اردوغان کا پیام مسجد اقصی کے نام نوراللہ نور

اردوغان کا پیام مسجد اقصی کے نام
نوراللہ نور
اے ارض مقدس ؛ قبلہ اول ؛ خانہ خدا پیمبر کی معراج کا شاہد ؛ نبیوں کا مسکن ؛ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن یقینا میں بہت پشیماں ہوں کہ تجھے ان منکرین خدا ؛ باغیان مصطفے ؛ حامیان بتاں سے آزادی نہ دلا سکا مجھے ندامت ہے کہ تیری چو کھٹ بندگان خدا کی جبیں سے تشنہ ہے مجھے رنج ہے کہ تیرے میناروں پر خاموشی نے پہرے ڈالے ہیں مجھے علم ہے کہ تو ہماری بے التفاتی وعدم توجہی سے نالاں ہے میں کیا کروں صدیوں سے اسی تگ و دو میں ہمہ تن کوشاں ہوں کہ تیری آغاز نو کروں تیری میناروں کو آراستہ و پیراستہ کروں تیرے بام و در کو بندگان خدا کے لیے وا کروں مگر افسوس ہے میری اس راہ میں میرے اپنے ہی مخل ہیں ؛ میرے عزایم میں رخنہ اندازی کرنے والے میرے بھائی ہیں میں نے جب جب علم بغاوت بلند کیا ہے تو انہوں نے طعن و تشنیع کی نشتر زنی کی ہے ؛ اے نبی کے معراج کے امین سچ کہوں تیرے تخریب کاری کے منصوبے تیرے اپنوں نے ہی کیا ہے جن کو تو نے اپنے دامن میں دوگانہ کی اجازت دی وہی لوگ سیم وزر کی خاطر تیری رعنائی کا سودا کیا اے نبیوں کے نبوت کا شاہد تو تو بے زباں ہے مگر تجھے پتہ ہے تجھے اپنی سجدہ گاہ ماننے والوں نے تیرے صحن میں تیری عظمت کا سودا کیا ہے وہ تیرے گردو پیش رہ کر بھی تیرے اپنے نہیں ہے ان کی دستاریں تیرے سامنے نہیں بلکہ صلیبی خداؤں کے سامنے خم ہوتی ہیں میں نے ہر جتن کیے لیکن اتنی ہی شدت سے یہ ریال پر رال ٹپکانے والے یہود و نصارٰی سے بغل گیر ہونے والوں نے سازشیں کی ہیں اور اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے چال بازی میں مصروف رہے انھوں نے راہ حق میں میری اعانت نہ کی مجھے اپنے تنہا ہونے کا یقین ہے لیکن مجھے معلوم ہے میں حق کا راہی ہوں فتح و ظفر مجھے نصیب ہوگی اور انشا اللہ تیرے میناروں سے وحدانیت کا نغمہ ماحول کو کیف و مستی سے معمور کر دےگا
مجھے تیرے غیض وغضب کا پورا علم ہے اور تیری بے عظمتی کا شدید قلق بھی ہے کیونکہ تیرے منبر و محراب صدیوں سے ہمارے منتظر ھے مگر ہم بے حسی میں مست و مدہوش خوابیدہ ہیں تیرے دشمن تیری مسماری کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ہم دنیاوی مصروفیت میں مخمور ہیں تیرے صحن میں ناحق خون ریزی ہو رہی ہے اور ہم خاموش تماشائی ہیں تیرے مصلے نمازیوں کے سجدوں سے محروم ھے اور ہم اس کے بازیابی کیلئے ذرا سا بھی متحرک نہیں ہے بلکہ لب بستہ کھڑے ہیں یقیناً عالم اسلام کی خاموشی سے تجھے اذیت ہو رہی ہے
اے میرے قلب کی تسکین میرا ایمان و یقین ارض معراج سیدا المرسلین کوئی تیری پکار سنے یا نہ سنے تیری آواز پر لبیک کہے یا نہ کہے تیرے درد کو کوئی محسوس کرے یا نہ کرے اور تیری بازیابی کے لیے کوی کوشاں ہو یا نہ ہو مگر رب کا ناتواں بندہ عاشق مصطفی آواز ضعیفاں ودرمند غریباں اردوغان آج تجھ سے وعدہ کرتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے منبر و محراب کو آراستہ کرونگا تیرے میناروں پر اذان کے پاکیزہ کلمات میں پڑھونگا تیرے ویران صحن کو بندگان خدا سے میں پر کرونگا تیرے عظمت و تقدس کا تحفظ اردوغان اپنی جان سے زیادہ کرے گا بس تھوڑے صبر کی اور ضرورت ہے تیری مسماری کے خواب بننے والے اور خانہ ویران کرنے والوں کی آنکھیں نوچ ڈالونگا اے ارض مقدس تجھے لگتا ہے میں اکیلا ہوں میں صرف الفاظ میں رہ جاؤں گا ہاں میں تنہا ہوں لیکن میرا خدا میرے ساتھ ہے تیری بازیابی میرا پہلا اور آخری مقصد ہے اگر اس راہ میں اب میرے اپنے نے بھی روڑے ڈالے تو خیر نہیں میں ضرور بازی جیتونگا بس تھوڑا تحمل اور درکار ہے ۔
وہ کیا ہے نہ میں تو سوچا کہ آیا صوفیا کے ساتھ تیرا بھی قضیہ حل کر لوں لیکن کیا کروں آیا صوفیا کی تعمیر نو سے بہت سے دل چھلنی ہے اور بہت سے لوگ اذیت میں ان کی ہزیمت کا درد ابھی تازہ ہے اس لیے تھوڑی تاخیر ہوگی کیونکہ ان کی شکست دیکھ کر دل کو تسکین ملتی ہے تو ذرا وہ اپنے زخموں پر مرہم پٹی کر لیں اس کے بعد پھر تیری تعمیر نو سے ہم نمک پاشی کریں گے اور آخری سانس تک ان کو اذیت میں رکھیں گے کیونکہ انہوں نے بھی بہت گھاؤ دیے ہیں اور یہ دنیا مکافات عمل ہے تو ان کو ان کے کیے کا ثمرہ ملنا چاہیے اور آخری بار پھر یہ حقیر وعدہ کرتا ہے کہ تجھے آباد کر کے ہی دم لونگا
Comments are closed.