سلجوقی امیر سعد الدین کوپیک ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری-محمد اعظم ندوی

سلجوقی امیر سعد الدین کوپیک

ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری

محمد اعظم ندوی

 

*7013501744*

 

سلجوقی سلطنت در اصل ایشیائے کوچک(Asia Minor) کی عظیم سلطنت تھی، جس نے اپنے دور عروج میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا کے پورے خطہ میں 429ھ؍1037ء سے708ھ؍1308ء تک تقریباً 280 ہجری سال پورے کروفر کے ساتھ حکمرانی کی، یہ دولت عباسیہ کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی، اس کا پہلا عہد زریں تقریباً ڈیڑھ سو سال کو محیط ہے،اسی دورمیں سلاجقۂ عظام یعنی طغرل بیگ، الپ ارسلان اورملک شاہ سلجوقی کے حیرت انگیز کارنامے دنیا کے سامنے آئے۔

 

پھرسیاسی مخاصمت، داخلی انتشار اورطوائف الملوکی کی نامحمود روایت سے متعدد مراحل میں یہ سلطنت تقریباً پانچ حصوں میں تقسیم ہوگئی، انہیں میں سب سے طاقتورترکی نژاد سلاجقۂ روم یا سلجوقیان روم ہیں جن کی حکومت 470ھ؍1077ء سے 708ھ؍1308ء تک رہی، اور در حقیقت سلطان علاء الدین کیقباد اول (وفات:634ھ؍1237ء) تک اس کی شان وشوکت رہی، اس کے بعد وہ زوال آمادہ ہوگئی۔

 

 

مسلم جغرافیہ دانوں اور سیاحوں نے بلاد روم کا لفظ اس پورے علاقے کے لیے استعمال کیا ہے جس پر بازنطینی حکومت تھی، اسی مناسبت سے ان کو سلاجقۂ روم کہتے ہیں؛چونکہ یہ حصہ جہاں انہوں نے اپنی حکومت قائم کی،اس کو بازنطینیوں سے حاصل کیا تھا، ان کی حکومت ایشیائے کوچک کے علاوہ آرمینیا اور جزیرۂ فرات تک پہنچ گئی تھی،پہلے ان کا دار الحکومت ترکی کے شہر نیقیہ(موجودہ نام ازنیق)میں تھا، بعد میں ترکی کے جزیرہ نمائے اناطولیہ کے وسط میں واقع شہر قونیہ منتقل ہوگیا، اور بھی بعض شہروں میں یہ گاہے گاہے منتقل ہوتے رہے۔

 

وہ ترکی-فارسی (Turko-Persia)ثقافت کے آئینہ دار تھے، ان کی توسیع پسندانہ سیاست نے سلطنت کو وسیع تر کردیاتھا، خوشحالی اور فراوانی عام ہوگئی تھی؛ لیکن افسوس کہ اس کے دور آخر میں ناز ونعمت میں پلے ہوئے نوجوان سلجوقی سلاطین رقص وسرود اور شراب وشباب میں مست ہوگئے، اورحرص وہوس کے متوالے امرائے سلطنت ہی عملی طور پرفرماں روا بن گئے جن کا سرغنہ امیر سعد الدین بن محمد کوپیک (وفات:636ھ) تھا، جسے عربی اور فارسی میں ’’کوبک‘‘ لکھتے ہیں۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ سلجوقیان روم نے اپنے دور حکومت میں تعلیمی، عسکری اور تجارتی میدانوں میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، بڑے بڑے عادل، علم دوست اور انسانیت نواز فرماں رواسلجوقی سلطنت کے اس دورانیہ میں بھی ہوئے، ان میں نمایاں نام سلطان علاء الدین کیقبادکا ہے،جسے بہت سے مخلص امیروں اور گورنروں کا تعاون حاصل رہا؛ لیکن افسوس کہ اس کے دور حکومت میں بھی جو بے وفا اور حرص وہوس کے مارے سربراہان حکومت گذرے انہیں میں سب سے بڑا بد نام زمانہ سعد الدین کوپیک ہے۔

 

