ایک قدم ملت کو خود کفیل بنانے کی طرف ذوالقرنین احمد

ایک قدم ملت کو خود کفیل بنانے کی طرف

 

 

 

ذوالقرنین احمد

 

(فری لانس جرنلسٹ)

 

 

محترم حضرات آپ ملک کے موجودہ حالات سے واقف ہونگے کس طرح سے کورونا وائرس کے نام پر نفرت کا کاروبار کیا جارہا ہے اور مسلمانوں پر اس وائرس کے پھیلنے کا ٹھکرا پھوڑ دیا گیا ہے۔ فرقہ پرست میڈیا نے حکومت کے اشاروں پر کورونا وائرس پر اتنی نفرت مسلمانوں کے خلاف دیگر کمیونٹی کے دل و دماغ میں بھر دی ہے کہ اب ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ خاص طور سے ان غریب عوام کو نفرت اور حقارت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو گلی محلے میں گھوم پھر کر چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں یا سبزی ترکاریاں وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ دراصل میڈیا کا یہ رویہ بھی حکومت کی نگرانی میں ہی عروج پاتا ہے۔

 

ملک کے مسلمانوں پر جب بھی حالات آتے ہیں وہ وقتی طور پر آگے بڑھ کر اسکا مقابلہ کرتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں وہ مار کھا جاتا ہے اور ایک عظیم نقصان سے دوچار ہوتے ہیں جسکے پیچھے فرقہ پرست عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر کلین چٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن اصل مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ہے جب بھی حالات آتے ہیں وقتی طور پر اعلانات، لائحہ عمل، اور طریقے پیش کیے جاتے ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو مضبوط کرنا اور انکے خلاف نفرت کو ختم کرنا بھی شامل ہیں لیکن ان حالات اور پریشانیوں کے گزر جانے کے بعد مسلمان پھر سے اپنی اصل زندگی کی طرف روا دوا ہوجاتے ہیں کوئی کسی کو بھی ملت کے اجتماعی مفادات اور مستحکم کرنے کی فکر لاحق نہیں ہوتی ہے سب اپنے کاموں میں مست عیش پرستی کی زندگی گزارنے میں مگن ہوجاتے ہیں۔

 

 

یہیں وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو مضبوط قیادت نہیں مل سکی ناہی کوئی انکے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کیلے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے ناہی کوئی انکی نمائیندگی کرتا ہے۔ بلکہ صرف آج تک ملی تنظیموں اور ملی قائدین نے اور  ہم مسلمانوں نے کسی بھی مسٔلے کا حل ایک میمورنڈم تہصیلدار، تھانیدار، رکن اسمبلی، ممبر آف پارلیمنٹ، صدر جمہوریہ کو ارسال کردینا سمجھتے ہیں۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے مسٔلے کو حکومت کے سامنے رکھیں گے۔ یہیں باتیں اور یقین دہانیوں کے سہارے مسلمان سیاست دانوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے آئے ہیں۔ لیکن انکے مسائل آج تک حل نہیں ہوسکے۔ اسی طرح مسلمانوں کو صرف یہی لگتا ہے کہ انکے اصل پریشانیاں اور مسائل صرف گلی محلے کی نالیوں کی سفائی نہ ہونا، نل کا پانی ہفتوں ہفتوں نہیں آنا، سڑکوں کا نالیوں کی خستہ حالت، کسی نالی پر دھابے کا نا ہونا، یہ مسائل کو لیے کر ہی چلا پکار کرتے ہیں۔ جبکہ  انکی نمائیندگی نہ ہونے کی وجہ سے یا وہ نمائندے لوٹیرے ہونی کی بنا پر یہ مسئلے بھی حل نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے کبھی اصل مسائل اور پریشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی ہے۔ کہ کبھی ایسا میمورنڈم بھی کسی ایجوکیشن منسٹر کو دیا گیا ہو کہ ہمارے شہر گاؤں علاقے میں سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم خستہ ہوچکا ہے ہمارے بچے دسویں جماعت میں داخل ہونے کے بعد بھی کسی بھی زبان کو پڑھنے لکھنے سے قاصر ہیں۔ انھیں مادری زبان تک پڑھنا لکھنا نہیں آتی ہے۔ یہاں پرائیویٹ اسکولوں کی فیس زیادہ ہے لیکن تعلیم وہاں پر اچھی ملتی ہے لیکن غریب عوام کہا سے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلا سکتی ہیں۔

 

اسی طرح ہم نے کبھی کسی حکومتی سے ریاست میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے تعلق سے کوئی بحث ومباحثہ نہیں کیا ناہی مطالبہ کیا گیا۔ ناہی کبھی ہم نے اقلیتی میڈیکل کالج کیلے شہر میں قیام کیلے کوشش کی ناہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کا مطالبہ کیا۔ لیکن آج مسلمانوں کو اس بات کا افسوس ہورہا ہے کہ کورونا وائرس کے نام پر فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے برادران وطن کے ذہنوں میں نفرت کو پروان چڑھانے کا کام کیا، روزانہ ایسے واقعات سننے میں آرہے ہیں مسلمانوں میں جو عمر دراز بزرگ مرد خواتین ہے جو دیگر دوسری بیماریوں جیسے بلڈ پریشر، ہرٹ ، شوگر، وغیرہ سے متاثر ہے اور جن کا علاج جاری ہے وہ اس کورونا وائرس و لاک ڈاؤن  کی وجہ سے  علاج کروانے دیگر کمیونٹی کے بڑے ڈاکٹرز کے پاس جاتے تھے، لیکن میڈیا وائرس کے ذریعے پھیلائے گئے زہر کی وجہ سے مسلمانوں کو ہاسپٹل میں بھرتی نہیں کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر انہیں باہر سے واپس کردیتے ہیں، انہیں فوری علاج نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ متاثر مریض راستوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔

 

 

مسلمانوں کی گزشتہ 70 برسوں اور موجودہ حالت کو سمجھنے کیلے یہ مثال کافی موثر ثابت ہوسکتی ہے کہ بندر کو بارش کے وقت یہ بات یاد آتی ہے کہ اس سال گھر بنانا تھا۔ لیکن پھر بارش شروع ہونے کے بعد وہ سوچتا ہے کہ اب اگلے سال گھر ضرور بنائیں گا۔ ایسی ہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہیں حال مسلمانوں کا ہے۔ کورونا وائرس سے پھیلی مذہبی نفرت کے بعد یہ بات مسلمانوں کو سمجھ آرہی ہیں کہ کاش ہمارے اپنی کمیونٹی کے بڑے ڈاکٹرز اور خصوصی امراض کے اسپتال ہوتے تو آج ہمیں نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور ناہی اس طرح سے سڑکوں پر اور اسپتالوں کے باہر ہمارے بزرگ دم توڑتے موت و حیات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن ہمیں نبی کریم ﷺ  نے علاج کرنے کی تعلیم دی ہے۔

 

اس لیے اب اور وقت ضائع کیے بغیر اور ملی تنظیموں قائدین، سیاستدانوں کو طعن و تشنیع کرنے کے بجائے اپنے حصے کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں بھی آپ کو معاشرے میں تاریکی دیکھائی دیتی ہے وہاں ایک دیا روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ خود آفتاب بن کر ابھرنے کی ضرورت ہے۔ مسائل اور پریشانیوں کا اور وسائل کی کمی کا رونا رونے سے حالات آپ کے موافقت میں نہیں آسکتے۔ کیونکہ تاریخ صرف فتوحات یاد رکھتی ہے عذر قبول نہیں کرتی ہے۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اب نیا انقلاب بن کر ابھرے ملت کے باشعور نوجوانوں اور تعلیم یافتہ افراد مالی امداد کرنے والے مخیر حضرات اور صاحب ثروت افراد کو چاہیے کہ آگے بڑھ کر ملت کو خودکفیل بنانے کیلے راہے ہموار کریں راستے فراہم کریں۔ ہر شہر ہر گاوں ہر ضلع میں ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ ہر شہر سے ہر سال پرائمری سکول سے لے کر اعلی تعلیم میڈیکل، ڈاکٹر، انجینئرنگ، آئی ٹی ، اور دیگر ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کروانے کیلے ہر اسکول سے ہر کلاس کے ذہین ،ہشیار، طلباء و طالبات کا ذہنی آزمائش اور اسلامی تعلیمات پر ٹیسٹ لے کر اس میں کامیاب ہونے والے ضرورت مند طلبہ کے اخراجات شہر گاؤں ضلع کے ذمہ دار اور مخیر حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کر ذمہ داری قبول کریں۔

 

جہاں اسکولیں نہیں ہے یا پھر بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسکول کم ہے وہاں کے لیڈروں سے ووٹ دینے سے پہلے اسکول قائم کرنے کا مطالبہ کریں جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا کوئی ووٹ نہ دے۔ اسی طرح اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے سرکاری سائنس کالجز نہ ہو وہاں بھی اس طرح کا فارمولہ استعمال کریں۔ ہر ضلع میں مسلمانوں کا ایک بڑا ہسپتال قائم کرنے کیلے بڑے پیمانے پر ضلع بھر کے مخیر اور بے لوث خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر اور ملت کے خیر خواہ افراد کی تنظیم بناکر بڑے اسپتال کیلے جگہ خرید کر آگے کی پلاننگ کریں۔ اسی طرح  ہر ریاست میں  سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے مسلم یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کریں۔ اپنی طاقت کو پہیچھانے دوسروں کے بھروسہ رہے کر ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ستر سالوں میں کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو کیا دیا ہے سوائے مسلمانوں کو پستی میں دھکیلنے کے۔  اس لیے اب آنکھ کھولیے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے ملت کو خود کفیل بنانے کیلے آج ہی سے اقدامات کیجیے ملت کی ایسی بہت ساری تنظیمیں ہے جن کی صرف باڈی بنے ہوئی ہے لیکن انکے پاس کام کرنے کیلے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ یا پھر جب بھی مسلمانوں پر حالات آتے ہیں تبھی انکی مدد کرکے سمجھتے ہے کہ وہ اب بری ذمہ ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ حالات ہماری مخالفت میں شدت اختیار کر جائے ہم اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو خود کفیل بنانے کیلے کوشش کریں اسی طرح سے ملت کی پسماندگی دور ہونگی لیکن اس سب کے ساتھ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی فرمانبرداری ضروری اور لازم ہے اسکے بغیر ہم نہ دنیا میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور ناہی آخرت میں۔

Comments are closed.