Baseerat Online News Portal

صحت مند معاشرے کی تشکیل: ضرورت اور امکانات قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

صحت مند معاشرے کی تشکیل: ضرورت اور امکانات

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

اس عنوان کے تحت دوباتیں نہایت ہی اہم ہیں ۔

١۔معاشرہ۔کے افراد کا ہم خیال اور فکروعمل میں متحد ہونا

٢۔کسی معاشرے اوریکجا گروہ کی شکل میں جینے اور بسنے والے لوگوں میں ایک دوسرے کےساتھ خیرخواہانہ جذبات اور ہمدریوں کا پایاجانا۔۔

معاشرے ۔کو متحد ۔مظبوط اورانسانی روش پر برقرار رکھنے اوررہنے کے لٸے ۔یہ دونوں چیزیں ۔اعصابی نظام اورریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔کسی بھی معاشرے سے اگر یہ دونوں یا ان میں سے کوٸی ایک چیز بھی ختم ہوجاۓ تو معاشرہ اپنی اخلاقی اسپرٹ پر قاٸم اور باقی نہیں رہ سکتاہے۔اس وقت دنیا کے تمام ملکوں اورانسانی گروہوں کی یہی صورت حال ہے۔۔اور معاشرتی بدامنی کی بنیادی وجوہات میں سے ان کا رخصت ہوجاناہے۔البتہ دنیا کے جن خطوں جیسے آسٹریلیا ۔برطانیہ۔۔نیوزی لینڈ ۔یوکرین۔لتھووینیا۔بیلاروس۔سنھگاپور ۔بروناٸی۔بعض افریقی اور یورپی ممالک میں کچھ امن وامان کی صور حال اگر پاٸی بھی جارہی ہے تو وہ صرف اس لٸے کہ ان ملکوں میں ۔انسانوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے بےگانگی۔عدم دلچسپی۔سیاسی اتھل پتھل سے دوری ۔اور جیو اور جینے دو اور اپنے کام سے کام رکھو کی پالیسی پر عمل ہے۔جسے پرامن ضرور کہاجاسکتاہے ۔مگر حقیقی معاشرتی مشن اور خطوط پر اسے بھی قاٸم نہیں کہا جاۓ گا۔

اور جن ملکوں کے لوگوں میں سیاسی معاملات سے زیادہ دلچسپیاں نظریاتی اور فکری ناہم آہنگیاں۔اور گروہی رسہ کشی پاٸی جاتی ہے۔ ان ملکوں میں بدامنی کی صور حال زیادہ ہے۔جیسے ایشیاٸی ممالک امریکہ۔اور مغربی یورپی خطے ۔

 

اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان کامعاشرتی نظام کیسے وجود میں آتاہے۔اور ارفراط وتفریط کہاں کہاں پاٸی جاتی ہے ۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے بی اے اور ایم اے کے نصابوں میں شامل سماجیات کی کتابوں کے مطابق۔خاندان کا آغاز ایک مرد اور ایک عورت کی ازدواجی زندگی سےاور انسانی سماج اور معاشرہ کی ابتدا ٕایک گھر اور خاندان کے چند افراد پرمشتمل اکاٸی اور آبادی سے ہوتاہے ۔اور پھر وہی وسعت پاکر قباٸل اور کثیر آبادی میں منتقل ہوجاتاہے۔۔

خاندانی نظام کا یہی فلسفہ اسلام کابھی کتاب وسنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے ۔جیسا کہ” سورہ نسا ٕ“کی پہلی آیت۔:”یاأیھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة ۔وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیراونسا ٕ۔واتقوا اللہ الذی تساٸلون بہ ۔والارحام۔إن اللہ کان علیک رقیبا“ (سورہ نسا ٕ۔١۔)(اے لوگو أ اپنے اس پیداکرنے والے پالنہار سے ڈرو جس تم کو ایک نفس یعنی آدم سے پیداکیا۔اور اس سے اسکا جوڑا یعنی حواکوپیداکیا اور ان دونوں سے بےشمار مردوخواتین کو پھیلادٸیے۔۔اس ذات سے ڈرو جن کے نام کاواسطہ دے کر رشتے مانگتے ہو۔یقینا اللہ تعالی تمہارےاوپر نگرں ہے۔)۔اسی معاشرتی مناسبت کی وجہ سے یہ آیت کریمہ مسنون طریقے پر۔ نکاح کے خطبہ میں پڑھی جاتی ہے۔

 

حقیقت پسندانہ موازنہ:

اس وقت دنیا میں موجود سماجی اورمعاشرتی نظام میں اوراسلام کے معاشرتی نظام میں فرق پایاجاتا ہے اوروہ یہ ہے کہ دنیا کایہ نظام سیاست کی کوکھ سے جنم لیتاہے۔ اور اسلام کامعاشرتی نظام ۔انسانی قرابت داری اورانسانی رشتوں کی پاسداری کے صلب سے۔ظاہر ہے ایک انصاف پسند انسان اگر انصاف کی نظروں سے دیکھے گاتو اسے اسلام کامعاشرتی نظام سب سے زیادہ پاٸدار اوروزنی دکھاٸی دے گا ۔کیونکہ ۔سیاست سے جنم لینے والے کسی بھی نظام میں ۔بے اعتدالی۔اورناانصافی کا امکان ہے۔ مگر قرابت اور پاسداری پر مبنی نظام میں ناانصافی نہیں۔ بلکہ مساوات ہے۔قربان جاٸیے ایسے نظام زندگی پر۔

اب ہم بات کرتے ہیں عنوان پر۔۔غورطلب بات یہ ہے کہ جب ہم انسان کے صحت مند اور صالح معاشرہ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ذہن میں یہ بات رکھنی چا ہیٸے ۔کہ انسانی صرف ۔ہزاروں اونچے اور پکے مکانوں میں رہنے والی انسانی آبادی ۔جسے کسی سے کوٸی مطلب نہ ہو۔اور ہر شخص صرف معاشی اوراقتصادی ۔برتری کی دوڑ میں بھاگ رہاہو ۔ہر شخص کی پارکنگ میں موٹر گاڑیاں کھڑی ہوں ۔ہر شخص صرف رفع حیات کی بات کرتاہوا نظر آرہاہو ۔نہیں ۔صالح اورصحت مند معاشرہ مطلب ہے ۔انسانیت کا ہمدرد معاشرہ ۔دوسروں کی خیر خواہی کے جذبہ سے سرشار انسانی جماعت ۔جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو ۔معاشرے کمزوروں کے ساتھ وہاں کا انسان کھڑا ہو ۔اپنی آبادی کو ہر طرح کی براٸی سے پاک کرنے کی تدابیر کرتاہو۔اس آبادی میں حواکی بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ ہوں ۔بزرگوں کو احترام وقدردانی پرمبنی مقام دیاجاتا ہو ۔بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دی جاتی ہو ۔جنسی بے راہ روی کے تمام راستوں کوبند کٸے جانے کاخیال کیاجاتاہو نٸی نسل کی اخلاقی تربیت کانظام موجودہو۔بقاۓ باہم کے اصولوں کوبہ روۓ کار لایا جاتاہو ۔خوشی اورغم میں ایک دوسرے کی شرکت کو یقینی بنایا جاتاہو ۔برا ہو موجودہ سیاست کا جس نے مادی رسہ کشی۔اور حصول منصب کی ضد میں اس اخلاقی نظام کا گلہ گھونٹ رکھاہے۔اسی فلسفہ کو ایک شاعر دانا اور حکیم نے کہاتھا :

”درد دل کے واسطے پیداکیاانسان کو۔

ورنہ طاعت کے لٸیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں“

گویا انسان سے ہمدردی رکھنے والی انسانی آبادی ۔صحت مند معاشرہ کی حقیقی مصداق ہے۔۔کیاایسی آبادی اب روۓ زمین پر موجودہے۔؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔

دوسری بحث فکروخیال سے تعلق رکھتی ہے۔اس عنوان میں بحث کی بہت گنجاٸش ہے۔پورے معاشرے کاہم خیال ہونا اور ان میں فکری وحدت کا پایا جانا تو ممکن نہیں ہے ۔مگر اسلام اس بات پرزور ضرور دیتاہے کہ انسان اور خالق کے درمیان جو معرفت واعتقاد کا معاملہ ہے وہ بنیادی طورپر مستحکم اورمتحد ہوناچاہٸے۔جسے ایمانیات سے تعبیر کیاجاتاہے۔اورمعاشرے کے ہر اس فرد کو صحیح فکری نہج کو اختیار کرنے والاکہاگیاہے۔جوآیت قرآنی”آمن الرسول بماانزل إلیہ من ربہ والمٶمون۔کل آمن باللہ وملاٸکتہ وکتبہ ورسلہ۔ لانفرق بین أحد من رسلہ۔وقالوا سمعنا وأطعنا غفرانک ربنا وإلیک المصیر ۔لایکلف اللہ نفسا إلا وسعھا“(سورہ بقرہ۔٢٨٥) کی روشنی میں اس فکری اوراعتقادی رجحان کاحامل ہو۔