تاریخ ِسلاجقۂ روم کے سلسلہ کے معروف مصنف ومؤرخ اورقونیہ میں سلطان وقت کے صدر مشیرِکار ابن بیبی (ناصر الدین یحی بن محمد، وفات:674ھ؍1275ء) کی کتاب ’’الأوامر العلائیۃ في الأمور العلائیۃ‘‘ (اخبار سلاجقہ روم با متن کامل مختصر سلجوقنامہ باہتمام: ڈاکٹر محمد جواد مشکور استاد دانشگاہ، کتابفروشی، تہران، وبازار شیشہ گر خانہ، تبریز،1350ھء)اورخواجہ کریم الدین محمود بن محمد آقسرائی(وفات:723ھ؍1323ء)کی کتاب’’مسامرۃ الأخبار ومسایرۃ الأخیار‘‘ (تاریخ سلاجقہ یا مسامرۃ الاخبار ومسایرۃ الاخیارباہتمام ڈاکٹر عثمان توران، مطبع اساطیر،1362ھ)دونوں فارسی کتابیں سلجوقیان روم کے سلسلہ میں اہم کتابیں شمار کی جاتی ہیں، (دیکھئے:سلاجقۃ الروم في آسیا الصغری،ڈاکٹر محمد صالح زیباری، 2009ء، ص:17۔18)، ابن بیبی کی کتاب کا خلاصہ انہیں کے کسی ہم عصر مصنف نے ’’مختصر سلجوق نامہ‘‘ کے نام سے تیار کیا تھا، جس کا عربی ترجمہ محمد سعید جمال الدین نے ’’أخبار سلاجقۃ الروم‘‘کے نام سے کیا ہے،جو المرکز القومي للترجمۃ، قاہرہ، مصرسے شائع ہوئی ہے ۔

 

ان دونوں بنیادی کتابوں اور ان کی روشنی میں لکھی جانے والی بعد کی کتابوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس سلطنت کے زوال کا ایک بڑا سبب کار پردازان سلطنت میں اقتدار کی رسہ کشی اور آپسی ریشہ دوانی کو قرار دیا جاسکتاہے، ابن بیبی اور آقسرائی دونوں اس بات پر متفق ہیں، یہ دونوں وہ شخصیات ہیں جو حکومت کے مختلف صیغہ جات میں ملازم اور منشی ومحرر رہ چکے تھے، ایوان سلطنت میں جو کچھ چل رہا تھا وہ اس سے بخوبی واقف تھے بلکہ اس کے عینی شاہد تھے، ان کے مطابق امرائے سلطنت کا اثر ونفوذ بڑھنے لگا، اور616ھ ؍1219ء میں جب سلطان کیکاؤس اول کی وفات ہوئی تو ان جفاکاروں نے اپنے عزائم کے مطابق کوششیں تیز تر کردیں جو محرم راز درون خانہ تھے، یہاں تک بعض امراء جس کو چاہتے سریر آرائے سلطنت کرتے اور جس کو چاہتے اقتدار سے بے دخل کردیتے، اس کی ایک بڑی وجہ یا تویہ تھی کہ خود اب سلاطین بھی عیش وتنعم میں مست تھے یا ناتجربہ کار اور کم عمر تھے، وہ کسی قدر جہاں بانی کے لائق تو تھے لیکن کار جہاں بینی میں ناکام۔(مزید دیکھئے:تاریخ سلاجقۃ الروم،المدخل إلی تاریخ العثمانیین،ڈاکٹر محمد سہیل طقوش،دار النفائس،بیروت،لبنان،ص:240۔42)۔

 

 

