کرنا مکروہ ہے، اور اس کی ایک وجہ وہ بھی ہے جو آپ نے ذکر کی ہے کہ اس میں عیسائیوں سے مشابہت پائی جاتی ہے؛ لیکن اگر کوئی مجبوری ہو، جیسے: زمین بہت دلدلی ہو تو ایسی شکل میں تابوت کے ساتھ دفن کرنا بھی جائز ہے: ولا بأس باتخاذ تابوت ……… عند الحاجۃ کرخاوۃ الأرض أي یرخص ذلک عند الحاجۃ وإلا کرہ‘‘ ( در مختار مع الرد، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی دفن المیت:۳؍ ۱۴۰) بیماری کے پھیلاؤ کا اندیشہ اور قانون پابندی بھی یقینی طور پر ضرورت میں شامل ہے؛ اس لئے کورونا مریض کو تابوت میں دفن کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اقامت میں ’’حي علی الصلوۃ….. ‘‘ میں گردن دائیں بائیں موڑنا
سوال: اذان میں حی علی الصلاح اور حی علی الفلاح کہتے ہوئے گردن دائیں بائیں موڑی جاتی ہے، شاید اس کا مقصد دائیں بائیں اذان کی آواز کو پہنچانا ہے، اقامت میں چوں کہ اس کی ضرورت نہیںہوتی تو کیا اس میں بھی حی علی الصلاح یا حی علی الفلاح کہتے ہوئے دائیں بائیں گردن موڑنی چاہئے؟ ( مصباح الاسلام، کلکتہ)
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کو بھی اذان سے تعبیر فرمایا ہے: بین کل أذانین صلاۃ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۲۴) اس میں دواذان سے مراداذان واقامت ہے؛ لہٰذا اس عمل میں جو حکم پہلی اذان کا ہے، وہی حکم دوسری اذان یعنی اقامت کا بھی ہوگا، علامہ حلبیؒ نے اس کی صراحت کی ہے؛ کیوں کہ اس طرح اقامت کہنے والے مسجد میں موجود دائیں اور بائیں طرف کے مصلیوں کو جماعت کی طرف متوجہ کرسکتے ہیں: ویحول وجھہ یمینا عند حی علی الصلاۃ ، وشمالاََ عند حی علی الفلاح فی الأذان والاقامۃ؛ لأنہ یخاطب بھما الناس فیواجھھم وھو التوارث‘‘ (غنیۃ المستملی،: ۱۷۴)
رِنگ ٹون کی اذان کا جواب
سوال: آج کل بعض موبائل میں رنگ ٹون کے طور پر اذان کے کلمات محفوظ کئے گئے ہیں، جب آدمی فون کرتا ہے تو اس وقت وقفہ انتظار میں اس کو اذان کی آواز آتی ہے، کیا اس اذان کا جواب دینا واجب ہے؟ (عبدالمجید، مولا علی)
جواب: اصل میں اذان ایک عبادت ہے اور اسی حیثیت سے اس کا جواب دینے کو کہا گیا ہے، جیسا کہ سجدۂ تلاوت کا حکم ہے، بے جان آلات اور مشینوں کے ذریعہ اگر کوئی عمل وجود میں لایا جائے تو یہ عبادت میں شامل نہیں ہے، عبادت وہ عمل ہے جو مکلف سے صادر ہو؛ اس لئے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ اس طرح کے رنگ ٹون لگانا بھی درست نہیں ہے، اس میں کلمات اذان کی بے حرمتی اور اس کا بے محل استعمال کرنا ہے؛ البتہ اگر آپ نے کہیں فون کیا، وہاں کی مسجد میں اذان ہو رہی تھی، موبائل سے اس اذان کی آواز آنے لگی، تو اس اذان کا جواب دینا چاہئے، جیسے لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ مؤذن کی آواز پہنچتی ہے اور اس کا جواب دیا جاتا ہے؛ کیوں کہ یہ محض اذان کی نقل نہیں ہے؛ بلکہ سچ مچ اذان ہے۔
وکالت کا پیشہ
سوال: وکالت کے پیشہ کو بعض علماء ناپسند کرتے ہیں؛ کیوں کہ آج کل وکیل جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتا ہے اور صرف فیس کے لئے مظلوم کے بجائے ظالم کی مدد کرتا ہے؟ ( فاروق احمد، وجے واڑہ)
