کوشش ”آپ کرتے ہی کَیا ہیں ہمارے لیے۔“ دس سالہ حسین چلایا۔انعم توصیف کراچی

کوشش

تحریر: انعم توصیف، کراچی

”آپ کرتے ہی کَیا ہیں ہمارے لیے۔“ دس سالہ حسین چلایا۔

”بیٹا! میں۔۔۔۔۔“

”بابا! مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ کچھ کھانے کو لادو نا۔“ چار سالہ سارہ نے اس کے پیروں میں لپٹ کر کہا۔

”میں لاتا ہوں کچھ میرے بچے۔“ اس کو گلے سے لگاٸے روتے ہوٸے اس نے کہا۔

“ان آنسوٶں سے بچوں کا پیٹ نہیں بھرنے والا۔ جاٶ اور جاکر کچھ لے کر آٶ ورنہ میں خود بھی زہر کھالوں گی اور ان کو بھی کھلادوں گی۔“

لاک ڈاٶن کی وجہ سے شہر میں سب کچھ بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کے بہت برے حالات تھے۔ اصغر ایک اسکول میں لیب انچارج کی ڈیوٹی کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ حکومت کی جانب سے بازاروں، دفاتر اور دیگر جگہوں سے لاک ڈاٶن ہٹانے کے احکام جاری ہونے شروع ہوگٸے لیکن تعلیمی اداروں کو کھولنے کا ابھی دور دور تک بھی امکان نہیں تھا۔ اس نے کٸی لوگوں سے بات کی، خوب کوشش کی کہ کہیں کوٸی چھوٹی موٹی نوکری مل جاٸے۔ ہر جگہ سے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تھوڑی بہت جمع پونجی، حکومت اور چند رحم دل لوگوں کے ذریعے کی گٸی امداد سے کٸی مہینوں سے گھر کے کھانے پینے کا گزارا ہورہا تھا۔آخر کب تک کوٸی کسی کی مدد کرتا۔ گھر میں دو دن سے فاقہ تھا۔ پچھلے ہفتے اس کے  دوست اشرف نے اسے ایک نوکری کے لیے کہا تھا۔ جس کا سن کر ہی اس نے منع کردیا تھا۔ آج بہت مجبور ہوکر اس نے اپنے دوست کی بتاٸی ہوٸی جگہ کا رخ کر ہی لیا۔ وہ شہر کا ایک بہترین شاپنگ مال تھا۔ اندر قدم رکھتے ہی وہ تعجب سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ لوگوں کا رش معمول کے مطابق تھا۔ اشرف وہاں گارڈ کی ڈیوٹی کرتا تھا۔ اس کو دروازے پر ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑاٸی اسے اشرف نظر آہی گیا۔

”ارے خیریت۔۔۔۔ تُو یہاں؟“

”بس وہ جو نوکری تم نے بتاٸی تھی اس سلسلے میں۔“

”پہلے تو تم نے منع کردیا تھا۔“

”گھر کے حالات۔۔۔۔۔“

”اچھا اچھا! میں سمجھ گیا۔۔۔ “

”آٶ میرے ساتھ۔۔۔ “

”اشرف کام تو میں آج سے ہی شروع کردوں گا لیکن گھر میں کھانے پینے کا کچھ بھی۔۔۔“

”میں سمجھ گیا۔ میں صاحب سے بات کرتا ہوں۔ وہ بڑے نیک آدمی ہیں کچھ نہ کچھ مدد کردیں گے۔“

”شکریہ۔“

ان کا رخ ایک کمرے کی جانب تھا۔

”تم یہ پہن کر باہر آٶ۔ میں صاحب سے پوچھ کر تمہیں تمہاری جگہ دکھاتا ہوں۔“

کمرے سے باہر آکر وہ سر جھکاتے ہوٸے اشرف کے پیچھے چلنے لگا۔

”یہاں کھڑے ہونا ہے تمہیں۔ میں چلتا ہوں گیٹ پر۔۔۔“

”مما دیکھیں جوکر۔۔۔۔“ ایک ننھے بچے کی آواز پر اس نے سامنے دیوار پہ لگے آٸینے میں اپنا عکس دیکھا۔ جوکر کے لباس میں ملبوس اپنا آپ دیکھ کر اسے شرم محسوس ہوٸی لیکن اگلے ہی پل اپنے عکس کے ساتھ اسے ایک باپ، ایک شوہر اور ایک بھوک سے مجبور انسان کے چہرے بھی نظر آنے لگے۔ اس نے  بہتی آنکھوں کے ساتھ ہنس کر اس بچے کو ہنسانے کی بھرپور کوشش کی

Comments are closed.