ان کتابوں سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ سعد الدین کوپیک سلاجقۂ روم کے طاقتور امراء میں ایک تھا ،بلکہ اس کی حیثیت ملک الامراء اور امیر الامراء کی تھی،اس کے ذریعہ متعدد فتوحات حاصل ہوئیں،کئی مہمات میں وہ فاتحانہ سرخرو ہوا،جن میں قلعۂ سمیساط اور گردوپیش کے قلعے بھی تھے جن کو اس نے635ھ میں فتح کیا؛ لیکن افسوس کہ اقتدار کی ہوس نے اس شاطر دماغ وزیر کو قاتل و سفاک بنادیا، اس کے سر میں امیر سے سلطان بننے کا سودا سما گیا جس نے اس کو چین سے بیٹھنے نہ دیا، اور اس مقصد سے اس نے دشمنوں سے ساز باز شروع کردی،ان سے خفیہ ملاقاتیں، خفیہ مراسلات،اور وعدے ارادے شروع ہوگئے، رازوں کی خرید وفروخت نے اس کو مضبوط اور ریاست کو کمزور کردیا، اور اسی دھن میں وہ دیس بدیس پھرتا رہا،اور اس کی اس مہم میں جو بھی حائل ہوا یا اس کے رازِ سربستہ سے واقف ہوا بلا تکلف اس نے اس کا سر قلم کردیا، اور بڑے بڑے امیروں کو دردناک سزائیں دیں، حتی کہ ایک ملکہ کا خون بھی اس کی گردن پر ہے، اسے عیسائی پیشہ ور جنگجوؤں کی بھی مدد حاصل تھی، کہا جاتا ہے کہ منگولوں سے بھی اس کے خفیہ تعلقات تھے، خوارزم شاہی سلطنت سے وفاداری کے سلسلہ میں بھی یہ مشکوک ہے۔

 

 

کوپیک بظاہر بڑا شیریں گفتار، ملنسار، درمنداور دریا دل تھا، وہ عدالتی منتظم، بیوروکریٹ، وزیر تعمیرات اور شکار کا ذمہ دار تھا،اسی لیے اس کے نام کے ساتھ ’’أمیر الصید والتعمیر‘‘ لکھا جاتا ہے، وہ فن تعمیر میں بھی بلا کا ذوق رکھتا تھا، قونیہ کا عالیشان سرائے خانہ’’خان زازادین‘‘ اسی نے بنوایا تھا، اسی نے بحیرۂ بیشہیر کے جنوب مغربی ساحل پر قونیہ سے سو کلومیٹر دور قباد آباد محل کی تعمیر کرائی، افسوس کہ اس وزیرِ شکار نے جنگلی جانوروں کے بجائے معزز انسانوں کا شکار کیا، اور تعمیر کے بجائے تخریب کاری میں مصروف رہا، علاء الدین کیقباد اول نے تو امراء کو جنگی مہمات میں مصروف کرکے کسی طرح اقتدار کو محفوظ رکھا، اوراس سرکش گستاخ کو لگام دی؛ لیکن ان کے بیٹے غیاث الدین کیخسرودوم کے زمانہ میں چہار جانب سے خطرات کے بادل منڈلانے لگے،سب سے پہلے خوارزم شاہوں نے بادشاہ کیخسرو کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا، اور قونیہ سے شام چلے گئے،سلطان نے قوت بازو سے انہیں زیر کرنا چاہا لیکن ناکام رہا، اس سے آپسی انتشار واختلاف اور کشیدگی میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔

 

 

اس موقع کو سعد الدین کوپیک نے غنیمت جانا اوربادشاہ کے دل میں ان کے خلاف زہر بھردیا، پھر سپہ سالار کمال الدین کامیار پر تنقید شروع کردی جو اپنی فوج کشی کے ذریعہ خوارزم شاہوں کو دوبارہ واپس نہ لاسکے تھے، بادشاہ اور سپہ سالار کو ایک دوسرے سے بدگمان کرکے داخلی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوپیک نے خود اقتدار پر قبضہ کرنے کی نیت سے اپنی تاج پوشی کی تیاری شروع کردی، اور جو بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنا اس کو تہہ دیغ کرنے سے دریغ نہ کیا،اس خاکہ میں رنگ بھرنے کے لیے پہلے تو اس نے بادشاہ کی انگوٹھی حاصل کرلی جو مہر کا بھی کام دی تھی،اس کی ماں شہناز خاتون سلطان کیقباد کے والد غیاث الدین کیخسرو اول سے نکاح کے بغیر ہی حمل سے رہی تھی،جس سے کوپیک کی ولادت ہوئی تھی، وہ بڑی بے حیائی اور وقاحت کے ساتھ اس حوالہ سے خود کو سلطان کیخسرو اول کا بیٹاکہنے لگاتھا تاکہ اسے سلجوقی سلطان کے طور پر قبول کرلیاجائے۔

