مفکرِ ملت ، حضرت مولانا وصی احمد صدیقیؒ کی وفات مسلمانانِ بہار کے لئے اہم ملی ، سماجی ، علمی ،خسارہ ۔ از ۔ محمد ریحان خان جالوی

مفکرِ ملت ، حضرت مولانا وصی احمد صدیقیؒ کی وفات مسلمانانِ بہار کے لئے اہم ملی ، سماجی ، علمی ،خسارہ ۔

 

از ۔ محمد ریحان خان جالوی

سابق متعلم ۔ مدرسہ چشمہء فیض ململ مدھوبنی بہار ۔

 

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے

 

 

 

مدرسہ چشمہء فیض ململ مدھوبنی بہار کے مہتمم ، جامعہ فاطمۃ الزھرا کے بانی ، ملت اسلامیہ کے بے لوث خادم ، دینی ملی سماجی رہنما ، بیدار مغز عالم دین ، مفکر ملت حضرت مولانا وصی احمد صدیقیؒ کی رحلت یقینا حلقہء علماء اور طلبہ کےلئے خصوصاً اور مسلمانان بہار کے لئے عموماً ایک ایسا خسارہ ہے جسے ہر صاحب فکر و نظر محسوس کریں گے ۔

دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر امت کو ان کا نعم البدل عطا فر ئے آمین ۔

حضرت سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں مدرسہ چشمہء فیض ململ داخلہ کے لئے گیا جہاں رہ کر مختلف اساتذہ کرام کے سامنے زانوہ تلمذ تہ کرنے کاشرف حاصل ہوا ،

اور ساتھ ہی حضرت والا ؒ کوایک گونہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔

خوبصورت مسکراتا ہوا نورانی چہرہ ،

وضع قطع میں اپنے اکابرواسلاف کی یادگار ، خوشگفتار وخوش کردار ، حضرت مولانا وصی احمد صدیقی نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی اپنے آپ میں ایک انجمن تھی ۔

آپ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے ۔

 

* مدرسہ چشمہء فیض ململ *

 

مدرسہ چشمہء فیض ململ جس کے آپ روحِ رواں اورمیرِکارواں تھے ، آپ کے دور اہتمام میں اس ادارے نے ترقی کی شاہ راہ طے کی ، ہزاروں تشنگانِ علومِ نبوت نے یہاں آکر اپنی علمی پیاس بجھائی ، نہ جانے کتنے گم گشتہ راہ لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنا نصیب ہوا ، پورا علاقہ اس ادارے کے ضیا ء پاش کرنوں سے روشن ہے ، اور مدرسے کے فیض یافتگان کی ایک بڑی تعداد میدانِ علم و عمل میں سرگرم ہے فللّٰہ الحمد ۔

 

لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ نے جامعہ فاطمۃ الزھرا کی بنیاد رکھی۔

حضرت مولانا ؒ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے متفکر تھے چنانچہ اسی پس منظر میں جامعہ فاطمۃ الزھرا کی بنیاد رکھی ، اخلاص و للہیت کے ساتھ اپنی انتھک کوششوں اور شبانہ و روز کی محنتوں سے اس ادارے کو باوقار بنایا اور آج یہ جامعہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی مستقل شناخت رکھتا ہے ، یقینا یہ ادارے اور اس کے فیضیافتگان آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں ۔

ملی اور سماجی میدان میں بھی آپ کی گرانقدر خدمات ہیں ۔

ملت اسلامیہ ہندیہ کے سامنے آئے دن نت نئے فتنے اپنے بال و پر نکالتے رہےہیں ایسے میں ضرورت ہوتی ہے ان فتنوں کے بیخ کنی کی ، امت مسلمہ کے سامنے اس کے خد و خال کو واضح کرنے اور ان فتنوں سے بچانے کے لئے صحیح رہنمائی کی جس فریضے کو علماء کرام ، خادمان دینِ متین ، داعیان اسلام نے بحسنِ خوب انجام دیا ہے ، حضرت مولانا وصی احمد صدیقیؒ اپنے اکابر و اسلاف کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے اس سلسلے میں امت کے افراد کی رہنمائی کرتے درپیش مسائل و حالات سے انہیں آگا ہ کر تے اور نہ صرف ان مشکلات سے نکلنے کا راستہ بتا تے بلکہ بنفسِ نفیس قائدانہ کردار اداکرتے ۔

اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لیکر

 

سیاسی بصیرت

 

مولانا مرحوم کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس وقت ہم لوگوں کو ہوا ،

جب مدھوبنی حلقہ کے سابق ایم پی ڈاکٹر شکیل صاحب اپنا انتخاب ہار گئے تھے اور مدرسہ چشمہء فیض ململ تشریف لائے اور طلبہ اور عوام کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد حضرت مہتہمم صاحب نے سامعین کی موجودگی میں برجستہ ان سے چند سوالات کئے جس سے حضرت والا کی سیاسی سوجھ بوجھ کا اندازہ ہوا ۔

 

ذاتی اوصاف و کمالات

 

یوں تو حضرت کی زندگی ” یقیں محکم عمل پیہم “ سے مرتب ہے تاہم ذاتی اوصاف کمالات بھی کچھ کم نہ تھے آپ کی ذات والا صفات کی ایک اہم خوبی یہ تھی آپ کے چہرے پر ہمیشہ تبسم رہتا حالات چاہے جیسے ہوں لیکن وہی کھلا ہوا مسکراتا چہرہ ،

ہرآنے والے کا خندہ پیشانی سے استقبال گویا برسوں کا تعلق ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث پر ساری زندگی عمل پیرا رہے جس میں آپ نے فرمایا کسی سے مسکراکر ملنا بھی صدقہ ہے ، آپ ایک کہنہ مشق ، باکمال خطیب و مقرر بھی تھے گونج دار آواز ، بر محل موضوع کا انتخاب ، صاف ستھرا لب و لہجہ ، گفتگو کاانداز نرالا ہوتا ، یوں تو مدرسہ چشمہء فیض ململ کے طالب علمی کے زمانے میں متعدد مرتبہ حضرت کے خطاب سے استفادے کا موقع ملا لیکن خاص طور سے حجاج کرام کو روانگی سے قبل مدرسے کے احاطے میں جو اجلاس ہوتا اس میں اورکبھی نتیجہ امتحان کے اعلان کے موقع سے حضرت تفصیلی خطاب کرتے ،

اردو کے ساتھ عربی زبان سے بھی اچھی مناسبت تھی ، یاد پڑتا ہے ہم لوگوں کی بعض مرتبہ جب کوئی گھنٹی خالی ہوتی تو مدرسے کے صحن میں کلاس کے تمام ساتھیوں کو بلا لیتے اور عربی میں سوالات کرتے جو طالب علم صحیح جواب دیتا خوش ہوتےاور دعاؤں سے نوازتے ۔

 

طلبہ کے ساتھ شفقت

 

حضرت مہتہمم صاحبؒ کا طرز طلبہ کےساتھ انتہائی مشفقانہ ہوتا شاید ہی کسی طالب علم کو سخت و سست کہتے بلکہ شفقت و محبت سے طلبہ کو سمجھاتے ان کے اس مشفقانہ رویہ کی وجہ سے طلبہ کے دلوں میں آپکی عظت و محبت اور حددرجہ احترام ہوتا، اساتذہ کے تعلقات بھی آپ سے بالعموم خوشگوار رہتے ، اساتذہ کے ساتھ بھی آپ کا معاملہ ذمہ دار اور ملازم کے بجائے ایک حد تک بے تکلفی اور دوستی کا تھا گویا آ پ اساتذہ اور طلبہ ہر دو کے نزدیک محبوب و مقبول تھے فجزاہ اللہ عنا ۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Comments are closed.