یک سلمان در دار رحمان ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی خادم التدریس جامعہ نعمانیہ،ویکوٹہ،آندھرا پردیش

*یک سلمان در دار رحمان*
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم التدریس
جامعہ نعمانیہ،ویکوٹہ،آندھرا پردیش
کسی کتاب میں کبھی پڑھا تھا کہ بیسویں صدی میں *تین سلیمان* نامی عبقری شخصیت گذرے ہیں، تینوں مایہ ناز عالم دین تھے، تینوں افق عالم پر آفتاب و ماہتاب تھے، تینوں ایک عالم کو اپنے فضل و کمال سے سیراب کیا، تینوں برگزیدہ ہستیاں مینارۂ نور تھے۔
ایک *حضرت مولانا الشاہ سلیمان پھلواری رح* (المولود:1859ء/المتوفی:1935ء) خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح (سابق معتمد تعلیم:دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
*دوسرے قاضی محمد سلیمان منصور پوری رح* (المولود:1867ء/المتوفی:1930) صاحب سیرت”رحمۃ للعالمین”ﷺ
تیسرے *سیدالطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی رح* (المولود:1884ء/المتوفی:1953ء) صاحب "سیرت النبی ﷺ”۔
ٹھیک اسی طرح اکیسویں صدی میں بھی *تین سلمان* نامی عظیم المرتبت شخصیت اپنے علم وعمل اور فضل و کمال میں چھائے ہوئے ہیں، تینوں اپنے اپنے مقام پر مینارۂ نور ہیں، تینوں علوم و معارف کے بحر ذخار ہیں، تینوں گنجینۂ علم و عرفاں ہیں، راقم السطور اس کا تذکرہ بارہا اپنے اہل علم دوستوں کے درمیان کرچکا ہے۔
ایک ریحانۃ الہند کے سب سے چھوٹے اور چہیتے داماد *حضرت مولاناسید سلمان صاحب مظاہری نوراللہ مرقدہ* (سابق ناظم:مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور )
دوسرے نواسہ مفکر اسلام رح *حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم* (سابق استاذ حدیث:دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
تیسرے نواسہ شیخ الاسلام رح *حضرت مفتی سلمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم* (استاذ حدیث:مدرسہ شاہی مراد آباد)
آہ! 28/ذی القعدہ 1441ھ/مطابق:20/جولائی 2020ءبروز پیر، بوقت شام تقریباً پانچ بجے اول الذکر حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مظاہری قدس سرہ اپنے پیچھے ہزارہا شاگردوں کو روتے بلکتے چھوڑ کر دار فانی سے عالم جاودانی کی جانب روانہ ہوگئے۔
*انا لله وانا اليه راجعون ان الله ما اخذ وله ما اعطى وكل شئ عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب*
فدوی پہلے پہل حضرت رح کا نام درجہ فارسی میں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا مسیح اللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم (سابق استاذ:مدرسہ ریاض الاسلام، چری، نوساری، گجرات) کی زبان بارہا سنا، اس زمانہ میں حضرت مشکوۃ شریف پڑھاتے تھے، آپ رح کا درس مشکوۃ بہت ہی مشہور تھا، ہمارے استاذ محترم حضرت رح کا نام والہانہ انداز میں لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت رح کا درس طلبہ کرام میں اس قدر مقبول تھا، کہ کبھی کوئی طالب علم غیر حاضر ہونا پسند نہیں کرتا تھا۔
بعد میں حضرت رح کے دیدار اور خطاب سننے کا موقع بھی ملا، سن 2014ء کازمانہ تھا، احاطۂ دارالعلوم وقف دیوبند میں "حجۃ الاسلام اکیڈمی” کی جانب سے شائع کردہ کتاب "حیات طیب” کی رسم اجراء تھی، جس میں ملک کے تین عظیم ادارے (1) دارالعلوم دیوبند (2) مظاہر علوم سہارنپور (3) دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ذمہ داران کو مدعو کیا گیا تھا، اس تقریب میں *حضرت مولانا سلمان صاحب قدس سرہٗ* بھی تشریف لائے تھے، اس میں قریب سے حضرت کا دیدار اور خطاب سننے کا موقع ملا تھا، ارادہ تھا کہ حضرت سے کم از کم مصافحہ بھی ہوجائے لیکن طالبان علوم نبوت کے ہجوم کی وجہ سے ملاقات کی شرف یابی سے محروم رہا، دوران طالب علمی (دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) ایک مرتبہ اور (دارالعلوم دیوبند) دو تین مرتبہ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور جانے کا اتفاق ہوا تھا لیکن ملاقات سے محروم رہا جس کا ہمیشہ قلق رہے گا۔