 

 

ایک روایت کے مطابق علاء الدین کیقباد کواس کے صاحبزادہ غیاث الدین کیخسرو دوم نے و زہر دے کر مارا تھا، اس لیے کہ سلطان نے اپنی ایوبی بیوی ملکہ عادلیہ کے بیٹے عز الدین کیکاؤس کو ولی عہد مقرر کیا تھا، اور کیخسروجو دوسری بیوی سے تھا،اس کو اپنا شاہی وارث نہیں بنایا تھا، سعد الدین کوپیک کیخسرو دوم کا کھلا مؤیدتھا، اور اس کو سلطان بنانے میں پیش پیش تھا،ابن بیبی کے مطابق کیخسرو کو اپنے سوتیلے بھائی عز الدین اور اس کی والدہ سے مخالفت کا سامنا تھا؛ چونکہ اس نے ان کا حق چھینا تھا، اس لیے اسے بھی کوپیک کی سیاسی عیاریوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت تھی تاکہ بلا شرکت غیرے وہ کرسیٔ اقتدار پر جلوہ افروز رہے، اس نے ایوبی ملکہ کا گلا گھونٹ دیا اور عز الدین قلج ارسلان اور اس کے دوسرے بھائی رکن الدین کو برغلو میں قید کردیا، اور کہا جاتا ہے کہ سلطان سے اشارہ پاتے ہی بالآخر مبارز الدین ارمغان شاہ کے ساتھ مل کر انہیں بھی قتل کردیا۔

 

 

یہی نہیں، اس نے یکے بعد دیگرے اہم عہدیداروں کا صفایا شروع کردیا، امیرشمس الدین آلتون ابا چاشنی گیر یا شمس الدین تونبی جو شاہی گھرانہ کے اتابک یااتالیق ( امیر زادوں کے مربی)تھے، اس کاشکار بنے؛اس لیے کہ وہ دربارشاہی میں کبھی کبھی اس کی گرفت کرلیتے تھے، اس نے ان کودربار سے گھسیٹ کر محافظ دستہ کی مدد سے بے رحمی کے ساتھ مار ڈالا، اس نے اپنا اثر ورسوخ اتنا بڑھا لیا تھا کہ کسی کی ہمت نہ تھی کہ اس سے داروگیر کرسکے، اس کا قہر اب تاج الدین پروانہ پر ٹوٹا، جو فقہ وادب اور دیگر علوم میں بڑی مہارت رکھتے تھے، کوپیک نے ترکی شہر اقشہر کے بادشاہ خرتبرت کی خاص مغنیہ کے ساتھ پروانہ کے ناجائز تعلقات پر جھوٹے شواہد جمع کرکے مفتیوں سے اس کے رجم ( سنگسارکرنے) کا فتوی حاصل کرلیا، اور فتوی لے کر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اورخلوت میں فتوی دکھا کر اس سزا کے نفاذ کی اجازت حاصل کرلی، نشہ میں بدمست بادشاہ سے اس کی مہر شاہی حاصل کرلی، اور قتل نامہ پر مہر ثبت کردی، تاج الدین انکوریہ(موجودہ انقرہ) کی طرف فرار ہوگئے تھے، کوپیک بھاگتا ہوا انکوریہ آیا اور وہیں ایک بڑے میدان میں ان کو رجم کرادیا،اور ان کی تمام جائیداد اور املاک کو قرق کردیا، اس واقعہ کے بعد امراء سلطنت میں سراسیمگی پھیل گئی، اور کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ اس کی مخالفت میں زبان کھول سکے، طوعاً وکرھاً اکثر امراء، وزراء اور قائدین اس کے تابع ہوگئے۔

 

 

جب کوپیک کو محسوس ہوا کہ دیوان خانوں میں ابھی بھی اس پر چہ می گوئیاں چل رہی ہیں تواس نے سب کو اپنی فوج کشی اور جنگی مہمات میں مصروف کردیا، وہاں سے واپس آکر پھر اپنی دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کردیں، امیر حسام الدین قیمری پر ایک جرم کا بہتان لگا کر ان کو ملطیہ کے قصر شاہی میں قید کردیا، ان کی تمام جائیداد پر قبضہ کرکے ان کے ضروری اخراجات کے لیے مختصر سا وظیفہ جاری کردیا،پھر قونیہ آیا اور کامل الدین کامیارجیسے فاضل عالم اور شاعر وادیب وزیر کومورد الزام ٹھہراکر قتل کردیا۔

