انفاق فی سبیل اللہ کی معجزانہ برکت از: رفیع اللہ قاسمی

انفاق فی سبیل اللہ کی معجزانہ برکت
از: رفیع اللہ قاسمی
کورونا وائرس نے ہر طرح کے نظام کو سست بنا دیا ہے۔ تعلیمی، سماجی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہر طرح کے نظام کو معمول سے بہت پیچھے کردیا ہے۔ اخلاقیات کا حال تو یہ ہے کہ مریض کو اسپتال والے جلد لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہورہےہیں۔ مریض کا توحوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ احادیث میں عیادت پر اجر عظیم کا مزدہ سنایا گیا ہے ساتھ ہی عیادت کرنے والے کو مریض سے تسلی بخش باتیں کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ تاکہ مریض کو حوصلہ ملے۔ مگر اس مہاماری میں مریض اپنے ساتھ غیر اخلاقی اور جانوروں سے بھی فروتر سلوک دیکھ کر اپنی زندگی سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کورونا کا مریض سرکاری اسپتالوں کا نام سن کر ہی موت کو بہت قریب تصور کرنے لگتا ہے۔ احتیاط اور بہتر سلوک دونوں ہی اس مکروہ بیماری سے لڑنے کا حوصلہ دے سکتے ہیں۔
معاشیات کے حال سے ہر کوئی واقف ہے۔ تجارت رفتار نہیں پکڑ رہی ہے۔ عوام کی قوت خرید پر زنگ لگ گئی ہے۔ انسان کی رولنگ پر پابندی لگا کر پیسے کی رولنگ کو جاری رکھ پانا بھی نا معقول ہی لگ رہا ہے۔ متوسط درجے کا انسان غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے گن گن کر خرچ کر رہا ہے۔ متمول حضرات پیسے روکے ہوئے ہیں اور غریب بھوکا مر رہا ہے۔ اس نازک دور میں اسلامی نظام معیشت ہی تجارت کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ معیشت کا سب سے اہم پہیا صارفین کی قوت خرید ہے۔ یہ قوت جہاں روزگار کے ملنے سے بڑھتی ہے وہیں زکوة، صدقات و خیرات اور عطیات بھی قوت خرید بڑھانےمیں کمک کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ گویا اسلامی نظام معیشت میں روزگار والا پہیا اگر تھوڑی دیر کے لیے پنکچر ہو جائے تو صدقات و عطیات والے پہیئے بطور بدل موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح اسلامی نظام معیشت تجارت کو زمیں دوز ہونے سے بچا لیتا ہے۔
اسی لیے جہاں تک حالات اجازت دیں انفاق فی سبیل اللہ مسلسل کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ جہاں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے وہیں رزق میں وسعت کا بھی ذریعہ ہے۔ لئن شكرتم لازيدنكم۔
ایک تاجر کا سچا واقعہ یوں ہے۔ وہ جھارکھنڈ کے رہنے والے ہیں۔ کلکتہ میں ان کا گارمنٹ کا کا کارخانہ چلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کورونا کی وجہ سے وطن عزیز میں اچانک لاک ڈاون کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر فرد کی طرح میں بھی پریشان ہو گیا۔ مزدور طبقے کی لاچاری دیکھ کر میری پریشانی میں اضافہ ہوتا ہی گیا۔ کوئی پردیس میں بھوکا ہے۔ کسی کے بوڑھے والدین اپنے بال بچوں کے احوال سن کر بے چین ہو رہے ہیں۔ کوئی اپنے وطن کے لیے پیدل ہی روانہ ہو گیا ہے اور کوئی گھر پہونچتے ہی اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر دیا ہے۔ان تمام صورت حال کی وجہ سے اپنی بے چینی بھی اور بڑھتی چلی گئی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے کل کیا ہوگا کچھ اندازہ لگا پانا بھی مشکل تھا۔ مجھے اپنی بھی موت گویا سامنے دکھ رہی تھی۔ غریبوں اور لاچاروں کی تڑپ اور بے چینی مجھ سے دیکھی نہ گئی۔ اپنے دل سے میں باتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔ میرے اکاونٹ میں 9/ لاکھ روپے ہیں کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں میں خود ہی مر گیا تو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب پیسے اکاونٹ سے نکال کر فی سبیل اللہ خرچ کر ڈالوں کیا؟۔۔۔۔۔۔۔ جب میں ہی نہیں رہوں گا تو اکاونٹ میں پیسے کس لیے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کے بہت سارے خیالات میرے ذہن میں آ رہے تھے۔ میں نے ہمت اور حوصلے سے کام لیا اور سب پیسوں کو نکال کر غریبوں اور مزدوروں کی مدد اس نیت سے کرنی شروع کی کہ خدا کا بندہ بھوک کی وجہ سے مرے اور میرے اکاونٹ میں روپیہ سڑے یہ کوئی دینداری نہیں ہے۔ اس لیے تمام روپے مستحقین پر خرچ کرتا گیا۔ اللہ کی عطا دیکھیئے ہم نے علماء کرام سے سن رکھا تھا کہ اللہ ایک کے بدلے دس دیتا ہے۔ اللہ نے مجھے اس سے کہیں زیادہ دیا۔ اس مہاماری کے ماحول میں بھی میرا ایک کروڑ کا مال فروخت ہوا جو عام حالات سے بھی بہت زیادہ ہے۔ سچ ہے اللہ کا فرمان : إن تقرضوا الله قرضا حسنا يضعفه لكم و يغفر لكم والله شكور حليم. اگر تم اللہ کو اچھی طرح( خلوص کے ساتھ) قرض دوگے تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھاتا چلا جاوے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اللہ بڑا قدردان اور بڑا بردبار ہے۔ (التغابن : 17)
Comments are closed.