جواب: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیشہ وکالت میں وہ برائیاں پائی جاتی ہیں، جن کا آپ نے ذکر کیا ہے؛ لیکن وکالت کا اصل مقصد جھوٹ کی تائید اور ظالم کی مدد نہیںہے، اصل مقصد یہ ہے کہ جو مظلوم اپنے دعویٰ کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پاتا ہو، وکیل اس کی مدد کرے؛ اسی لئے یہ پیشہ اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے، اور اس کے جائز ہونے پر فقہاء کا اتفاق ہے: اتفق الفقھاء علی أن الوکالۃ جائزۃ ومشروعۃ استدلوا علی ذلک بالقرآن الکریم والسنۃ المطھرۃ والإجماع والمعقول (الموسوعہ الفقھیۃ : ۴۵؍۶- ۷)البتہ پیشہ ٔ وکالت سے متعلق مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ جھوٹ اور ظلم کی حمایت پر مبنی مقدمہ قبول نہ کریں، استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ فرماتے ہیں:’’ اگر یہ سچے مقدمہ میں باقاعدہ کام اور اجرت معین کر کے وکالت کی جائے اور کوئی کام خلاف شرع اس میں نہ کیا جاوے تو نفسِ وکالت اور اس کی اجرت کا روپیہ اور اس کا کھانا درست ہے‘‘ (فتاویٰ محمودیہ: ۱۶؍۴۵۰) مزید لکھتے ہیں’’ اور جس وکالت میں معصیت پر اجرت لیا جائے یعنی جھوٹے اور ناحق مقدمہ کی پیروی کی جائے اور ظالم کی اعانت کی جائے، ایسی وکالت اور اس کی آمدنی ناجائز ہے‘‘۔
بیوی کا گھر میں رہتے ہوئے جاب کرنا
سوال: میری بیوی انفارمیشن ٹکنالوجی میں ماسٹر تھی، ان کو ایک کمپنی سے ملازمت مل گئی، جس میں گھر بیٹھے نیٹ کے ذریعہ اپنا کام انجام دینا ہوتا ہے، اپنے اس کام کے ساتھ ساتھ وہ گھریلو کاموں کو بھی انجام دیتی ہیں، میں نے ان کو منع نہیں کیا؛ لیکن باضابطہ اجازت بھی نہیں دی، کیا ان کا اس طرح کام کرنا شرعاََ جائز ہے یا گناہ ہے؟ (شائستہ انجم، بنجارہ ہلز)
جواب: عورت اگر کسب معاش کی کوئی ایسی صورت اختیار کرے، جس میں کوئی خلاف شریعت بات نہیں پائی جاتی ہو اور شوہر کا حق بھی متأثر نہ ہوتا ہو، تو وہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی ایسے کام انجام دے سکتی ہے، اور شوہر کو اس سے منع نہیں کرنا چاہئے: ’’ وللزوجۃ أن تعمل فی البیت عملا لا یضعفھا ولا ینقص جمالھا وللزوج أن یمنعھا مما یضرھا‘‘ (الفقہ الاسلامی:۱؍۷۳۸) آپ نے جس کام کا ذکر کیا ہے، وہ بھی اسی نوعیت کا ہے؛ اس لئے یہ جائز ہے، اور بہتر ہے کہ آپ اس سے منع نہ کریں۔
حالت حیض میں نکاح
سوال: ہندہ کا نکاح ہوا، نکاح کے وقت وہ حالت حیض میں تھی، کیا اس کی وجہ سے اس کے نکاح میں کوئی نقص پیدا ہو جائے گا؟ ( عبدالمعید، ٹولی چوکی)
جواب: نکاح کے درست ہونے کے لئے عورت کا پاکی کی حالت میں ہونا ضروری نہیں ہے؛ اس لئے نکاح درست ہوگیا؛ البتہ بہتر ہے کہ پاک ہونے کے بعد ہی اس کو رخصت کیا جائے، اور یہ بات بھی مناسب ہے کہ اگر نکاح کے ساتھ ہی رخصتی مقصود ہو تو گھر کی خواتین میں سے کوئی لڑکی کی صورت حال معلوم کر لے اور نکاح کے لئے ایسی تاریخ مقرر کی جائے جو پاکی کے ایام ہوں۔
میڈیکل انشورنس
سوال: علاج دن بہ دن گراں ہوتا جا رہا ہے، ابھی تو کورونا کی وباء کے درمیان میڈیم آمدنی والے بھی پرائیویٹ ہاسپیٹل میں علاج نہیں کرا سکتے اور سرکاری دواخانہ کا حال اتنا برا ہے کہ وہاں جانے سے بہتر ہے گھر میں مر جانا، کیا اس صورت حال میں میڈیکل انشورنس کرانے کی گنجائش ہے؟ (عبدالباسط، مہدی پٹنم)
