یادوں کے چراغ قاری صفدر علی ریاضی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ، و جھاڑکھنڈ

یادوں کے چراغ

 

قاری صفدر علی ریاضی

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ، و جھاڑکھنڈ

 

استاذ الاساتذہ قاری صفدر علی ریاضی نے ۹/جولائی ۲۰۲۰ء جمعہ کی شب آٹھ بجے اس دنیا کو الوداع کہا، وہ مدرسہ محبوبیہ چین پور بنگرہ مظفر پورکے سابق استاذ تھے، پندرہ ماہ قبل مولانا عبد القدیر صاحب نے بقول قاری عبد الوحید ان سے معذرت کرلی تھی، تب سے وہ شمالی ۲۴ پرگنہ میں اپنے بھتیجہ کے یہاں مقیم تھے، ان کے بھتیجا قاری عبد الوحید صاحب بھی مدرسہ محبوبیہ کے سابق استاذ ہیں، ان دنوں مدرسہ ارشد العلوم چندن نگر ہگلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں، قاری صاحب کا زیادہ تر وقت وہیں گذر رہا تھا، چین پور اور مظفر پور سے انہیں قلبی محبت تھی، اس لئے بار بار اپنے بھتیجہ سے یہاں لانے کے لئے کہتے خود نابینا تھے اور بڑھاپے کی وجہ سے جسمانی طور سے معذور بھی؛ اس لیے اکیلے سفر نہیں کر سکتے تھے، ان کے بھتیجا نے بتایا کہ انتقال سے دوروز قبل طبیعت بگڑی، غنودگی کا غلبہ تھا،۷/جولائی بعد نماز مغرب سے بار بار ایک ہی آیت کا ورد کرتے رہے، علی بصیرۃ انا و من اتبعنی و سبحان اللہ وماانا من المشرکین، یہ سلسلہ آواز بند ہونے تک جاری رہا، آواز اسی رات بند ہوگئی تھی، جنازہ جمعہ کے دن صبح نو بجکر پندہ منٹ پر ہوا، ان کی وصیت کے مطابق جنازہ کی نماز قاری عبد الوحید صاحب کی امامت میں ادا کی گئی اور گول گھر قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، ۲۰۰۳ء میں چین پور بنگرہ میں اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا، لاولد تھے پس ماندگان میں صلبی اولاد تو کوئی نہیں؛البتہ ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں جو ان کی معنوی اولاد اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

قاری صفدر علی ریاضی بن محمد نظام الدین (م ۱۹۸۲ء)بن محمد الہی بخش کی پیدائش سرکاری کاغذات کے مطابق یکم جنوری ۱۹۴۵ء میں محلہ سوگیا پاڑہ تھانہ جگتدل شمالی(نارتھ)۲۴ پرگنہ مغربی بنگال میں ہوئی، ۱۹۵۵ء میں ان کے والد نقل مکانی کرکے محلہ برئ پارہ تھانہ جگتدل شمالی (نارتھ)۲۴ پرگنہ منتقل ہوگئے تو یہیں بود و باش ہوگئی، ۱۹۶۰ء میں مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی مغربی چمپارن سے ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کی تکمیل کی، یہاں ان کے حفظ کے استاذ حضرت قاری ظہور الحق مرحوم تھے، ۱۹۶۷ء تک اسی ادارے سے کسبِ فیض کرتے رہے، اور اپنی مادرعلمی کی مناسبت سے ریاضی اپنے نام کا جز بنا لیا، تجوید کی تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند ۱۹۶۸ء میں گئے اور دوسال وہاں کے ماہر فن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ۱۹۷۰ء میں تجوید کے رموز و فن کے حصول کے بعد فراغت پائی۔

تدریسی زندگی کا آغاز ۱۹۷۱ء میں آزاد مدرسہ ڈھاکہ مشرقی چمپارن سے کیا، اس زمانہ میں مولانا مظہر عالم صاحب دامت برکاتہم خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں تدریسی خدمت انجام دے رہے تھے، دونوں میں مزاجی ہم آہنگی تھی، ڈھاکہ کے دوران قیام ۱۹۷۲ء میں ایک بیوہ سے وہیں نکاح کر لیا، جو صالح مزاج کی حامل اور شریعت کی پابندایک خاتون تھیں،فرائض کا ذکر ہی کیا، نوافل، اشراق، چاشت،تہجد وغیرہ کی نماز بھی نہیں چھوٹتی تھی،آخری عمر میں دماغی طور پر ماؤف ہوگئ تھیں اس کے باوجود نمازوں کے سلسلے میں ان کی حساسیت میں کمی نہیں آئی تھی،خدمت اہلیہ کی زندگی میں بھی قاری عبد الوحید صاحب اور دوسرے شاگرد کیا کرتے تھے تاہم انہیں اہلیہ کی جدائگی کا بڑا ملال تھااور وہ اپنے کو تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔

