قربانی جیسی عظیم عبادت کو رسم اور دنیاوی تہوار نہ بنائیے ! ✍ مفتی محمد شبیر انور قاسمی

قربانی جیسی عظیم عبادت کو رسم اور دنیاوی تہوار نہ بنائیے !
✍ مفتی محمد شبیر انور قاسمی
عظیم الشان عبادت قربانی کے اندر ایک عظیم مقصد پنہا ہے اور وہ ہے احکام الہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا کہ بندہ اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ اللہ کے لیے اپنی جان، مال، اولاد اور خواہشات سمیت ہر چیز کو قربان کرنے سے دریغ نہ کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں شریعت کی پیروی کرے ۔ یہی قربانی کی حقیقت اور فلسقہ ہے۔ یہی ہرسال قربانی کرنے کاسبق ہے کہ ہمیں رضائے الہی کے لیے سب کچھ قربان کرنا آجائے ۔ سنت ابراہیمی سے سب سے بڑا درس بھی یہی ملتا ہے کہ اللہ کا حکم پورا کرنے کے لیے والد نے بیٹے کو قربان کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کیا اور اللہ کاحکم بذریعہ خواب ملتے ہی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور سعادت مند بیٹا نے بھی اللہ کے حکم کی تعمیل میں کوئی پس و پیش کئے بنا ہامی بھر دی بلکہ بوقت ذبح والد کواپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لینے کی نصیحت بھی کی جو ادا رب کائنات کو بے حد پسند آیا اور اسے ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ بنا دیا ۔ الحاصل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا۔ قرآن پاک کے سورہ الصافات میں اس عظیم واقعہ کا تفصیلی ذکر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کرنے کو محض ایک عمل نہ سمجھاجائے ؛ بلکہ اس کا مقصد اور فلسفہ سمجھ کر اس سے سبق حاصل کیا جائے ۔
قربانی کی عظیم عبادت کا حاصل اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے بس ! اس کا تقاضا یہ ہے کہ قربانی کی عبادت کی انجام دہی میں قدم قدم پر یہی فکر اور خیال مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ خالص عبادت ہے اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہے ؛ اس لیے قربانی کاجانور خریدنے،اس کی دیکھ بھال کرنے، اس کو ذبح کرنے، اس کاگوشت تقسیم کرنے اور اس کے حصے بنا کر غرباء اور احباب و اقرباء میں بانٹنے تک کے تمام مراحل میں یہ تصور دل و دماغ سے اوجھل نہ ہونے پائے کہ یہ قربانی عبادت ہے اور اسے عبادت کی طرح عبادت کی نیت سے انجام دینا ہے تاکہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوسکے۔
جب قربانی کے تمام مراحل میں اس کے عبادت اور دینی شعار ہونے کا خیال اپنی نگاہوں میں رکھا جائے گا تو اس کے بہترنتائج ظاہر ہوں گے ۔ چنانچہ اس کی وجہ کر ہمیں قربانی بوجھ اور مالی نقصان محسوس نہیں ہوگا ؛ بلکہ ہم خوشی خوشی اللہ کاحکم سمجھ کر قربانی کریں گے۔ قربانی کاجانور خریدنے سے لیکر اس کے گوشت کی تقسیم کے معاملے تک ہم اس کے شرعی احکام معلوم کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر ہرقدم پر ہم شریعت کے احکام کو بجا لائیں گے ۔ ہماری نیت میں اخلاص و للہیت ہوگی اور ریاکاری اور نام و نمود سے گریز کریں گے۔ اورکسی قسم کے گناہ کے ارتکاب سے بھی بچیں گے ۔اور پھر ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قربانی عبادت ہی برقرار رہے گی اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگی۔
جب کہ قربانی کے موقع پر عبادت کا تصور دل ودماغ میں برقرار نہیں رکھنے کی صورت میں اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔ چنانچہ ہم قربانی کو ایک بوجھ سمجھ کر بے دلی کے ساتھ ادا کریں گے۔ اس سے متعلق شرعی احکام کو نہ سیکھنے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی شریعت کے ان احکامات کی پاسداری کی فکر ہوگی ۔ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ ہوگا اور ہم گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔ اور پھر ان باتوں کا نتیجہ ہوگا کہ قربانی میں عبادت کی روح برقرار نہیں رہتی بلکہ یہ ایک دنیاوی تہوار اور محض رسم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہماری قربانی اللہ کی بارگاہ میں کیسے قبول ہوسکے گی۔ موجودہ زمانے میں جو صورت حال نظر آ رہی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔اگر ہم نے اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کی اور خود کو ان برائیوں سے نہیں بچایا تو رفتہ رفتہ قربانی عبادت کی بجائے ایک دنیاوی رسم بن جائے گی اور نئی نسلیں اس کی حقیقت سے محروم رہ جائیں گی۔ اللہ تعالی ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔آمین یا رب العالمین
——————————————————————
* نائب قاضی شریعت و استاذ مدرسہ بدر الاسلام بیگوسراۓ
?9931014132
Comments are closed.