مگر اس کے باوجود اگر پورا معاشرہ ہم مشرب نہیں ہوتا تو بقاۓ باہم کے اصول کے تحت ۔ایسامعاشرہ وجودپذیر ہوسکتاہے جو مختلف الخیال ہونے کے باوجود انسانی رواداری اور ہمدردی میں اتحاد رکھتاہو۔جیساکہ نبی خاتم المرسلینﷺ کے ذریعہ انجام پانے والے میثاق مدینہ ۔سے پتہ چلتاہے ۔جس میں اس بات کو یقینی بنایاگیاہے۔اور ہم بحیثیت مسلمان موجودہ حالات میں اسی کے پابندہیں :”لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنة ۔لمن کان یرجوااللہ والیوم الآخر وذکراللہ کثیرا“(سورہ احزاب:٢١۔۔)۔

اب مسٸلہ یہ ہے اور اس میں بھی ہمارے ملک بھارت کے پس منظر میں ۔جس میں کہ ۔ہم ٣٠ کڑور کی تعداد توضرورہیں ۔تاہم اس بات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکہ ۔سو کڑور کی غیرمسلم برادری کے ساتھ ہم زندگی بسر کررہےہیں۔جس میں بہت سی قانونی دشواریاں بھی ہیں۔اورسماجی بندشیں بھی ہیں۔اور اس پر ستم یہ ہے کہ یہ نفرت کاماحول عداوت اوردشمنی میں تبدیل ہوتاجارہاہے۔جو خود ہمارے وطن عزیز کے لٸے بھی کوٸی اچھی علامت نہیں ہے۔ اس میں صالح معاشرہ کی بات توبےسودہے۔ اگر صحیح انسانی معاشرہ بھی وجودپذیر ہوجاۓ تو بہت بڑی بات ہوگی ۔اورکم از کم اس کے فیض سے ہرانسان عزت سے جینے کی تمنا ضرور کرسکتاہے۔۔اس کے لٸے مندرجہ ذیل امورپر توجہ دینی ہوگی:

١۔دوستانہ ماحول کی طرف پیش رفت۔انفرادی بھی ہوسکتی ہے اوراجتماعی بھی۔۔جس میں اسلامی اقدار اور حسن اخلاق مظاہرہ مفید ثابت ہوسکتاہے۔

٢۔برادران وطن کے لب ولہجہ میں ہمدردانہ اقدار کی بحالی ۔اور مشترکہ ایجنڈا۔طے کرنا ۔اور مختلف پروگراموں کے ذریعہ اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا۔

٣۔مسلم خاندان کی ضرورت کاخیال کے ساتھ غیرمسلم برادران وطن ضرورت مند لوگوں کی اعانت۔ اس کے لٸے بہت سے مدات ہیں ۔

٤۔رنج ومسرت میں ۔اسلامی حدود کوسامنے رکھتے ہوۓ ۔شرکت۔۔

٥۔خیر اور بھلاٸی کی دعوت ۔اور ان کو بھی اسکے لٸے آمادہ کرنا ۔اوربطور خاص انسانی معاملات کی جن میں انکے اورہمارے درمیان اشتراک ہے۔

٦۔ان عناصر کے فکری قوت کوکم کرنے کی کوشش جو ملک میں انسانوں کے درمیان مذھب کےنام پرتفریق کاماحول ۔بنانے کی سازشوں میں ہیں ۔

٦۔مذھبی معاملات میں تنقید سے گریز اور”لکم دینکم“ کی پالیسی اختیار کرنا۔

٧۔مسلمانوں کا خود باہمی فرقہ وارانہ اورمسلکی وگروہی خیلیج کو کم کرنے کی طرف توجہ دینا۔اور ان لوگوں پر نظر رکھنا جو اس طرح کا ماحول بنانے کے درپٸے ہوں۔نادانی کامظاہرہ کرتےہوں۔اورممبرومحراب کا غلط استعمال کرتے ہوں۔

غرض یہ کہ انسانوں کے درمیان صحیح انسانی روش کے ساتھ زندہ رہنے کے لٸے۔صحت مندانسانی معاشرہ کی تشکیل ہماری ذمہ داری ہے۔اور ہمیں اس کی جدوجہد کامکلف بنایاگیاہے اور اس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ ہم کم ازکم صحیح انسانی معاشرہ ہی تشکیل دینے کی کوشش کرلیں۔تو ۔شاید اس سے اعلی مقاصد کی راہ آسان ہوجاۓ”وعلی اللہ قصد السبیل ولوشا ٕ لھداکم أجمعین“۔۔۔اللہ تعالی ہمیں اپنی ذمہ داری کو بدرجہ اتم انجام دینے کی توفیق مرحمت فرماۓ ۔آمین

Comments are closed.