 

 

ظاہر ہے ان غیر انسانی حرکتوں اور خونریزیوں میں زیادہ تر سلطان کا ہاتھ یا ساتھ نہیں تھا، وہ خود اپنے قریب ترین امراء کے قتل سے سخت تکلیف میں مبتلا تھا، لیکن وہ کوپیک کی سیاسی ذہانت اور مکاریوں کے زیر اثر آگیا تھا، اور اس کے پاس اس کی ناجائز کاروائیوں کو روکنے کے لیے کوئی ثبوت نہ تھا،بادشاہ کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب کوپیک تلوار حمائل کرکے دربار شاہی میں آنے لگا تو سلطان کو محسوس ہوا کہ اب میری جان پہ بن آئی ہے؛چنانچہ سلطان وقت کیخسرو دوم نے اپنے ایک غلام کے ذریعہ سیواس میں موجود اپنے پہرے داروں کے سردار قراجہ کے پاس ایک مہر بند مکتوب روانہ کیا کہ کوپیک کو کسی طرح قتل کیا جائے؛ چونکہ کوپیک نے اب اپنا احترام کھودیا تھا،اور حقیقی خطرہ بن گیا تھا، کوپیک صرف قراجہ سے ہی ڈرتا تھا، قراجہ نے اچانک کوپیک سے ملاقات کی اوراس کی ثنا خوانی سے اس کو اپنے شیشہ میں اتار لیا۔

کوپیک کو قراجہ کی وفاداری کا یقین آگیا، تو کوپیک نے محفل رقص وسرور کا نظم کیا اور صبح دونوں دربار شاہی میں حاضر ہوئے، قراجہ کسی بہانہ باہرآکر کھڑے ہوگئے،جب کوپیک مجلس سے باہر نکل کر جیسے ہی قراجہ سے آگے نکلا تو انہوں نے اس پرایک ضرب لگائی جو ضرب کاری نہ ہوسکی، جھٹ پرچم بردار طغان نامی شخص نے میان سے تلوار نکال کراس کو بری طرح زخمی کردیا، خون میں لت پت بھاگ کر کوپیک سلطان کے شراب خانہ میں چھپا، وہاں مے خواروں نے چھری،تلوار، خنجرسے اس کا کام تمام کیا، اس طرح قراجہ نے گھات لگا کر اس شر کا خاتمہ کیا(دیکھئے:مختصر سلجوقنامہ فارسی:ص:211۔18)، اور سلطان کی جان میں جان میں آئی،بادشاہ کے حکم سے عبرت کے لیے اس کا جسد خاکی ایک آہنی قفص میں رکھ کراونچی جگہ پررسی سے لٹکادیا گیا، اچانک وہ لوہے کا پنجرا ایک شخص پر گرا اور وہ وہیں دم توڑ گیا،سلطان نے کہا: یہ مر کر بھی باز نہ آیا،مختصر سلجو قنامہ میں یہ الفاظ ہیں: ’’نفس ِشریرِ اوھنوز دریں عالم اثرھا می کند‘‘(مختصرسلجوقنامہ،ص:219)۔

 

 

کوپیک کے سیاہ کارناموں میں آج کے حکمرانوں، جرنیلوں، شہزادوں اور سرکاری افسروں کا عکس بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جو اقتدار کی خاطر کفار سے دوستی اور اپنی قوم سے غداری کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں، کیا آپ کو شام کی خون آشام نسل کشی، یمن کی تباہی، مصر کے منتخب صدر محمدمرسی کی معزولی، حبس دوام اور پھررفتہ رفتہ قتل، ترکی میں 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت، 2018ء میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانہ میں جمال خشوگی کے بیدردانہ قتل اور اب صدی معاہدہ یا ٹرمپ پیس پلان کے پیچھے کوپیک جیسے حیلہ ساز چہرے نظرنہیں آتے !!

Comments are closed.