حضرت رح کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، حق جل مجدہ نے بے شمار اعلیٰ خصلت اور بلند نسبتوں سے نوازا تھا، آپ رح قطب الاقطاب ریحانۃ الہند حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ (سابق شیخ الحدیث:مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور) کے انتہائی درجہ کے نور نظر اور سب سے چھوٹے داماد تھے، آپ رح کی پوری تعلیم و تربیت حضرت شیخ الحدیث رح کے زیر سایہ ہوئی، آپ صاحب نسبت بزرگ اور جیدالاستعداد عالم دین تھے، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن مجلس انتظامی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن تھے، آپ ایک اچھے منتظم اور فعال ناظم تھے، آپ بے مثال خطیب اور کامیاب استاذ حدیث تھے، آپ کا درس طالبان علوم نبوت میں بے انتہا مقبول تھا، آپ ان دنوں حضرت شیخ الحدیث رح کے سچے جانشیں تھے، غالباً سال گذشتہ ہی حضرت پیر طلحہ صاحب رح اپنے ایام علالت میں وہ عمامہ جو *حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح* سے ان تک پہنچا تھا، وہ حضرت پیر صاحب رح اپنے دست سے حضرت رح کے سر پر رکھا تھا، جس کا ویڈیو وائرل ہوا تھا، اس میں یہ دل کش منظر بہیج دیکھ کر آنکھوں سے آنسو چھلک گیا تھا، دل سے بے ساختہ دعا نکلی تھی کہ : بارالہا حضرت کا سایہ ہم پر عافیت کے ساتھ تادیر قائم رکھنا!
آہ! کسے معلوم تھا کہ ایک سال بعد ہی جن کے سر پر تاج امداد رکھا جارہا ہے، وہ بھی ہمیں داغ مفارقت دے جائیں گے، اللہ تعالی اس عمامہ کو جو اس کے اہل ہیں ان تک پہنچائے۔
حضرت رح 13/ ذی قعدہ:1365ھ مطابق 10/اکتوبر:1946ء بروز پنجشنبہ، اس بوئے گل میں آنکھیں کھولیں۔
آپ رح کی ابتدا تا انتہا تعلیم مظاہر علوم ہی میں ہوئی، سن فراغت 1386ھ ہے، آپ رح حضرت شیخ الحدیث رح کے آخری تلامذہ میں ہیں، بخاری شریف حضرت شیخ الحدیث رح سے، ترمذی شریف، نسائی شریف، مسلم شریف حضرت شیخ الحدیث رح کے عظیم شاگرد اور مایہ ناز خلیفہ حضرت مولانا منور حسین کشن گنجوی رح سے، ابوداؤد شریف حضرت مفتی مظفر حسین رح سے اور طحاوی شریف حضرت مولانا اسعداللہ صاحب رح سے پڑھی۔
دوران طالب علمی شروع سے آخیر تک تمام کتابوں میں ہمیشہ اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے۔
فراغت کے بعد ہی اپنے مادر علمی میں 1387 ھ/میں مدرس بنائے گئے، 1392ھ/میں پہلی مرتبہ جلالین شریف کا درس دیا 1396ھ/میں استاذ حدیث کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے، اور پہلی مرتبہ مشکوۃ شریف آپ رح کے زیر درس آئی۔
1992ء/میں مجلس شوریٰ نے آپ کو مظاہر علوم کا نائب ناظم مقرر کیا، اس عہدہ پر عمدہ کارکردگی کی وجہ سے 1996ء/میں ، مجلس نے باقاعدہ عہدہ نظامت تفویض کیا، اس وقت سے تا حال اس عہدہ پر فائز تھے، آپ رح کے دور اہتمام مظاہر علوم (جدید) کی تاریخ میں سنہرا دور کہلانے کے مستحق ہے اور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت رح کے تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے۔ (آمین)
Comments are closed.