جواب: لائف انشورنس کی صورت تو ناجائز ہے؛ کیوں کہ اس میں سود بھی ہے اور قمار بھی، ایک دو حضرات کو چھوڑ کر عالم اسلام اور برصغیر کے اہل افتاء کی یہی رائے ہے، اور یہی درست ہے؛ لیکن میڈیکل انشورنس کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، زیادہ تر لوگ اس کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض محقق علماء اور ارباب افتاء اس کو جائز کہتے ہیں؛ کیوں کہ اس میں روپے کا تبادلہ روپے سے نہیں ہے؛ بلکہ خدمت اور ادویہ سے ہے، اور سود اس وقت پیدا ہوتا ہے جب روپے کا تبادلہ روپے سے ہو اور ایک طرف سے زائد رقم ہو، اسی طرح اگرچہ اس میں ابہام ہے کہ نہ معلوم ممبربننے والا بیمار ہو یا نہیں ہو، اسے کمپنی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پیش آئے یا نہ پیش آئے اور پیش آئے تو کس قدر پیش آئے؟ لیکن یہ ایسا ابہام نہیں ہے، جس سے نزاع پیدا ہو، یہی تجربہ ہے؛ اس لئے اس حقیر کی رائے میں یہ صورت جائز ہے؛ البتہ جن لوگوں کے معاشی حالات ایسے ہوں کہ وہ میڈیکل ایڈ کے بغیر بھی اپنا علاج کرا سکتے ہوں تو ان کو اس سے بچنا چاہئے؛ کیوں کہ جس چیز کے جائز ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف ہو، اس سے بچنے میں احتیاط ہے۔ واللہ اعلم
جی ایس ٹی کی رسید کی خریدوفروخت
سوال: زید کو جی ایس ٹی ادا کرنے کی رسید حاصل ہے، بکر اگر اس رسید کو پیش کر دے تو وہ جی ایس ٹی سے بچ سکتا ہے، تو کیا بکر زید سے جی ایس ٹی کی رسید کم رقم میں خرید کر سکتا ہے؟ (مصباح اختر، بھیونڈی)
جواب: جی ایس ٹی کو اسی قیمت میں یا اس سے کم یا زیادہ قیمت میں فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوںکہ ایک تو وہ اس کا مالک نہیں ہے؛ اس لئے کہ جی ایس ٹی کی رقم تو خریدار نے ادا کی ہے نہ کہ اس نے، دوسرے: کوئی بھی ایسی دستاویز جو پیسے کی نمائندگی کرتی ہو، اس کو کم یا زیادہ قیمت پر بیچنا سود میں شامل ہے؛ اس لئے نہ اس کا فروخت کرنا جائز ہے اور نہ خریدکرنا۔
تجارتی ویب سائٹ پر تصویر
سوال: میں آن لائن چیزیںفروخت کرتا ہوں، بعض دفعہ خاص کر ملبوسات کا اشتہار دیتے ہوئے تصویر بھی دینی پڑتی ہے، اس کے بغیر سامان کا تعارف نہیں ہو سکتا، اور نہ گاہک کو ترغیب ہوتی ہے، کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟ (محمد افنان، بنگلور)
جواب: ایسی تصویر جو کاغذ ، کپڑا یا دیوار پر نقش ہو جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر صرف سافٹ کاپی ہو اور اسے ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے، نیز عورت کی تصویر نہ ہو اور جسم کا کوئی ایسا عضو نظر نہ آتا ہو جو ستر میں شامل ہے تو خریدوفروخت کے لئے ایسی تصویر کے استعمال کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ عصر حاضر کے بعض اکابر اصحاب افتاء نے اس کی اجازت دی ہے،واللہ اعلم۔
سود کی رقم انکم ٹیکس میں دینا
سوال: معلوم ہوا کہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جا سکتی ہے، تو اگر میں ایک بڑی رقم بینک میں ڈپازٹ کرادوں اور اس سے ملنے والی سود کی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرتا جاؤں تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟ ( حبیب اللہ خان، ملے پلی)
جواب: سرکاری بینکوں میں اس مقصد سے رقم جمع کرنا کہ اس پر حاصل ہونے والی سودی رقم کو سرکاری ظالمانہ ٹیکسوں میں ادا کر دیا جائے، جائز نہیں ہے، ہاں، اگر کسی جائز ضرورت کی بناء پر رقم جمع کی اور سرکاری بینک نے اس پر انٹرسٹ دیا اور انٹرسٹ کی رقم انکم ٹیکس یا جی ایس ٹی میں دے دی جائے تو اس کی گنجائش ہے، خاص اس مقصد کے لئے رقم جمع کرنا یا کسی شخص اور غیر سرکاری بینک سے حاصل ہونے والے سود کو ٹیکس میں دینا جائز نہیں ہے۔
Comments are closed.