عیدقربان معارف واسباق ⁦✍️⁩قسیم اظہر

عیدقربان معارف واسباق

⁦✍️⁩قسیم اظہر

 

قطروں کی قربانی کیا ہے؟ دریا میں فنا ہو جانا، پروانوں کی قربانی کیا ہے؟ شمع پہ اپنی جان نچھاور کر دینا، آسمان کے تقاطر امطار کی قربانی؟ بنجر زمین کو زرخیزی اور سرسبزو شادابی میں تبدیل کردینا، ایک انسان کی قربانی؟ اپنے پیدا کرنے والے پر فدا ہو جانا، اپنی جان کو اس کے سپرد کر دینا، خود کو اس کے آگے قربان کر دینا، اس کی چوکھٹ پہ سر رکھ کر خود کو سرینڈرکر دینا، اس کے احکام کے نفوذ میں اپنے جذبات کا گلا گھونٹ دینا، اس کی مشیت کی تکمیل کی خاطراپنی خواہشوں اور ارمانوں کو زیر زمین دفن کر دیناہی قربانی ہے۔

 

 

انہی اوصاف کے حامل وہ باپ بیٹے تھے جنہوں نے اپنے پالنہار کی وفا شعاری اور اطاعت گزاری میں آسمان و زمین کو حدیث زندگی کا وہ باب پڑھایا کہ آج تک وہ حیران و سرگرداں ہے، اور رب کعبہ کو ان کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اپنے ان مٹ صحیفے میں اسے زندہ کردیا۔

 

 

فصل لربک وانحر (کوثر)٣٠پ

صلوۃ کے بعد نحر کا ذکر کرکے اس کے مرتبت کو مزید بڑھایا، چوں کہ "نماز بدنی اور جسمانی عبادتوں میں عظیم عبادت ہے، اور قربانی مالی عبادتوں میں اس بنا پر خاص امتیاز اوراہمیت رکھتی ہے کہ اللہ کے نام پر قربانی بت پرستی کے شعار کے خلاف ایک جہاد بھی ہے، مشرکین کی قربانیاں بتوں کے نام پر ہوتی تھیں”(معارف القرآن، مفتی شفیع عثمانی)

 

 

قرآن کی ایک دوسری آیت "ان صلاتی ونسکی” سے یہبات ثابت ہوتی ہے کہ بت پرستی اور غیراللہ کی قربانی کی مخالف کرو، (حافظ ابن کثیر)

 

 

"قربانی” اصل میں قربان سے ماخوذ ہے اور قربان کی تعریف میں صراح کی عبارت” قربان بالضم وھو مایتقرب بہ الی اللہ تعالیٰ” اور عرب کہتے ہیں” قربت للہ قربانا” قربانی اللہ سے تقرب حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

 

 

 

قربانی عبادت مالی کے ساتھ عبادت بدنی بھی ہے اور "قواعد شرعیہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بدن کے تکلیف کاسبب نفس ہے اگر نفس نہ ہو تو تکلیف بھی نہ ہو آپ نف سے خالی جسم کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے، پس اتعاب بدن کی اصل اتعاب نفس ہے، اگر آپ قربانی میں نفس کی مشقت ثابت کردیں تو اس میں عبادت بدنیہ کے معنی بھی ثابت ہو جائیں گے۔(روح العج والثج ص٣٧٩) اور قربانی میں نفس کی مشقت واقعۃ موجود ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے؟جانور کے حلقوم پر چھری چلاتے دل دکھتا ہے اور بڑی کوفت ہوتی ہے، یہاں تک کہ کچھ لوگ خود سے ذبح کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

 

 

لہذا” قربانی کی اصل، یعنی نفس کا اعتبار کرتے قربانی خالص عبادت بدنیہ ہوگئی، مالیت کا پہلو مغلوب ہوگیااور بد نیت کا پہلو غالب ہو گیا، بہرحال یہ قربانی عبادت مالی اور بدنی سے مر کب ہوگئی”(روح العج والثج ص٣٩١)

 

 

عید قرباں کے ذریعہ تقوی کا اعلی درجہ حاصل ہوتا ہے،”جیسا کہ لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم” میں ایک خاص تقوی کی طرف اشارہ ہے، جسے قرآن کی زبانی سمجھنا آسان ہے” یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون” یعنی مندرجہ آیت میں اسلام پہ خاتمے کو کامل تقوی بتایا گیا ہے اور اسلام تو سپرد کر دینے کا نام ہے چنانچہ ارشاد ہے” ومن احسن دینا ممن اسلم وجہہ للہ وہو محسن واتبع ملۃابراہیم حنیفا” اور اس شخص سے اچھاکس کا دین ہو سکتا ہے جو خود کو اخلاص کے ساتھ خدا کے سپرد کردے ابراہیم کے طریقہ کا اتباع کرے جو خالص خدا کے ہو رہے تھے، جب اسلام کے معنی یہ ہے تو تقوی کا اعلی درجہ تو یہی ہوا کہ اپنی جان خدا کے سپرد کر دے کہ وہ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں۔

 

 

جیساکہ ابراہیم علیہ السلام نے سپرد کر دیا تھا،جس سے اس بات کا گرہ کھل جاتاہے کہ عید قرباں صرف کسی کی یادگار نہیں بلکہ اوامر اللہ کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کرنے کانام ہے، بلاچوں چراں اس پہ قربان ہوجانے کانام ہے، اسکے حکم کے آگے سرنگوں ہوجانے کانام ہے، اپنے پرور دگار کے واسطے فنا ہوجانے کانام ہے، جس طرح قطرہ دریا میں فنا ہوجاتاہے، جس طرح پروانہ شمع پہ قربان ہوجاتاہے۔

Comments are closed.