۱۹۷۵ء میں جب مکھیا اکرام الحق صاحب مرحوم زمانہ دراز سے چل رہے مکتب کو مدرسہ کی شکل دینے کا ارادہ کیا تو مولانا محمد داؤد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفر پور نے حضرت مولانا مظہر عالم صاحب مدظلہ کی طرف رہنمائی فرمائی؛چنانچہ حضرت شیخ کی ایماء سے وہ چین پور بنگرہ چلے آئے، اور قاری صفدر صاحب کو بھی آزاد مدرسہ ڈھاکہ سے یہاں منتقل کر لیا، تب سے قاری صاحب ۲۰۱۹ء کے اپریل تک یہاں خدمت انجام دیتے رہے، اس درمیان بڑے نامور شاگرد انہوں نے پیدا کئے جن میں حضرت مولانا ذاکر حسین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ مدھوبنی ، مولانا عبد اللہ صاحب ویشالوی، مفتی ثناء اللہ صاحب قاسمی ویشالوی، مولانا اسلام انجم مظفر پوری، مولانا عبد الجبار صاحب مظفر پوری، مولانا محمد اقبال صاحب مظفر پوری، قاری انصار احمد صاحب دربھنگوی، مولانا احتشام صاحب مظفر پوری، مفتی ثناء اللہ صاحب خان پوری، حافظ قمر الہدی و مولانا محمد علی خان پوری، مولانا تاج الہدیٰ صاحب ویشالوی قابل ذکر ہیں۔وہ اپنے شاگردوں پر عام زندگی میں بڑے شفیق اور سبق، سبقا پارہ اور آموختہ سننے سنانے کے معاملے میں بہت سخت گیر تھے،یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگردوں کو اسباق ختم کرنے کے بعد دور کی ضرورت کم بڑا کرتی تھی، میرا اپنے بھتیجہ تاج الہدیٰ کے بارے مشاہدہ ہے کہ وہ جتنا سبق پڑھتا تھا رمضان میں اتنے پارے تراویح میں سنا دیا کرتا تھا،آج بھی میرے خاندان میں نصف درجن سے زائد حفاظ کرام ہیں لیکن تاج الہدیٰ کی یادداشت کی بات ہی کچھ اور ہے۔

مولانا عبد القدیر صاحب نے جب ان کی پیرانہ سالی اورضعف ونقاہت کی وجہ سے معذرت کرلی تو وہ شعبان میں گھر گئے تو پھر نہیں آۓ، اور پندرہ ماہ کے بعد اس دنیا کو ہی الوداع کہہ دیا۔

قاری صفدر علی ریاضی سے میری دید و شنید پرانی تھی، پھر جب میرا بھتیجا عزیزم تاج الہدیٰ حفظ قرآن کے لئے مدرسہ محبوبیہ میں داخل ہوئے تو اس کی وجہ سے میرا آنا جانا وہاں زیادہ ہونے لگا، مولانا مبین الحق تو میرے درسی ساتھی ہی ہیں،مولانا ذاکر حسین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ شفقت سے پیش آتے تھے، اور قاری صاحب کی محبت ان تمام پر فزوں تھی، دھیرے دھیرے ان سے میری قربت بڑھنے لگی تھی اور ان کی بزرگانہ توجہ مجھے حاصل تھی، انہوں نے پوری زندگی میں مجھے ایک ہی خط لکھا جو میری کتاب نامے میرے نام میں شامل ہے، اس کے حرف حرف سے ان کی محبت ٹپکتی ہے، اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں میری قدر و منزلت کس قدر تھی۔لکھتے ہیں:

"جناب مفتی صاحب میں آپ کے اخلاق سے اس قدر متأثر ہوں جو اپنی کم علمی کے سبب الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، حالانکہ آپ سے میری چند ملاقاتیں ہیں، پھر بھی دل آپ سے اس قدر لگا ہوا رہتا ہے، جیسا کہ سالہاسال سے خاص مراسم رہے ہوں، آپ کی بلندی مرتبہ اور انتہائی مشغولی سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے، اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ باری تعالیٰ مزید علم و عمل کے میدان میں اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی عطا فرمائے”

آگے لکھتے:

۲۵/مئ کو آپ کے ساتھ کا سفر بہت دنوں تک یاد رہے گا، شکرہ جاتے وقت گاڑی میں آگے بیٹھنا میں نے یہ سمجھ کر منظور کرلیا تھا کہ وہاں دوآدمی کی سیٹ ہوگی اور میں آپ کے ساتھ رہوں گا، سوار ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ ایک ہی سیٹ ہے، اور وہ آپ کے علاوہ کسی کے لیے مناسب نہ تھی اور اپنے بیٹھنے کی ندامت اب تک ختم نہ ہوئی۔۔۔۔۔آخر میں اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مراتب کو اس قدر بلند کرے کہ وہاں کسی کا خیال بھی نہ جاتا ہو(نامے میرے نام ص ۹۴،۹۵)

یہ خط انہوں نے مجھے ۱۴/جمادی الثانی ۱۴۲۸ء کو لکھا تھا، مدرسہ اسلامیہ شکرہ کے جلسہ میں جاتے ہوئے میں نے انہیں چین پور بنگرہ سے لے لیا تھا، ان کی بزرگی کی وجہ سے میں نے انہیں آگے بیٹھایا، ان کے اکرام کی یہی ایک شکل اس وقت میرے ذہن میں آئی تھی؛لیکن وہ مجھ سے جس قدر محبت کرتے تھے اور ان کے دل میں میرے لئے جو قدر و منزلت تھی، اس کی وجہ سے انہیں احساس تھا کہ مجھے آگے بیٹھنا چاہئے تھایہ احساس انہیں ندامت تک لے گیا، جس کا اظہار انہوں نے برملا کیا، یہ پرانے وضع کے لوگ تھے، جن کی محبت”حبی فی اللہ”کی مثال ہوا کرتی تھی، بے غرض، بے لوث، مفادات اور تحفظات سے دور نہ باتوں میں گھما پھرا ہوتا تھا اور نہ شخصیت پیچ در پیچ ہوا کرتی تھی، اب ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں، سب کچھ عنقاء ہوتا جارہا ہے۔

قاری صاحب جیسے بافیض شخصیت کا گذر جانا میرے لئے سوہان روح ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے خاندان کا کوئی فرد مجھ سے بچھڑ گیا،اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور ان کے شاگردوں کو اس غم کے برداشت کرنے کا حوصلہ بخشے آمین یارب العالمین۔

Comments are closed.